تحریر:وقار فیاض

پاکستان جب 1947ء میں وجود میں آیا تو یہ ایک صنعتی ملک نہیں تھا بلکہ یہاں بڑی زمین داری تھی اور جو تھوڑی بہت صنعت تھی وہ بھی بہت ابتدائی حالت میں اور بہت مخدوش تھی جس کو اُس وقت کے صنعتکار بالکل ہی دکانداری کے طریقہ کار سے چلاتے تھے۔ پاکستان بنتے ساتھ ہی ملک میں صنعتکاری کو فروغ دینے کی خاطر اقدامات کیئے گئے جس میں بڑی زمین داری کو قائم رکھتے ہوئے زرعی صنعت یعنی ایگرو بیسڈ انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کی وجہ سے وہ تمام بڑے زمین دار جنہوں نے اپنی زمینوں پر آٹے، چینی اور ٹیکسٹائل کی انڈسٹری لگائی وہ اب صنعتکار بھی بنتے چلے گئے جبکہ یہ انڈسٹری تو ضرور تھی مگر اس کو چلانے کا انداز بالکل جاگیردارانہ تھا۔ یہ لوگ مزدور کو اپنا کمیں ہی سمجھتے تھے اسکے علاوہ منڈی کے جدید تصورات سے مکمل طور پر بے بہرہ تھےاور آنے والے جدت سے نا اشنا ہونے کی وجہ سے اُنکے ہاں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کوئی تصور ہی نہیں تھا اس لیئے کوئی بھی نئی جدت دینے سے مکمل طور پر قاصر تھے۔ تمام مشینری اور ٹیکنالوجی باہر سے امپورٹ ہوتی تھی بلکہ آج بھی ہوتی ہے اس لیئے پہلے تو تمام ہیوی مشینری کی صنعت تو ملک سے باہر ہی رہی اور پھر چونکہ یہ اُن باہرکے ممالک کی صنعتوں میں لگی اس لئے بین الاقوامی مارکیٹ پہلے سے ہی اُن ممالک کے زیراثر آجاتی تھی پھر جب یہ مشینری ہمارے ملک میں آتی تو وہ ٹیکنالوجی قدرے پرانی ہو چکی ہوتی تھی پھر باہر سے پاکستان میں آنے کے اخراجات اور اُنکے  ساتھ پھر کنسلٹنٹس کا آنا اور اُنکے اخراجات یہ سب مل کر پیداواری لاگت کو بڑھا دیتا تھا  جس سے باہر کی منڈیوں بلکہ بسا اوقات ملکی منڈی میں غیر ملکی اشیاء کی قیمت کم اور ملکی اشیاء کی قیمت زیادہ ہو جاتی تھی جس سے بچنے کیلئے انڈرانوائسنگ، درآمد پر کسٹم حکام سے ملی بھگت، بجلی و گیس چوری اور پھر مزدوروں کو کم اُجرت، کام کا طویل دورانیہ اور کام کی جگہ کو بہتر نہ کرکے اپنے منافعوں میں اضافہ کیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔اس کے مقابلے میں ہندوستان میں ٹیکنالوجی کو درآمد کیا گیا جس سے اُنکی ملکی اشیاء کی قیمت نسبتاً کم رہی۔ 

جہاں تک ہیوی انڈسٹری کا تعلق ہے تو وہ سرکاری سرپرستی میں ہی رہی بلکہ 1952ء میں حکومت نے ایک ادارہ پی آئی ڈی سی کے نام سے بنایا جسکا کام ہی سرکاری طور پر انڈسٹری لگانا تھا تاکہ لوگوں کو روزگار میسر آسکے  بعدازاں اس ادارے نے اپنی انڈسٹری کو نجی سیکٹر میں فروخت بھی کیا۔ اس طرح ملک میں صنعت کو فروغ دینے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ یاد رہے کہ یورپ میں جب صنعت وحرفت کی ابتداء ہوئی یہ اُس کے برخلاف تھا وہاں کے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں نے مقابلہ کر کے یہ مقام حاصل کیا تھا اس لیئے اُن کو نامساعد حالات میں کاروبار کرنا آتا ہے جبکہ پاکستان میں ایک تو جتنی بھی صنعت وحرفت ہوئی اُس میں بڑا حصہ تو سرکاری سرپرستی کا رہا اور جو چھوٹے صنعت کار تھے وہ بھی غیر ملکی اشیاء پر پابندی لگوا کر ہی ملک میں اپنی صنعت کو فروغ دے سکے کیونکہ معیاری اشیاء سے وہ مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے تھے۔ 

پاکستان میں ایوب خان دور اقتدار کو پاکستان میں صنعتی دور کا سنہرا زمانہ کہا جاتا ہے کہ جب صنعت کو بہت دوام ملا۔ ایوب خان کے دور حکومت کا بنیادی اصول یہ تھا کہ پاکستان میں ایک صنعتی اور کاروباری طبقہ پیدا کیا جائے وہ صنعتیں لگائے اور اُنہی کے اردگرد کاروبار ترقی پائے اور لوگوں کو اُنکے صنعتی اور کاروباری مراکز میں نوکریاں ملیں جس سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکے اور صنعتی و کاروباری طبقہ اپنے ہوشربا منافع میں سے بڑے ہوٹل، ریزورٹ اور بلند و بالا عمارتیں بنائے اور حکومت اُنکے کاروباری خام مال اور مصنوعات کیلئے سڑکیں اور دیگر سہولیات فراہم کرے کیونکہ اس طرح ملک ترقی کرتا ہے۔یہ طریقہ کار آج بھی دنیا بھر میں چلتا ہے اور نہ صرف جدید ممالک بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کی ترقی کا آج بھی یہی اصول ہے۔بنگلہ دیش کی ترقی کی پاکستان بھر میں بہت مثالیں دی جاتی ہیں جبکہ وہاں بھی صرف بڑے کاروباری طبقہ کو مکمل طور پر آزاد کردیا گیا ہے جبکہ وہاں کا مزدور طبقہ انتہائی دگرگوں حالات میں کام کررہا ہے اُس کو نہ تو یونین سازی کے مکمل اختیارات ہیں اور نہ ہی کام والی جگہوں پر اچھے حالات ہیں کم اُجرت ہے اورکسی بھی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہیں جبکہ بڑے کاروباری حضرات کو ٹیکس کی چھوٹ سے لیکر لیبر لاز میں نرمی اور دیگر معاون حالات فراہم کیئے گئے ہیں جس سے اُنکے منافعوں میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے جس کے باعث خود پاکستان سے بہت سے کاروباری حضرات نے وہاں پر اپنی فیکٹریاں لگائی ہیں جبکہ ماضی میں ان بنگالیوں نے اسی پاکستان سے انہی بنیادوں پر آزادی حاصل کی تھی کہ یہ ہمارا استحصال کرتے ہیں اور جب ہم قومی بنیادوں پر آزاد ہونگے تو کوئی ہمارا استحصال نہیں کر سکے گا یہاں ایک بات یاد رہے کہ استحصال کبھی قومی بنیادوں پر نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ طبقاتی بنیادوں پر ہوتا ہے ہاں مگر طبقاتی مفاد کے لیے قومی استحصال ضرور ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ہم بخوبی کر سکتے ہیں۔ ان بڑے کاروباری حضرات کے  منافعوں کے باعث ملکی جی ڈی پی اور مجموعی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جس کو ملکی ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ ملک صرف بڑے مراعت یافتہ طبقہ کا نام نہیں بلکہ کروڑوں محنت کش عوام کا نام ہے جو ان فیکٹریوں کا ایندھن بنتے ہیں اور بدحالی میں بمشکل زندہ رہتے ہیں۔اسی طرح ہندوستان میں امبانی اور بڑے کاروباری ہر طرح سے مراعت یافتہ ہیں اور بائیس کروڑ محنت کش عام ہڑتال اور پہیہ جام کرتے پھرتے ہیں۔ انڈونیشیا میں جب ملک کو ترقی دینے کے نام پر فیکٹریوں میں کم از کم اُجرت کو ختم کیا گیا تو لوگ سراپااحتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اسی طرح ایتھوپیا جو اس وقت افریقہ کا سب سے زیادہ معاشی ترقی پانے والا ملک کہلایا جاتا ہے وہاں بھی محنت کرنے والوں کا نہایت برا استحصال ہو ریا ہے اور یہ سب کچھ معاشی ترقی اور اُسکے مروجہ اصولوں کے عین مطابق ہے۔ یہی سب کچھ ایوب خان دور میں پاکستان میں بھی ہو رہا تھا اور ایوب خان نے 22 خاندانوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی جسکے نتیجہ میں مزدوروں کے حالات بہت دگرگوں تھے فیکٹریاں اور کارخانے کھل رہے تھے سرمایہ دار طبقہ کی زندگیوں میں انتہائی خوش کن تبدیلی آرہی تھی جبکہ محنت کش عوام اُسی چکی میں پسا جارہا تھا جسکا زکر ہم اُوپر کر چکے ہیں اور جس کو قومی معاشی ترقی کہا جاتا ہے جسکی آڑ میں صرف سرمایہ دار طبقے اور اوپر کی اشرافیہ کے مفاد میں پالیسی سازی کی جاتی ہے۔  اسکا اتنا شدید ردعمل آیا کہ فیکٹریوں میں وہاں کام کرنے والے مزدوروں نے اُن فیکٹریوں پر قبضے کرلیئے اور اُن کارخانوں کو خود چلانا شروع کردیا۔

حکمران اشرافیہ کی کشمکش،نظام کے عدم استحکام اورلیفٹ کے دیوالیہ پن میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو اُس نے اپنے منشور میں سوشلزم کو ہماری معیشت کا نعرہ دیا جس کی وجہ سے مزدور اور پسی ہوئی پرتیں جوق در جوق اس جماعت میں شمولیت اختیار کرنے لگیں۔ ایوب خان دور میں اس کچلے ہوئے محنت کش طبقہ نے طلبا کے ساتھ ملکر ریاست کو مکمل طور پر مفلوج کردیا اور ایوب حکومت کا خاتمہ کردیا  لیکن ایک انقلابی پروگرام اورانقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا تو پھر 1971  ء کے الیکشن میں محنت کش عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے کیونکہ وہ مزدوروں، کسانوں اور طلباء کی جماعت کہلائی جاتی تھی اور اس سے عوام جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خاتمے اور انقلاب کی اُمید لگا کر بیٹھے تھے۔

 پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر بہت سارے صنعتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا لیکن مارکسسٹ اصول کے برخلاف اور اُس وقت کے سوشلسٹ چلن کے عین مطابق اُن تمام اداروں کو وہاں پر کام کرنے والے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کی کے بجائے اُن سب کو بیوروکریسی کے حوالے کردیا گیا جس سے ایک تو بیوروکریسی کی روایتی نااہلی نے ان اداروں کو برباد کیا اور مزدوروں کے مجموعی مفاد کو پس پشت رکھتے ہوئے یونین کے عہدیداروں کو ذاتی طور پر نوازا گیا یعنی جو کام سیٹھ بہتر طور پر نہیں کرسکے تھے وہ انہوں نے کر دکھایا۔اگر صنعتی ادارے وہاں پر محنت کرنے والوں کے پاس ہوتے تو اس میں انکا مفاد بھی ہوتا مگر کام کرو یا نہ کرو تنخواہ مل جائے گی بلکہ چاہے اپنے ادارے میں چوری بھی کیوں نہ کرو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے بلکہ اوپر جو بیوروکریٹ بیٹھا ہے وہ بھی تو یہی کر رہا ہے۔ اس سوچ اور طریقہ کار نے نہ صرف ان اداروں کو تباہ کر دیا بلکہ مزدور تحریک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یونین تو کمزور ہوئی لیکن ان کے عہدیدار نہ صرف مضبوط ہوئے بلکہ اُنکے ذاتی سٹیٹس میں بھی بہت اضافہ ہو اور وہ ان عہدوں سے چمٹ کر رہ گئے۔ 

ضیاالحق کا دور تو مکمل طور پر بھٹو دور کی ضد تھا جیسے عوامیت کی بجائے مذہبیت،  پارلیمان کی بجائے  مجلس شوری۔ اسی طرح جو کام بھٹو دور میں ہوئے تھے اُسکے برخلاف کام شروع ہوئے جس میں بھٹو دور میں کی گئی زرعی اصلاحات کو ختم کیا گیا اور زمینیں اُنکے مالکان کو واپس کی گئیں اسی طرح وہ صنعتی ادارے جو بھٹو دور میں قومیائے گئے تھے اُن کو واپس مالکان کو دیئے گئے۔ جیسا کہ اُوپر زکر کیا گیا ہے کہ بھٹو دور سے ہی مزدور تحریک کو کرپٹ اور کمزور کیا گیا لیکن یہ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ چنگاریاں موجود تھیں اس لیئے اُس دور میں ملتان میں گلستان ٹیکسٹائل مل میں مزدوروں نے نامساعد حالات سے تنگ آکر مل پر قبضہ کیا اور پروڈکشن کو بھی چلایا۔ مالکان کی شکایت پر پولیس نے مل میں داخل ہو کر تمام گیٹ بند کر کے  مزدوروں پر براہ راست گولی چلائی اور ان کا قتل عام کیا گیا اور اس قتل عام کے بعد مل کو واپس مالکان کے حوالے کر دیا گیا۔اگر مزدور تحریک زندہ ہوتی اور ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو تمام مزدور یونینیں اُس واقع پر اکھٹی ہو سکتی تھیں اور 1967-68ء کی طرح ایک دفعہ پھر ملک میں عام ہڑتال اور مکمل پہیہ جام کر کے حکومت کو مفلوج کیا جاسکتا تھا اور جیسے ایوب حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اسی طرح اس ضیاء آمریت کا بھی اُسی وقت خاتمہ ہو سکتا تھا۔ 

نوازشریف کو ایک صنعتکار کے روپ میں سامنے لایا گیا جس نے بظاہر پاکستان میں صنعت کاری کا احیاء کرنا تھا لیکن یہ صنعت کاری بھی ماسوائے چند شوگر ملوں اور ٹیکسٹائل ملوں کے علاوہ کچھ نہیں تھی اور اس تمام دور میں “ہماری اشرافیہ  اور   ہمارے سرمایہ دار” طبقے نے ماضی سے ایک بات سیکھ لی تھی کہ مزدوروں کی آزادانہ تنظیم سازی نہ  ہونے دی جائے کیونکہ اس سے مزدور طبقہ کو اپنی طاقت کا احساس ہوگا تو وہ کبھی بھی ہم پر حاوی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ہی وہ لوگ ہیں جو فیکٹری کو چلاتے ہیں اس لیئے تمام تر زور اس بات پر تھا کہ مزدوروں کو اکھٹا نہیں ہونے دو اور اُن کو یونین سازی کا حق نہیں دو اگر دینا بھی پڑ جائے تو یہ بالکل مالکوں کی پاکٹ یونین ہوجس میں اس یونین کے عہدیداروں کو بھاری معاوضے اور بھاری مراعات دی جائیں اور حقیقتاً اس یونین کا مقصد مزدوروں کی فلاح کے لیئے کام کرنا نہیں بلکہ مزدوروں کو مالکان کے مفاد میں کام کروانا ہو اور آج کی تاریخ میں بھی اس ملک میں مزدور یونینوں کی انتہائی کثیر تعداد یہی کام کر رہی ہے۔

 اس کے ساتھ   پاکستان کا زیادہ تر سرمایہ دار طبقہ صنعت کاری سے الگ ہو کر امپورٹ، ہائوسنگ اسکیموں، اسٹاک ایکسچینج اور مختلف اقسام کی اجناس کی ذخیرہ اندوزی میں شامل ہوگیا اور صنعت کو پروان چڑھانے کے بجائے امپورٹ کو ملک میں پروان چڑھایا۔ اس میں اب بڑے سرکاری افسران بھی شامل ہوگئے کیونکہ ایک تو اس میں بکھیڑا نہیں تھا اور نہ ہی نام سامنے آسکتا تھا اور منافع بھی فوراً مل جاتاتھا۔ اب ملک کو صنعت کے بجائے کاروباری ملک بنایا جانے لگا اور اس پر دوبئی کو آیڈیل بنایا جانے لگا ۔ضیاءالحق کے زمانے میں تو خیر سے ہیروین اور کلاشنکوف  اور دیگر اسلحہ کا کاروبار بھی بہت پروان چڑھ گیا تھا۔اسکے علاوہ کھانے پینے کے ریستوران اور دیگر تمام ایسے کاروبار چلے جو کہ غیر پیدآواری تھے اور ان میں مزدوروں کی کوئی یونین سازی نہیں تھی جس نے کام کرنے والے محنت کشوں کو بالکل تنہا کردیا اور سرمایہ دار کو بے لگام کردیا۔

الجزیرہ کی موجودہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ کو مختلف مدوں میں سالانہ اٹھائیس ارب کی مراعات ملتی ہیں۔ جس سے اس ریاستی کی طبقاتی نوعیت بالکل عیاں ہے۔

اس وقت تقریباًچھ کروڑ پچاس لاکھ کی افرادی قوت میں سے تقریبا چار کروڑ صنعت اور غیر رسمی شعبے میں کام کرتے ہیں یہ تمام اُجرتی مزدور ہیں اُن میں بیس فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان میں تقریبا بیس ملین ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جن میں سے بارہ ملین خواتین ہیں۔اسی طرح آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچاسی لاکھ ڈومیسٹک ورکرز ہیں اوراس میں سے تقریبا ساٹھ فیصد خواتین ہیں اوراس کے علاوہ چائلد لیبر بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ محنت کشوں کا تقریبا پچھتر فیصد ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتا ہے اورآئی ایم ایف اور ورلڈ بنک اس حصے کو معیشت کا بہترین اور متحرک حصہ قرار دیتا ہے۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے اور غیر رسمی شعبہ میں کام کرنے والے ورکرز کو انتہائی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کو نوکری کا کوئی تحفظ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے اور بہت سے ورکرز کو تو ہفتہ میں ایک دن چھٹی بھی نہیں ملتی ہے جبکہ ہوم بیسڈ کام میں خواتین پر کام کا دوہرا دباو ہوتا ہے ان کو گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ آرڈر بھی پورے کرنے پڑتے ہیں اور ایک اکثریت کو اُن کو ٹھیکیداروں کی طرف سے جنسی استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈومیسٹک ورکرز کے کام کے حالات بہت برے ہیں انہیں کام کے دوران گالیاں،تشدد اور حتی کہ جنسی تشدد اور ریپ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت دفعہ تو ڈومیسٹک ورکرز کی کام کی دوران اموات بھی ہوئیں ہیں۔

 آج اگر ہم دیکھیں تو ہمیں ای۔او۔ بی۔ آئی۔ جو کہ ہر کام کروانے والے مالک پر لازمی ہے ہمیں خال خال ہی نظر آئے گی، پنشن اور پرویڈیڈینٹ فنڈ تو غیر سرکاری کیا سرکاری اداروں میں بھی نظر نہیں آتی ہے لیکن یاد رہے یہ فوج، بیوروکریسی اور اعلی عدلیہ میں کبھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی ہو سکتی ہے ہاں محنت کش کے لیئے خزانہ خالی ہے اور یہ حکومت پر بوجھ بھی ہے۔حد تو یہ ہے کہ غیر سرکاری کی کیا بات ہے بلکہ سرکاری اداروں میں بھی اب کنٹریکٹ پر ملازمین رکھے جاتے ہیں جو کسی بھی طرح کے الاونسیز اور مراعات سے محروم ہوتے ہیں جبکہ بڑی سرکاری نوکریاں رکھنے والوں کی نہ تو پنشن بند ہوئی اور نہ ہی مراعات میں کوئی کمی واقع ہوئی یہ سب برق صرف کم آمدنی والوں پر ہی گرتی ہے اور اسکی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی ایک تو یونین ہی نہیں ہیں اور جو ہیں وہ بھی مالکان سے سازباز میں پیش پیش ہیں اور جو تھوڑی بہت ہیں اُن کا بھی آپس میں اتحاد اور یگانگت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اب نظام کے شدید بحران اور آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد جب حکومت کے محنت کشوں پر حملے تیزتر ہو گئے ہیں تو محنت کشوں نے اپنے ہڑتالوں اور دھرنوں کے ساتھ حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے جن میں پی آئی اے اور یوٹیلیٹی سٹورز کی نجکاری بھی شامل تھی اسکے علاوہ ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف اور اساتذہ کی ہڑتالیں تھیں ان نامساعد حالات میں محنت کشوں نے ٹریڈ یونینز کی قیادت کو اپنی طاقت سے مجبور کیا کہ وہ حکوت وقت کے خلاف آگے بڑھیں اپنے مطالبات تسلیم کروائیں اورحکومت کو جھکنے پر مجبور بھی کردیں اور اگر یہ انقلابی نظریہ سے لیس ہوں تو سرمایہ کے نظام کا خاتمہ بھی کرسکتے ہیں اور اگر یہ محنت کش اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو دیں اور ایک کا دکھ حقیقت میں سب کا دکھ بن جائے تو یہ دنیا میں اپنے لیئے جنت بھی تخلیق کر سکتے ہیں اور اس بات کا ادراک اُس اشرافیہ کو بھی ہے جس نے انہیں یرغمال بنایا ہوا ہے اس لیئے اب ملک میں مذہبی فاشزم  کو کام کرنے کی آزادی دی جارہی ہے اور فاشسٹ تنظیموں کو  ہیرو بھی بنایا جارہا ہے اور کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن بھی لڑنے کی اجازت بھی دی جاتی اور مذاکرات کرتے ہوئے مطالبات بھی مانے جاتے ہیں اور تشدد کرنے والے مذہبی فاشسٹ گروپ میں سرعام پیسے بھی تقسیم کیئے جاتے ہیں   جس کی وجہ سےشہری و دیہی غریب کا غصہ اور نفرت اس سرمایہ دار نظام کی بجائے اس کی علامتوں کے خلاف سامنے آرہا ہے اور وہ ان متشدد گروہوں کے ساتھ مل کر اپنا غصہ نکال رہا ہے اور اگلے عرصے میں یہ مزید پھیل بھی سکتا ہے اور یہ عورتوں،مظلوم قومیتوں اور محنت کشوں کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔اسی طرح مظلوم اقوام جب اپنے جمہوری حقوق کی جدوجہد کرتے ہیں تو ان کو غدار، ترقی کا دشمن ہندوستانی ایجنٹ بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔  

ان حالات میں مزدور تحریک اور خاص کر اس کے انقلابی حصے کا یہ کام بنتا ہے کہ وہ محنت کش طبقہ اور دیگر مظلوم پرتوں کے متحدہ محاذ کے سوال کو سامنے لے کرآئیں اور اس کے علاوہ مزدور طبقہ کی پارٹی کے سوال کو بھی مزدور تحریک میں لے کرجائیں اور محنت کش طبقے منظم کرئے کہ وہ نظام کے بحران کو سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد میں بدل دیں۔