تحریر:منرویٰ طاہر

تحریک لبیک پاکستان کی شکل میں کلیسائی فسطائیت کی قوتوں نے ایک بات پھر اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ احتجاجات فرانس میں چارلی ہیبدو کے شائع کردہ تذلیل آمیز خاکوں کے خلاف اور نیولبرل میکرون حکومت کی اشاعت کے دفاع کے خلاف منظم کئے گئے۔ بنیادی مطالبات یہ تھے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور فرانس سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ احتجاجات اور ان میں کیا جانے والا عوام پر تشدد ایک خوفناک صورت حال کی علامت ہے جس کے سبب محنت کشوں، خواتین و جنسی اقلیتوں، مظلوم اقوام اور سماج کی دیگر جبر زدہ پرتوں کی تنظیموں اور ان کی تحریکوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں پولیس اسٹیشن پر حملہ آور ہونا اور 11 افسران کو یرغمال بنانااور ان جیسے واقعات نے یہ واضح کیا ہے کہ تحریک لبیک ایک مرتبہ پھر کلیسائی فسطائیت کی ایک ایسی قوت بن کر ابھر رہی ہے جو بہت تیزی کے ساتھ بڑے پیمانہ پر پرتشدد کارروائیوں کو منظم کر سکتی ہے۔
صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے حالیہ واقعات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ 12 اپریل کو پاکستانی اداروں نے تحریک لبیک کے مرکزی رہنما سعد رضوی کو اس وجہ سے حراست میں لیا کہ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ اپنے کارکنان کو حکومت مخالف مارچ کی تیاری کرنے کی ہدایت دی۔ یہ کال انہوں نے اس لئے دی کہ تحریک لبیک کے ساتھ نومبر میں کئے گئے معاہدہ کی حکومت نے پاسداری نہیں کی۔ پچھلے سال نومبر میں حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ فرانس کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کے لئے یہ مسئلہ پارلیمان میں اٹھایا جائے گا جس کے لئے حکومت نے تین ماہ کا وقت مانگا تھا۔ تین ماہ کی ڈیڈ لائن نزدیک آنے لگی اور اس معاہدہ پر عمل نہ ہوا۔ ظاہر ہے پاکستانی سرمایہ کا اپنے سامراجی آقاؤں کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے میں کوئی مفاد نہیں ہے اور وزیر اعظم عمران خان یہ بات بارہا کہہ بھی چکے ہیں۔ نتیجتاً تحریک لبیک کی قیادت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حکومت کے خلاف ”لانگ مارچ” کی تیاری کا اعلان کیا۔ جونہی حکومت نے سعد رضوی کو گرفتار کیا، ملک گیر احتجاجات شروع ہو گئے اور تمام بڑے شہروں میں شدید پرتشدد کارروائیاں کی گئیں جس میں بڑی تعداد میں عوام اور پولیس اہلکاروں کو بھی قتل کیا گیا۔ تحریک لبیک کے ممبران نے کراچی، لاہور، گجرانوالہ، اسلام آباد اور پشاور سمیت دیگر شہروں کی اہم ترین شاہراہوں اور ریل کی پٹریوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ان شہروں کے درمیان سفری رابطہ منقطع کیا۔
حکومت نے پھر تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کو بھی لبرل انٹلیجنسیا کے بیشتر حصوں سے خوب پذیرائی ملی۔ اس کے بعد بڑا کریک ڈاؤن شروع کیا گیا جس میں پولیس اور رینجرز نے تحریک لبیک کے خلاف بڑے پیمانہ پر آپریشن کئے جس کے نتیجہ میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک لبیک کے مطابق 45 افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب تحریک لبیک نے بھی اپنی طاقت کا غلیظ اظہار جاری رکھا اور حتیٰ کہ لاہور میں پولیس اسٹیشن پر نہ صرف حملہ کیا بلکہ 11 افسران و اہلکاروں کو یرغمال بھی بنایا۔ حکومت نے ملک کے دیگر حصوں بشمول لاہور میں انٹرنیٹ بھی بند کیا۔
برسرِ اقتدار دائیں بازو کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پر دباؤ بڑھنے لگا۔ دیگر مذہبی جماعتوں نے حکومت مخالف ملکگیر ہڑتال کی کال بھی دے دی۔ تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف تحریک لبیک کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ تحریک لبیک کے امیر نے کھلے عام یہ اعلان بھی کیا کہ اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو ہم طالبان کے ساتھ ہتھیار اٹھانے کو بھی تیار ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے اپنے اندر اس موضوع پر دراڑیں پڑنے لگیں اور ایک پی ٹی آئی وزیر نے تو یہ تک اعلان کر دیا کہ اگر تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو وہ جماعت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ بالآخر حکومت نے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا اور و وزیرِ اعظم نے خود نیشنل ٹیلیوژن پر آ کر یہ اعلان کیا کہ ان کی حکومت اور تحریک لبیک کا مقصد تو ایک ہی ہے یعنی دنیا بھر میں بلاسفیمی کا مقابلہ کرنا مگر ان کے طریقے بس مختلف ہیں۔ عمران خان آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کی امت کا یک مشت مؤقف سامراجی مراکز کو مذہبی جذبات اکسانے سے باز کر سکتا ہے۔ وہ یا تو یہ دیکھنے سے قاصر ہیں یا جان بوجھ کر بھی دیکھنا نہیں چاہتے کہ ایسے اسلاموفوبک اقدامات کے ذریعہ فرانس جیسے ممالک کی دائیں بازو کی حکومتیں اپنی طاقت کی گرفت کو نئے سرے سے منظم کرتی ہیں جب جب ان ممالک میں سماجی تحریکیں سر اٹھاتی ہیں اور حکومتوں پر دباؤ بڑھتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اور فاشسٹوں کے مابین مذاکرات تب ”کامیاب” ہوئے جب تحریک لبیک نے احتجاجات ختم کرنے کا اعلان اس ضمانت پر کیا کہ حکومت فرانس کے خلاف قومی اسمبلی میں قراردار پیش کرے گی۔ ساتھ حکومت نے تحریک لبیک کے ممبران کے خلاف دائر کئے گئے کچھ مقدمات واپس لینے کا بھی اعلان کیا۔
عمران خان اور ان کی حکومت نے شاید سوچا ہوگا کہ وہ اپنے دائیں بازو کے پاپولسٹ بیان بازی کے ذریعہ اپنی حمایت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ حکومت کی اس بزدلانہ پسپائی کا نتیجہ درحقیقت یہ ہوگا کہ کلیسائی فسطائیت کی قوتوں کے حوصلے اب مستقبل میں ایسی کارروائیوں کے لئے مزید پختہ اور بلند ہو گئے ہیں۔ اپنے مطالبات کے عوض وہ وقتی طور پر اپنے احتجاجات ختم کر بھی دیں تب بھی وہ یہ نہیں بھولیں گے کہ کس طرح انہوں نے چند گھنٹوں کے اندر پورے ملک کو یرغمال بنا لیا تھا۔ فاشزم کی تاریخ واضح کرتی ہے کہ یہ شروع ہمیشہ چھوٹے پیمانے سے ہوتا ہے اور پھر ایسی فتوحات کے ذریعہ اس کے حوصلوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ان حالات میں نام نہاد حزبِ اختلاف کا کردار بھی کسی صورت ترقی پسند نہ تھا۔ مسلم لیگ نواز ہوں یا پاکستان ڈیماکریسی موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ان سب نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبہ کی کھل کر حمایت کی۔ لبرل لیفٹ کے ان حلقوں سے متعلق تمام خواب ایک مرتبہ پھر چکنا چور ہو گئے اور یہ بظاہر ترقی پسند نظر آنے والی بورژوا اپوزیشن عوام کے دائیں بازو کے شعور کو ابھارنے میں مصروفِ عمل پائی گئیں۔
تحریک لبیک کے احتجاجات کے یہ حالات خلاء میں وقوع پذیر نہیں ہوئے ہیں۔ یہ ایک شدید تر ہوتے معاشی بحران اور اس بحران کے جبر کے خلاف متحرک ہوتی ہوئی محنت کشوں کی مختلف پرتوں کی جدوجہد، خواتین و مظلوم اقوام و دیگر اقلیتوں کی تحریکوں کے وقت وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ سرمایہ داری کی نااہلی کے سبب سماجی بحران نے بہت شدت اختیار کر لی ہے بالخصوص جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت 2019 میں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کرنے گئی ہے۔ اس بحران نے کورونا وبا کے نتیجہ میں مزید شدت اختیار کر لی ہے جس کا خمیازہ سب سے زیادہ محنت کشوں، لوئر مڈل کلاس اور شہری و دیہی غرباء نے بھگتاہے۔ عام عوام بڑی تعداد میں اپنی جانیں کھو رہے ہیں کیونکہ انہیں نہ تو معیاری صحت و علاج کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی ویکسین کی سہولت میسرہے۔ دوسری جانب حکمران طبقہ کی پوری پوری فیملیاں اپنے ایئر کندڈیشنڈ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر ویکسین لگوا رہی ہیں۔ جو عوام اب تک وبا کے نیتجہ میں مرے نہیں ہیں وہ بڑے پیمانے پر برطرفیوں کا بھگتوان بھگت رہے ہیں ایک ایسے وقت میں کہ جب آئی ایم ایف کی ایما پر سبسڈیوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی گئی ہیں جبکہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ سرمایہ دار کہتے ہیں کہ انہیں مزدوروں کو نوکریوں سے برطرف کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ وبا کے نتیجہ میں کاروبار خسارے میں جا رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان کی نیولبرل حکومت نے بڑے سرمایہ کو اربوں روپے کے ریلیف پیکج دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وبا کے باوجود بڑی کمپنیوں اور بینکوں کے منافع کی ریل پیل میں کوئی خلل نہیں آیا۔ حکومت نے یہ بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے کہ جہاں اس کے پاس غریب عوام کو دینے کے لئے بنیادی ضروریات بھی نہیں ہیں باوجود اس کے کہ انہی عوام کی کمر پر یہ معیشت چلتی ہے وہیں اس حکومت کے پاس ہر طرح کا ”ریلیف” ہے ان کے لئے جو پہلے ہی دولت میں نہا رہے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے محنت کش عوام کی کمر توڑکر رکھ دی ہے۔
طبقاتی تفریق کے بڑھتے ہوئے اور محنت کشوں کے مفادات کا دفاع کرنے والی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بالکل کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ رجعتی قوتیں عام عوام کو اس شکستہ حال معیشت میں بطور متبادل اور نجات دہندہ نظر آ رہی ہیں۔ 2017 میں جب فیض آباد دھرنا ہوا تھا تب نواز شریف کی حکومت بھی ایک ایسے ہی سماجی بحران سے دوچار تھی جس کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام کے کاندھوں پر لاد دیا گیا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف ایک متبادل کے طور پر ابھری تھی نہ صرف سرمایہ کے مخصوص حصوں کے لئے بلکہ مڈل کلاس کے نوجوانوں اور نوجوان محنت کشوں کی بیزاری کا بھی جواب تھی کیونکہ وہ بیروزگاری اور غربت کی نحوست سے نجات کی راہ کے متلاشی تھے اور کوئی حقیقی انقلابی متبادل میسر نہیں تھا۔ تحریکِ انصاف کے ابھار اور اس کی مقبولیت کو محض ریاست کے طاقتور حصوں کی سازش کہہ کر جان چھڑانا نہایت سادہ طریقہ ہے۔ اس کوسمجھنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس مقبولیت اور ابھار  نے دو مقاصد پورے کئے ایک طرف نون لیگ ور پیپلز پارٹی کی نااہل اور کرپٹ پالیسیوں سے عاجز سماج کی مختلف پرتوں کو ایک متبادل دیا تو دوسری جانب وہ متبادل بھی پیش کیا جس کی ملٹری ایلیٹ کو اپنا طبقاتی راج برقرار رکھنے کے لئے ضرورت درپیش تھی۔ ان حالات میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی سرمایہ داروں کے طبقاتی راج کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کھو رہی تھیں۔ تحریک انصاف نے جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے بیشمار نوکریوں کا وعدہ کیا وہیں اس نے اپنے ڈروں حملوں کی مخالفت کی بنیادپر بظاہر سامراج مخالف نظر آتے ہوئے خود کو ایک ایسی پارٹی کے طور پر پیش کیا جو پاکستان کو امریکی خارجہ پالیسی سے آزادانہ طور پر تعمیر کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ 2018 کے چناؤ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی مگر اس بنا پر اس امر سے ہی انکار کر دینا کہ تحریک انصاف نے نون لیگ اور پی پی پی کی سیاست کے خلاف عوام میں ایک متبادل پیش کیا، یہ حقیقت سے انحراف ہوگا۔ ہمیں سماج کو موجودہ حقائق کی بنا پر پرکھنا ہوگانی کہ اپنے جذبات و خواہشات کی بنا پر۔ ایک اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں محنت کشوں کی کوئی انقلابی پارٹی موجود نہیں ہے۔ ایسی پارٹی کی عدم موجودگی میں یہ عین فطری عمل ہے کہ پسے ہوئے عوام ایک یا دوسرے ”نئے” بورژوا متبادل کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ یقیناً یہ رغبت محنت کش عوام کے مفادات سے متصادم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت کے ہاتھوں یہ عوام مزید جبر کا شکار بنتے ہیں۔ اس طبقہ کی اپنے حقیقی سیاسی مفادات سے مطابقت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب معروضی حالات کے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی موضوعی عنصر بھی موجود ہو۔ موجودہ سماجی بحران جس نے پاکستان کو فی الوقت اپنی گرفت میں لے رکھا ہے یہ ایک واضح دائیں بازو کے رجحان کی علامت ہے جس کو مزید بڑھانے میں ریاستی جبر نے کردار ادا کیا اور اس ریاستی جبر کو مڈل کلاس لبرلز نے بڑے جوش و خروش سے سراہا۔ یہ دائیں بازو کا رجعتی رجحان اب صرف مڈل کلاسز اور لمپن پرولتاریہ کے ہی شعور پر اثر انداز نہیں ہو رہا بلکہ محنت کشوں کی سب سے کچلی ہوئی پرتوں میں بھی اپنی مقبولیت کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
تحریک لبیک کی بات کی جائے تو یہ بہت واضح ہے کہ بریلوی سنی فرقہ کی عددی برتری کے سبب اس جماعت کے لئے مڈل کلاسز اور لمپن پرولتاریہ کی ان پرتوں کو منظم کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے جو پہلے کسی پارٹی میں باقاعدہ ممبر نہیں رہے ہیں۔ صرف ”اسلام خطرے میں ہے” جیسے بیانیہ کو فروغ دینے کی دیر ہوتی ہے۔ پاکستان جیسی فرسودہ نیم نوآبادی کے موجودہ حالات میں یہ لازم ہوجاتا ہے کہ مذہب عوام کے اوپر ایک طاقتور ہتھیار کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ کسی بھی مارکسسٹ کے لئے اس امر کو سمجھنا مشکل نہیں ہے لہٰذا مذہب کی پاکستان جیسے ممالک میں طاقت کی وجوہات میں ہم اس مضمون میں نہیں جا سکتے۔
ہمارا اصرار ہے کہ سامراجیت کے عالمی عہد میں پاکستان کی نیم نوآبادی حیثیت یہاں پر فاشزم کے پروان کو سمجھنے کے لئے ایک اہم ترین پہلو ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہاں کے حالات ان حالات سے قدرے مختلف ہوں گے جو ہٹلر کے فاشسٹ جرمنی میں موجود تھے۔ وہ جنہیں فاشزم کا مقابلہ کرنے کے حل کا جرمنی سے کاپی پیسٹ کرنا چاہتے ہیں انہیں سب سے پہلے پھر پاکستان میں 1930 کی دہائی کے جرمنی والے حالات درکار ہوں گے۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی ہمیں موجودہ حقیقی حالات میں ہی جینا ہے اور انہی کا تجزیہ کرتے ہوئے حل پیش کرنا ہے۔ حقیقی حالات اس ملک کی نیم نوآبادیاتی حیثیت، شکست خوردہ معیشت کی لاش اور یہاں کا پسماندہ سماج ہیں جہاں مذہب ٹوٹے ہوئے دلوں کی دھڑکن ہے اوربے آسرا کا جذباتی سہارا ہے جو کوئی بھی اس حقیقت سے منحرف ہے وہ زمینی حقائق سے کٹ چکا ہے۔
موجودہ سماجی بحران اور اس کے ساتھ مذہبیت کے غلبہ کے حالات میں یہ بالکل کوئی حیران کن امر نہیں کہ فاشزم محنت کشوں کی مخصوص پرتوں کا بھی نظریہ بنتا جا رہا ہے۔ بلکہ اگر ہم ٹراٹسکی کو پڑھنے کی زحمت کر لیا کریں تو اس نے کئی سالوں پہلے مسولینی کے اٹلی کے بارے میں بھی لکھا تھا کہ اٹلی کی فاشسٹ تحریک پیٹی بورژواذی، سلم (کچی آبادی) پرولتاریہ اور حتیٰ کہ کسی حد تک پرولتاریہ عوام میں سے پھوٹی تھی۔ مارکسسٹ چونکہ لبرل نہیں ہوتے لہٰذا ہم فاشزم کی تشریح کرتے ہوئے احتیاط برتتے ہیں۔ ہر سرمایہ دارانہ رجعت کو فاشزم کا نام نہیں دیا جا سکتا اور مارکسسٹوں نے یہ بنیادی روش تاریخی طور پر برقرار رکھی ہے۔ فاشزم کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لئے اس کی سماجی بنیادی، اس کی ہیئت اور اس کی خصوصیات کے ساتھ یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سے طبقہ کے مفادات ہیں جس کا یہ قوتیں دفاع کرتی ہیں۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں فاشزم کے ابھار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا ہوگا کہ فاشزم کوئی یکدم ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تاریخی عمل ہے جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ہم ایک دن جاگیں اور خود کو فاشزم میں جیتا ہوا پائیں۔ ہمیں اس کو اس کے ارتقاء میں سمجھنا ہوگا۔ تحریک لبیک کا عوام جمع کرنا، پرتشدد کارروائیاں کرنا جس میں تربیت یافتہ اسلحہ کا استعمال کیا جائے اور حتیٰ کہ ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونا یہ تمام عوامل خطرے کی گھنٹی ہیں۔ مگر ان سب سے زیادہ بڑا خطرہ وہ طبقاتی مفادات ہیں جن کی یہ رجعتی فاشسٹ قوتیں غلام ہیں۔ اسلام کے نام پر یہ کلیسائی فسطائیت کی قوتیں طبقاتی تفریق کو مصنوعی انداز میں جبراً دباتی ہیں اور مختلف سماجی طبقوں کے مابین اتحاد کی کال دیتی ہیں باوجود اس کے کہ ان طبقات کے درمیان تاریخی دشمنی رہی ہے اور ان کے مفادات دوسرے کے مفادات کو دبانے میں ہیں۔ اس قسم کی کال کا لازمی مطلب ایک طبقہ کے مفادات کا دوسرے طبقہ کے مفاد میں سمجھوتہ ہوتا ہے۔ اور تاریخی مثالوں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ قوتیں کسی صورت بھی محنت کش عوام کے مفادات کا حقیقی دفاع نہیں کرتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے (اور جیسا کہ ٹراٹسکی نے بھی بیان کیا ہے) کہ فاشزم کے ابھار کے بنیادی مقاصد محنت کشوں کی تنظیموں کو نیست و نابود کرنا ہے اور پرولتاریہ کی اپنی آزادانہ طبقہ سازی کو مکمل طور پر مایوس کر دینا ہوتا ہے تاکہ یہ طبقہ منتشر رہے اور باقاعدہ ایک منظم طبقہ نہ بن پائے۔ فاشزم کا ایک بنیادی مقصد عوام میں گہری رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ محنت کش طبقہ کو باقاعدہ طبقہ بننے سے روکا جا سکے۔ اس کا پاکستان میں کس طرح اظہارممکن ہے؟ مختلف شہروں اور چھوٹے قصبوں کی کچی آبادیوں میں ان فاشسٹوں نے اپنے گڑھ بنا لئے ہیں بالخصوص پنجاب میں۔ اب اگر یہ قوتیں ان علاقوں میں سوشلسٹوں کی آمد و رفت کو قابو کرنا شروع کر دیں تو اس کا لازمی مطلب یہی ہوگا کہ محنت کش منتشر رہیں گے اور متحد عمل اور جڑت کے ذریعہ ایک طبقہ نہیں بن پائیں گے۔ یہ لازم ہے کہ معروضی حالات میں اکثریت آبادیوں کو بدترین استحصال اور جبر کا سامنا کرنا ہوگا۔ مگر ان کے افلاس اور بیبسی کے  ان حالات کو دو میں سے ایک صورتوں کے ذریعہ سمجھایا جائے گا: 1۔ یہ آپ کے انفرادی یا سماج کے کل گناہوں اور دین سے دوری کی سزا ہے؛ 2۔ یہ بدحالی کے حالات آپ کے صبر اور خدا کی شکر گزاری کا امتحان ہیں اور آپ کو اس صبر اور شکرگزاری کا صلہ آخرت میں ملے گا۔ نیز یہ کہ عوام کو یوں بے بس افراد کے ٹولے بنا دیا جائے گا جن کو اپنے حالات کے حوالہ سے بس گناہوں کی معافی مانگنی ہے یا حالات کی تبدیلی کی بس دعا کرنی ہے۔ طبقاتی راج کے خلاف منظم اور سرگرم عملی میدان کے سپاہی بننے سے انہیں یوں روک دیا جائے گا۔ دوسری طرف جو کوئی سوشلسٹ تنظیم ان علاقوں میں رسائی حاصل کرنے کی غرض سے یہاں آنے کی کوشش کرے گی اسے لازماً ہراسانی کے علاوہ مار کٹائی کا بھی ایسا سامنا کرنے کے لئے تیار ہونا پڑے گا جو وہ ساری عمر یاد رکھے۔ ان کو ان فاشسٹوں کے ہاتھوں گولیاں کھانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ اس سب کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ سوشلسٹس (یا پھر کسی بھی قسم کے سماجی ایکٹوسٹ) ان کچی آبادیوں میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
فاشزم بطور حکومت ایک مخصوص قسم کا طبقاتی راج ہوتا ہے جو سماج پر اس وقت مسلط کیا جاتا ہے جب موجودہ طبقاتی راج کے طریقے سماج کو چلانے میں ناکام ہو رہے ہوں۔ یہ محنت کش طبقہ کی اقتدار کے حصول میں ناکامی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک لبیک اگر اپنے موجودہ پروگرام پر حکومت میں آتی ہے تو مقامی و عالمی بڑے سرمایہ کے دیگر حصے اس سے استفادہ حاصل نہیں کر پائیں گے، لہٰذا اس پارٹی کی حکومت کے امکانات کم ہیں۔ لیکن جس حد تک بھی ان قوتوں کو محنت کشوں اور خواتین کی تنظیم سازیوں کو روکنے کے لئے، ہڑتالوں کو توڑنے کے لئے اور پشتونوں اور بلوچوں سمیت دیگر مظلوموں کی حقیقی جمہوری تحریکوں پر حملہ آور ہونے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو، اس حد تک یہ قوتیں بڑے سرمایہ کے مفاد میں کام کر رہی ہوں گی۔ ہمیں تحریک لبیک کو اس تناظر میں ایک ایسی فاشسٹ قوت کے طور پر دیکھنا ہوگا جو تیزی سے سماج میں طاقت حاصل کر رہی ہے۔ اس کا کام عوام کو محض اس مقصد سے منظم کرنا ہے کہ بچے کھچے جمہوری حقوق بھی عوام سے چھین لئے جائیں۔
پاکستان کے بائیں بازو کے دیگر گروہوں کے پاس موجودہ صورت حال پر یا تو کوئی تجزیہ ہے ہی نہیں (مثلاً عوامی ورکز پارٹی کی ویبسائٹ دیکھ لیں) یا پھر وہ اس بربریت کی علامت کے ابھار کی سنگینی کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ کچھ کے لئے یہ صورت حال محض ایک رجعتی پارٹی کی سازشی لانچنگ ہے جیسا کہ آئی ایم ٹی کے آدم پال نے اپنی تحریر میں لکھا ہے۔ ان کے مطابق اس پارٹی کی کوئی عوامی حمایت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی بڑے مجمعے اکٹھے کر پائے ہیں۔ یقیناً ہمارے کامریڈ نے یہ تحریر آنکھیں بند کر کے قلم بند کی ہے۔ کچھ اور افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کا ان رجعتی عناصر کا قتلِ عام کوئی مزاحیہ امر ہے جس سے ہمیں لطف اندوز ہونا چاہئے (طبقاتی جدوجہد کے رہنما عمران کامیانہ نے فیسبک پوسٹ کے ذریعہ پیغام دیا ہے کہ ”جب فسطائیت فسطائیت سے ٹکرا رہی ہو تو ضروری نہیں کہ آپ اپنا عدم تشدد کا فرسودہ چورن لے کر درمیان میں آئیں۔ کبھی خاموش بھی رہا جا سکتا ہے۔”) جو بنیادی بات ایسے ”رہنما” سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ کہ ریاستی تشدد اس قسم کے معاملات میں کلیسائی فسطائیت کی قوتوں کی مقبولیت میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قسم کا ریاستی ”جواب” عام طور پھر ہر اس شخص پر جبر کرنے کا جواز بن جاتا ہے جس پر ریاست جبر و تشدد کرنا چاہتی ہے جیسا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح طالبان دہشتگردوں کو جواب دینے کے نام پر بڑے پیمانہ پر پشتونوں کی ریشیئل پروفائلنگ کی گئی۔ پہلے ہی سنی مردوں کے ریاست کے ہاتھوں گمشدہ کئے جانے کی خبریں موجود ہیں۔
جس قسم کی جتھوں پر مبنی پرتشدد کارروائیوں میں تحریک لبیک نے حصہ لیا اور بورژوا ریاست کی رٹ کو چیلنج کیاہے اس سب سے واضح ہے کہ یہ کوئی ہر دوسری پارٹی جیسی پارٹی نہیں ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جو ممتاز قادری کو ہیرو بنا کر پروان چڑھی ہے ایک ایسا شخص جو پولیس گارڈ تھا اور جس نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بلاسفیمی کے جھوٹے الزام میں الجھائی ایک مسیحی عورت کا دفاع کرنے پر قتل کیا۔ اگر محنت کشوں نے تحریک لبیک جیسی تباہی مچائی ہوتی تو انہیں منٹوں کیا سیکنڈوں میں گولیوں سے بھون دیا جاتا۔ تحریک لبیک کی صورت میں کلیسائی فسطائیت کے ابھار کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا خطرہ ایک سنجیدہ خطرہ ہے کیونکہ یہ محنت کشوں، غریب کسانوں، خواتین اور دیگر اقلیتوں کے مفادات اور تنظیموں کے لئے ایک حقیقی، جسمانی خطرہ ہے۔
بہرکیف ہم ان قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بورژوا ریاست پر انحصار نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنی جڑت کی طاقت اور سب سے بڑھ کر طبقاتی آزادی پر انحصار کرنا ہوگا۔ ایسا کرتے ہوئے ہم خود کو زمینی حقائق سے کاٹ نہیں سکتے۔ اور زمینی حقائق کی تصویر کوئی خوش حالی کی تصویر بھی نہیں ہے۔ محنت کش طبقہ کے متعلق کسی رومانوی ریت میں اپنا سر دھر لینے سے کسی کا بھلا نہیں ہونے والا۔ لہٰذا محنت کشوں اور ترقی پسندوں کی وہ تمام قوتیں جو کلیسائی فسطائیت کے ابھار کو روکنے کے حوالہ سے سنجیدہ ہیں انہیں سب سے پہلا قدم یہ اٹھانا ہوگا کہ اس خطرہ کی گھنٹی بجائیں اور اس خطرہ کے حوالہ سے سب کو باخبر کریں۔ ہمیں فوری اور مستقبل کے خطرہ کے حوالہ سے خاموشی ترک کرنا ہوگی۔ تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان کئے گئے حالیہ معاہدے دائیں بازو کا مورال بھی بڑھائیں گے اور مستقبل میں سڑکوں پر منظم حملوں کے لئے انہیں مزید حوصلہ بخشیں گے۔ اس کے ساتھ ایک اور ممکنہ نتیجہ بیتاب پیٹی بورژواذی، لمپن پرولتاریہ اور حتیٰ کہ محنت کش طبقہ کے پسماندہ حصوں سے نئی قوتوں کا ان کی جانب مائل ہونا ہوگا۔
یہ خطرہ واقعتاً کافی سنگین ہے کیونکہ وہ معاشی، سماجی اور سیاسی بحران جو ان قوتوں کے ابھار میں عمل پیرا ہیں وہ جاری رہیں گے اور لاکھوں افراد کی زندگی کے حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ لہٰذا، فاشسٹ خود کو حکومتی پارٹیوں اور بورژوا اپوزیشن کے خلاف ایک سوڈو ریڈیکل متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ آئندہ دنوں میں مظلوم قوموں کی عوامی تحریکیں اور خواتین کی ابھرتی ہوئی تحریک ان رجعتی قوتوں کے بنیادی اہداف ہوں گے۔ اور یہی سلوک محنت کشوں کی تحریکوں کے ساتھ بھی روا رکھا جائے گا جونہی ان کے مطالبات اور ہڑتالوں کو ”اسلام مخالف” کا لیبل نواز دیا جائے گا۔
لہٰذا ٹریڈ یونینوں، لیفٹ کی پارٹیوں اور تنظیموں، خواتین اور جنسی اقلیتوں کی تحریکوں، طلباء اور نوجوانوں، غریب کسانوں اور قومی و مذہبی جبر کے خلاف تحریکوں کو مزید وقت ضائع کئے بغیر ایک اینٹی فاشسٹ متحدہ محاذ کی جانب بڑھنا چاہئے۔
ہم محنت کشوں، طلباء، خواتین و جنسی اقلیتوں، غریب کسانوں، اور قومی و مذہبی اقلیتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ متفقہ ایکشن یعنی عمل کی بنیاد پر ایک اینٹی فاشسٹ الائنس تشکیل دیں۔ یہ ایک اینٹی فاشسٹ متحدہ محاذ کی تشکیل میں پہلا قدم ہوگا۔
اس اتحاد کا بنیادی کام حالیہ خطرہ کے متعلق ایک معلوماتی مہم کا آغاز ہو گا تاکہ کلیسائی فسطائیت کی ان قوتوں کے حقیقی عزائم کے حوالہ سے ٹھوس معلومات جمع کر کے انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے۔ مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ یہ ایک ایسا اتحاد ہو جو محنت کشوں کی تنظیموں کا دفاع کرے اور جو خواتین، جنسی و صنفی اقلیتوں اور سماجی و قومی جبر کے شکار لوگوں کا دفاع کرنے کے لئے سیلف ڈیفنس تنظیمیں تشکیل دے۔
آئندہ کامیابی اور ترقی کے لئے اور اثر انداز ہونے کے لئے ایسے  متحدہ محاذ کو مجموعی طور پر طبقاتی جدوجہد کا حصہ سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم کلیسائی فسطائیت کے ابھار کو روکنا چاہتے ہیں تو
 محنت کش طبقہ اور اس کے حامیوں کو ملک میں موجود سماجی بحران، معاشی بدحالی اور سیاسی جبر کے متعلق جواب دیناہوگا۔ انہیں فاشزم مخالف تحریک کو سرمایہ دارانہ بحران اور لوٹ مار کے خلاف تحریک کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔
لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ تنظیموں سے اپیل کے علاوہ ہمیں اپنی عددی کمتری پر قابو پانے کے لئے محنت کشوں کی ماس تنظیمیں اور ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے حوالہ سے حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ پاکستان کا سماجی بحران بار بار محنت کش طبقہ اور جبر زدہ پرتوں کو خود رو جدوجہد کی جانب دھکیلتا ہے۔ یہ خود رو جدوجہد البتہ طاقت پر قابض ہونے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ سرمایہ داری کو حقیقی معنوں میں شکست دینے کے لئے اور یوں فاشزم کے ابھار کو شکست دینے کے لئے ہمیں محنت کشوں کا اقتدار درکار ہے۔  بورژواذی کے خلاف دنیا کے واحد انقلابی طبقہ کی اس فتح کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں ایک انقلابی پارٹی درکار ہے جو ہمارے انقلابی عمل کا پلان منظم کرے اور اس حوالہ سے حکمت عملی پیش کرے۔