تحریر:شہزاد ارشد

تحریک لبیک کے امیر سعد رضوری کی گرفتاری کے چند ہی گھنٹوں میں ملک بھر میں احتجاجات اور دھرنے شروع ہوگئے تھے۔ اس میں عام شہریوں اور پولیس کو زودکوب اور اغواء کیا گیااورریاستی اداروں پر حملے کیئے گئے۔یہ ان کی طاقت اور خوف کو پھیلانے کی صلاحیت کوظاہر کرتاہے۔تحریک لبیک کاسڑکوں کو دھرنوں اور پرتشدد طریقہ کار کے ذریعے کنٹرول کرنا اسے دیگر رجعتی جماعتوں سے مختلف بناتا ہے یہ ایک فاشسٹ پارٹی ہے جو ہر مخالف آواز کو سماج سے ختم کردینا چاہتی ہے۔2019کے الیکشن میں تحریک لبیک نے22لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ پنجاب میں یہ تیسری بڑی جماعت بن کرابھری تھی اس وقت اس کے سندھ اسمبلی میں دو صوبائی ممبر ان ہیں۔
تحریک لبیک کا ابھار اور اس کی صلاحیت صرف ریاستی بیانیہ اور سرپرستی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مہنگائی،بے روزگاری،غربت اور معاشی ناہمواری نے اس میں اہم کردار ادا کیاہے۔ جس کی وجہ سے شہری غریب کچلا گیا اور چھوٹاکاروباری بربادہواہے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان دھرنوں اور بلوؤں میں شامل لوگوں کی اکثریت مدرسوں سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ نہایت ہی کچلی ہوئی پرت سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں جن کی گزر بسر نہایت ہی معمولی کام پر ہے یا یہ بے روزگار ہیں جن کو نظام نے باہر پھینک دیا ہے۔
سرمایہ داری کے موجود ہ بحران اور کررونا وباء کے دوران حکومت نے اس نظام کے ہاتھوں برباد لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوار نہیں کیا البتہ ہزارہا ارب روپیہ بڑے سرمایہ داروں کو دیا گیاہے۔یہ سب قومی معیشت کے نام پر کیا گیاہے۔ لیکن اس سے قوم ہی بربادہورہی ہے البتہ بڑے سرمایہ دار اور اشرافیہ کی زندگیوں میں بہاریں ہیں۔الجزرہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایلیٹ کو مختلف مدوں 26کھرب روپے کے سالانہ فوائد ملتے ہیں یہ پاکستان کی معیشت کے چھ فیصد کے برابر ہے۔دوسری محنت کشوں اور غریب لوگوں کو حاصل ہر سبسڈی پر حکومت کٹوتیاں لگا رہی ہے جس سے ان کی زندگیاں اجیر ن بن گئی ہیں۔
سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن حکمران طبقہ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ پاکستان سے زیادہ مہنگائی وینزویلا میں ہے تو وہ بنیادی طور پر اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ عوام کے پاس بڑی گنجائش ہے اور اگر معیشت کے اشاریوں یا بڑے سرمایہ داروں کے منافعوں کے لیے مزید مہنگائی بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتاہے کیونکہ عوام اسے برداشت کرسکتی ہے اور ان کے مطابق یہی واحد حل ہے جس میں آئی ایم ایف کی دلالی کرکے معیشت کو بہتر بنایاجاسکتا ہے۔حکمران طبقہ نے یہ واضح کردیاہے کہ وہ خونخوار سرمایہ داری کے منافع کوبرقرار رکھنے کے لیے وہ سب کریں گئے جس کی وجہ سے کروڑ وں لوگ برباد ہوئے ہیں۔
حکمران طبقہ کے ان حملوں کو محنت کش طبقہ اور دیگر پرتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس لیے محنت کش طبقہ تنخواہوں میں اضافہ،مستقل ملازمتوں اور نجکاری کے خلاف مسلسل جدوجہد میں آرہا ہے۔پاکستان میں مزدور جدوجہداور احتجاج میں بڑااضافہ ہوا ہے۔ان کی تحریکوں کو عمومی طور پر کامیابیاں ہی مل رہیں ہیں جس کی وجہ سے محنت کشوں کے اعتماد میں اضافہ ہو ا ہے۔اسی طرح سماج میں مختلف پرتیں متحرک ہورہی ہیں جیسے طلباء اور عورتیں یہ تمام تر پروپیگنڈے اور جبر کے باوجودایک متبادل بیانیہ کو جنم دے رہی ہیں اور یہی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہیں۔
پی ٹی ایم جنگ کے مسائل کے خلاف سامنے آئی ہے یہ تمام تر ریاستی جبر کے باوجود ایک طاقتور قوت کے طور پر موجود ہے۔بلوچ سماج جہاں ریاست نے سیاسی اظہار کو کچل کررکھ دیا تھا وہاں اب طلباء اور سماج کی دیگر پرتیں اپنے مسائل اورریاستی جبر کے خلاف سیاسی طور پر جدوجہد میں آرہے ہیں۔سندھ میں بھی ترقی کے نام پر جس طرح مقامی آبادی سے سلوک کیا جارہا ہے اس سے وہاں قومی تحریک جنم لے رہی ہے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی ریاست مسائل کو وہاں کے لوگ کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی بجائے اپنا حل مسلط کررہی ہے جس کے خلاف وہاں بھی ایک مزاحمت ہے۔
حکمران طبقہ کے لیے نظام کو پرانے طریقہ سے چلانا مشکل ہورہاہے اور ویسے بھی موجود سیٹ اپ مکمل ناکامی کی تصویر ہے اور حکمران طبقہ میں آگے بڑھنے پر تضادات ہیں۔سماج کی ٹوٹ پھوٹ شدید ترہے اور ریاست خوف کو سماج میں پیدا کرکے ہر طرح کی مزاحمت کو روکنا چاہتی ہے اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ آمرانہ ہوتی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود صورتحال کو کنٹرول کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہورہاہے۔
ان حالات میں یہ امید کرنا کہ تحریک لبیک کو بین کرکے اس کی بنیادوں کو ختم کیا جاسکتاہے۔ ایک بیہودہ لبرل مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ویسے بھی ریاست کو سرمایہ کے مفاد میں خون آشام پالیسیاں مرتب کرنے کے لیے ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے کہ اگر اس کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت ہو تویہ تشدد اور قتلِ عام کے ذریعے خوف پیدا کرسکے۔تحریک لبیک نے باربار واضح کیا ہے کہ وہ یہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لہذا اس پر بین کے زریعے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ یہ بڑے سرمایہ اور ریاست کے مفادات کے مطابق ہی کام کرئے لیکن اس سب میں جہاں اس کے خلاف پہلی دفعہ ایک آپریشن ہورہا ہے وہاں اسے سپیس بھی دی جاتی رہی ہے تاکہ سماج میں خوف بھی ہو اور تقسیم بھی موجود رہے جو نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
ان حالات میں لیفٹ،ٹریڈ یونینز،سماجی تحریکوں،مظلوم اقوام،طلباء اور عورتوں کی تنظیموں کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ اس مشترکہ دشمن کے خلاف ایک فاشزم مخالف اتحاد تشکیل دیں اور یہ اتحاد جدوجہد کا لائحہ عمل تشکیل دئے اور ہر شہر،کمیونٹی اور کام کی جگہ پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دئے جو فاشزم مخالف جدوجہد پر جمہوری بحث کریں اور فاشسٹ حملوں کے خلاف
دفاعی حکمت عملی تشکیل دیںاوریکجہتی کو فروغ دیں ۔