انٹرنیشنل سیکٹریریٹ:ترجمہ علی عباس

عالمی کساد بازاری، وبا اور ماحولیاتی تباہی وہ سہ جہتی مظاہر ہیں جو محنت کش اور تمام محروم و استحصال زدہ طبقات پر یکساں طور پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ سالِ گزشتہ لاکھوں لوگ کورونا وائرس کے باعث جان کی بازی ہار گئے‘ کروڑوں ملازمت سے محروم ہوئے اور بہت سوں کی آمدن میں کمی آئی۔ غریب ملکوں کی اکثریتی آبادی، عورتیں، نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد، قومی اور نسلی طور پر محکوم بالخصوص اس بحران سے زیادہ شدت کے ساتھ متاثر ہوئے‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کو غیرمعمولی استحصال، ناگفتہ بہ یا مکمل طور پر مفلوج ہو چکے صحت کے نظام، خواتین کے لئے کام کے ناموزوں حالات، ماحولیاتی تباہ کاریوں، جنگوں اور قبضوں کا سامنا کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی محنت کش عوام کی ایک بڑی تعداد گلیوں اور چورہواں میں دائیں بازو کی پاپولسٹ فکر اور فاشزم، بڑھتی ہوئی حاکمانہ اور استحصالی حکومتوں اور آمریتوں، نسلی بنیادوں پر سرحدوں کی بندش اور پولیس اور ردِعمل کی بنا پر تشکیل پانے والی قوتوں کا نشانہ بن رہی ہے۔ عورتوں کو مارے جانے کے واقعات، گھریلو تشدد، خواتین اور جنسی اقلیتوں کے حقِ خود اختیاری پر حملوں کی شرح دنیا بھر میں بڑھی ہے اور یہ اب خوف زدہ کر دینے والی حدوں کو چھو  رہی ہے۔

تاہم، کساد بازاری اور مختلف النوع بحران استحصال زدہ کارکنوں اور سماجی طور پر پچھڑے ہوئے طبقات کی بڑی تعداد پر ہی اثرانداز نہیں ہو رہے بلکہ یہ کروڑوں بہتر معاشی حیثیت کے حامل اور بڑی کمپنیوں و سرکاری شعبہ میں کام والے محنت کشوں پر بھی پوری قوت سے اپنے منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ تاریخی منافعوں کے حصول، منڈیوں پر اجارہ داری اور عالمی دوڑ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پوری کی پوری صنعت کا ڈھانچہ نئے سرے سے کھڑا کیا جا رہا ہے۔

۔2020  کی کساد بازاری سے طویل المدتی بنیادوں پر نجت ممکن نہیں ہو گی بلکہ عالمی معیشت کی نمو کی شرح صرف وقتی طور پر بڑھے گی جس کی بنیاد اربوں ڈالر کے وہ پیکیجز ہیں جن کا مقصد سرمایہ کے اعتماد میں اضافہ کرنا ہے۔ معاشی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا رہے گا، غریب خطوں کے ملک بالخصوص عالمگیر وبا اور بحرانوں کا سامنا کرتے رہیں گے۔ سامراجی ریاستوں کی آبادی اگرچہ کورونا سے بچائو کی ویکسی نیشن لگوائے جانے کی امید باندھ سکتی ہے مگر غریب ملکوں میں بسنے والے اربوں لوگوں کو ویکسین یا سماجی تحفظ کے بغیر ہی جیون بیتانے کی کوشش کرنا ہوگی۔

ماحولیاتی تباہی ایک اور اہم بحران ہے جو طویل المدتی تناظر میں زیادہ تباہ کن ثابت ہونے جا رہا ہے، اس کی شدت میں بھی اضافہ جاری ہے، اور ماحولیات کے موضوع پر ہونے والی ویڈیو تقاریب ہوں یا ‘‘نئے ماحولیاتی معاہدے’’ کے اعلانات، عالمی مسابقت کی دوڑ میں تیزی آنے کی بنا پر ایک مربوط عالمی ماحولیاتی پالیسی کی تشکیل ممکن نہیں، برقی گاڑیوں پر غیرمعمولی تشہیر کے ساتھ کی گئی سرمایہ کاریوں سے مسئلہ حل نہیں ہونے جا رہا بلکہ اس سے صرف یہ اپنی ہیئت تبدیل کرتا ہے بلکہ کچھ معاملات میں تو اس کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

یہ علامات بھی ظاہر ہوئی ہیں کہ عالمی معیشت اور سیاست واضح طور پر شدید مسابقت کی سمت رواں دواں ہیں۔ دنیا کو امریکا اور چین اور دیگر کمزور طاقتوں اور جرمنی کی قیادت میں یورپی یونین کی طرح کے بلاکس، جاپان یا روس میں تقسیم کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی قیادت میں یہ کوشش صرف ‘‘نئی’’ شکل اختیار کرنے جا رہی ہے۔ قبولِ عام اور یونی پولر دنیا کی فکر کے حامی مہم جو سابق امریکی صد ٹرمپ کے بعد امریکی قیادت میں دنیا بھر کی ’’جمہوریتوں‘‘ کے اتحاد کا احیا ہوا ہے۔ اس سے جنگ کا خطرہ ٹلے گا نہیں بلکہ پرانی اور نئی عظیم تر طاقتوں کے درمیان عسکری سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ مسلح کاری کا عمومی عمل اور شام، یوکرین یا کاکیشیائی خطے میں جاری جنگیں محض اگلے چند برسوں میں خطے میں تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔

 برسرِاقتدار اشرافیہ کے پاس کوئی حل موجود نہیں

برسرِاقتدار اشرافیہ کی حکمتِ عملیاں دراصل وہ حل پیش کرتی ہیں جو ہماری مشکلات میں اضافے کے علاوہ ہمارے عہد کے اہم ترین سوالوں کا جواب دینے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ برسرِاقتدار اشرافیہ سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران سے مختلف لیکن بالآخر بحرانوں پر قابو پانے کی قومی حکمتِ عملی کے تحت ہی حل پیش کر رہی ہے۔

دائیں بازو کی نئی تحریکیں اور پاپولسٹ طاقتیں اپنے طریقے سے اس کا حل پیش کررہی ہیں۔ نسل پرستی، جنگجویانہ وطن پرستی اور قوم پرستی ان کے لئے پٹی بورژوا کے علاوہ محنت کشوں کو ساتھ ملانے کا طریقہ ہے تاکہ قوم کے نام پر بورژوزی کے ایک حصہ کے ساتھ جڑا جائے یا ’’اشرافیہ‘‘ کے خلاف نام نہادعوامی جدوجہد کی جائے ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اور جانتے بوجھتے ہوئے قومی، مذہبی، نسلی اور صنفی بے چینی پیدا کر رہے ہیں، پسماندگی اور غیرمنطقی رویوں کو فروغ دینے کے علاوہ ان حالات کو سماجی مایوسی کی تحریک میں تبدیل کر رہے ہیں اور وہ تمام سطحوں پر جارحانہ انداز سے واپس اپنا پرانا کردار ادا کرنے کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ ان کو جب کوئی سرکاری عہدہ مل جاتا ہے تو یہ اسے ایک جانب تو جمہوری اور سماجی سطح پر حاصل کی گئی کامیابیوں کو ناکامیوں میں تبدیل کرنے، جمہوری تحریکوں، استحصال شدہ طبقے کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب طبقے کی تقسیم اور ان کا استحصال کرنے کے لئے بھی عمل میں لاتے ہیں۔

بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والے بہ ظاہر ڈیموکریٹس، روشن خیال، معتدل رجعت پسند یا ماحول دوست ہونے کے دعویدار تمام فریق قوم پرستی کے ترپ کے پتے کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کا ایک گروہ آزاد منڈی کی پالیسیوں کو رائج کرنے کا دوبارہ مطالبہ کر رہا ہے تو دوسرا گروہ ریاست کی مداخلت پر زور دے رہا ہے۔ وہ مگر نئے ماحولیاتی معاہدے اور معیشت میں بڑے پیمانے پر اصلاح  کے وعدے کو بھی ناقابلِ حل معاشی پالیسی سے منسلک کر دیتے ہیں جس کا مقصد ان کی ‘‘اپنی’’ کارپوریشنوں کی اجارہ داری اور دنیا پر اپنے غلبے کو ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر محفوظ بنانا ہوتا ہے۔

یوں قوم پرستی درحقیقت سامراجی مسابقت کے ناگزیر نتائج کی مظہر ہے‘ یہ دنیا کو دوبارہ تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ محنت کش طبقے کے لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ان دونوں سیاسی کیمپوں کے مقابل جدوجہد کرنی ہے‘ ایک پرانا اور دوسرا نیا سامراج ہے، ہر جگہ پر وہ لازمی طور پر ‘‘اپنی’’ برسرِاقتدار اشرافیہ کو اپنا دشمن خیال کریں۔

عالمی بحران؛ معاشی طور پر دگرگوں حالات، عالمگیر وبا اور ماحولیاتی بحران صرف عالمی طور پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔  مختصراً بات کی جائے تو سرمایہ دارانہ نظام اپنی بنیاد میں ایسا کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ یہ مظہر مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے لاک ڈائون کرنے اور کفایت شعارانہ پروگراموں، فیکٹریوں کی بندش، ماحولیاتی تباہ خیزیوں اور قومی یا عالمی سطح پر جمہوری حقوق پر حملوں کے خلاف جدوجہد کی طرح اہم ہے، یہ حالات صرف نقطۂ آغاز ثابت ہو سکتے ہیں۔ عالمگیر وبا، ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی معاشی بحران کی وجہ ایک فیکٹری نہیں یا ان مظاہر پر صرف ایک فیکٹری اور حتیٰ کہ کسی ایک ملک میں بھی قابو پانا ممکن نہیں۔ ان تمام چیلنجوں کا صرف عالمی طور پر ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

مزاحمت اور طبقاتی جدوجہد

عالمی سطح پر محنت کش طبقہ اس وقت دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے اور جب ردِعمل میں تشکیل پانے والے عوامل آگے بڑھتے ہیں تو اس کے باعث بہت سے محنت کشوں اور بائیں بازو کے کارکنوں میں یہ فکر فروغ پاتی ہے کہ ہم صرف دو بورژوا کیمپوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں، یہ نام نہاد رجعت پسند و پاپولسٹ ردِعمل ہو سکتا ہے یا جس کی بنیاد ‘‘جمہوری’’ ہو۔ بہت سوں کو آزادانہ طور پر طبقاتی سیاست بہ ظاہر غیر مفید دکھائی دیتی ہے، اس صورتِ حال کو بہترین انداز سے کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مبہم مستقبل کا تجریدی ہدف ہے۔ اول، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے دائیں بازو کی پاپولسٹ فکر اور بوناپارٹ ازم کی برائیوں کا مقابلہ کرنا ہے جو ٹرمپ، بولسونارو، مودی، اوربن، لی پن، پیوٹن یا بیجنگ میں برسرِاقتدار حکومت کے علاوہ بورژوا جمہوری قوتوں کی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے نزدیک نیولبرل مخالف پالیسی یا نئے ماحولیاتی معاہدے کا بائیں بازو کی جانب زیادہ جھکائو ہی ان کے لئے بہترین ‘‘حقیقی’’ ہدف ہے۔ اس منظرنامے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی برسرِاقتدار اشرافیہ کے کسی ایک دھڑے کے ساتھ اتحاد کی صورت میں ہی ممکن ہے، یہ چاہے روشن خیال بورژوا طبقہ ہو یا بظاہر روس اور چین کی طرح کی “سامراج مخالف”عظیم طاقتیں ہوں۔

ان تمام حکمتِ عملیوں کا کچھ حاصل نہیں۔ ان کی وجہ سے محنت کش طبقے اور محکوم عوام کے مفادات بورژوا طبقے کے کسی نہ کسی گروہ کی مرہونِ منت ہوجاتے ہیں۔ ایک بالخصوص قابل رحم  کردار محنت کشوں کی تحریک کے بڑے حصے کی جانب سے ادا کیا گیا ہے، جن میں دنیا کے غریب ملکوں میں بیوروکریٹک انداز میں منظم ٹریڈ یونینز،اصلاح پسند، بورژوا ورکرز پارٹیاں اور  بائیں بازو کی پاپولسٹ حکومتیں اور تحریکیں شامل ہیں۔

یہ درحقیقت ٹریڈ یونین افسرِ شاہی کی سیاست اور سوشل ڈیموکریسی ہے لیکن بائیں بازو کی جماعتوں کے لئے اس کا حتمی مقصد کام کرنے کی جگہوں پر سرمایہ سے اتحاد، اتحادی حکومتوں اور سماجی شراکت داریوں کے ساتھ قومی یکجہتی کی سیاست ہے۔  بیوروکریٹک نظم میں ہوتے ہوئے بھی یہ تنظیمیں رکنیت سازی میں کمی کے باوجود لاکھوں اجرت پانے والے ارکان پر مشتمل ہیں جنہیں اپنی طاقت کا ادراک نہیں۔ اس کے برعکس، بیوروکریٹک قیادت بسا اوقات بڑے پیمانے پر عوامی تحریک کی براہِ راست مزاحمت کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ اور مزاحمت کار کے طور پر ابھرتی ہے۔ یہ افسرِشاہی ناصرف ایک غلط پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے بلکہ طبقاتی طور پر بھی سرے سے ہی غلط پیغام کو فروغ دینے کا باعث بھی بن رہی ہے۔

روشن خیال سامراجی طاقتوں اور جماعتوں پر انحصار کی ایک ذیلی وجہ بڑے پیمانے پر سوشل ڈیموکریسی کے رجعت پسند تصور کا احیا ہے، یہ چاہے نئی پارٹیاں تشکیل دے کر کیا جائے جو ریڈیکل کنیشن ازم کا پروگرام رکھتے ہوئے سماجی تحریکیوں کے ساتھ پارلیمانی سیاست کو جوڑتی ہیں یا بورژوا لبرل یا پرانی سوشل ڈیموکریسی کی پارٹیوں میں طاقت حاصل کرلیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم یہ مشاہدہ کرچکے ہیں کہ اولذکر مظہر سریزا اور پوڈیموز کے معاملے میں ناکام رہا تو موخرالذکر مظہر کاربونزم کی صورت میں برٹش لیبر پارٹی میں ناکام رہا۔ ‘‘دائیں بازو’’ کی سابق سٹالن نواز پارٹیاں اسی حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہیں۔ عہدِ حاضر میں ہم امریکا کی سوشلسٹ ڈیموکریسی کے معاملے میں ان دونوں کا ملغوبہ اور جوبائیڈن اور ہلیری کلنٹن کی پارٹی سے ایک ’’ناگوار علیحدگی‘‘ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان اصلاحات کے حامی نظریہ ساز مارکسزم کے لئے احیا شدہ لگسمبرگ ازم، گرامچی ازم یا کائوتسکی ازم کی مدد پر اکتفا کرتے ہیں۔ ‘‘ٹراٹسکی کے نظریے’’ کے علمبردار جنہوں نے اصلاح پسندی اور یوروکمیونزم کا راستہ اختیار کیا وہ حقیقت میں نظریاتی کنفیوشن کا حصہ ہیں نہ کہ اس  کا حل ہیں۔

جدوجہد کے لیے متحرک کرنا

ان نمایاں رکاوٹوں، عالمگیر وبا اور بحرانوں کے باوجود گزشتہ برس دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر متاثر کن مزاحمت کا مشاہدہ کیا گیا۔ میانمار میں آنے والا انقلاب ہو یا انڈیا کے محنت کشوں اور کسانوں کی ہڑتال، یہ جمہوری اور سماجی جدوجہد کی متاثر کن جھلکیاں ہیں۔ ایک بار پھر اس سوال نے جنم لیا ہے کہ بنیادی جمہوری اور سماجی مطالبات کی جدوجہد کو کس طرح سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد سے جوڑا جا سکتا ہے۔ مختصر لفظوں میں بات کی جائے تو اس نےنظریہ مسلسل انقلاب کی بنیاد پر پروگرام کی ضرورت کو ظاہر کیا ہے۔

بیلاروس، لبنان، نائیجیریا اور دیگر بہت سے ملکوں میں بڑے پیمانے پر چلنے والی تحریکوں نے حکومتوں اور سماجی طور پر تکلیف دہ حالات کے خلاف رائے عامہ بیدار کی، جس کے باعث قبل از انقلاب کے حالات اور بحران پیدا ہو گئےہیں۔ لاطینی امریکا، مشرقِ وسطیٰ، افریقا اور ایشیا کے ایک بڑے حصے میں حالات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جس کا مطلب آنے والے عرصہ میں ممکنہ طور پر زیادہ عوامی تحریکوں کا چلنا ہے اور یہ صورتِ حال انقلابی حالات میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ 2011 میں بہارِ عرب کے انقلابات کے بعد ہوا، ان حالات میں سوال یہ پیدا ہو گا کہ یہ تحریکیں انقلابی کامیابی کا ہدف کس طرح حاصل کر سکتی ہیں؟

سامراجی ملکوں، جن میں نمایاں ترین امریکا ہے، میں بڑی عوامی تحریکیں جیسا کہ ‘‘سیاہ فاموں کی زندگی اہمیت رکھتی ہے’’ نے لاکھوں لوگوں میں مزاحمتی شعور بیدار کیا اور دنیا بھر میں نسلی طور پر استحصال کا شکار نوجوان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ اس نوعیت کی یکساں طرز کی فطری انٹرنیشنل ازم کی مثالیں خواتین کی ہڑتال اور ماحولیاتی تحریک کے اہم حصوں میں بھی دکھائی دی’ ان دونوں تحریکوں نے عالمگیر وبا کے دنوں میں بھی دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں میں مزاحمتی جذبہ بیدار کیا۔ ٹریڈ یونین اور کام کی جگہوں کی سطح پر جدوجہد کا جائزہ لیا جائے تو ہم نے انفرادی کمپنیوں جیسا کہ ایمازون میں عالمی سطح پر مربوط سرگرمیوں کے آغاز کا مشاہدہ کیا ہے۔

مگر تاریخی بحران اور تنخواہوں میں بہت زیادہ کٹوتی کے باوجود سامراجی ملکوں میں بالخصوص محنت کش طبقے کی ایک نمایاں تعداد ان تحریکوں اور سرگرمیوں میں بہت زیادہ فعال نہیں رہی۔ اداروں کی بندش اور بڑے پیمانے پر ملازمین کو نکالے جانے کے باعث کام کی جگہوں پر بھی بڑے پیمانے پر جدوجہد کا مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن یہ جدوجہد دوسری تحریکوں سے الگ تھلک اور ٹریڈ یونین بیوروکریسی اور ان کام کی جگہوں کے آفیشلز کے زیرِاثر ہے۔

اصلاح پسند اپریٹس اور پارٹیوں کی بے جان پالیسی یہ وضاحت کرتی ہے کہ محنت کش طبقے کیوں زیادہ تر تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا نہیں کرسکا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ مزاحمتی تحریکوں کی قیادت پٹی بورژوا  نکتہ نظر رکھنے والی قوتوں اور ان کے نظریات کی برتری کو قبول کرچکی ہے۔ اس نوعیت کے نظریات کا غلبہ جن میں شناخت کی سیاست، انٹرسیکشنل ازم، پوسٹ کلونیل ازم، تحریکِ نسواں اور پاپولسٹ بائیں بازو کی حالیہ برسوں کی تحریکوں میں  موجودگی نظر آتی ہے جو محنت کش طبقے میں پہلے سے غالب بورژوا سیاست اور بورژوا شعور کا نتیجہ ہی ہے۔ حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ بہت سے ایکٹوسٹ ریڈیکل پٹی بورژوا نظریات اور پروگراموں کو متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں جو واضح طور پر ٹریڈ یونین کی نوکر شاہی اور اصلاح پسند پارٹیوں کے لئے سماجی شراکت داری اور سماجی جارحانہ وطن پرستی کے تناظر میں ایک ناگزیر سزا ہے۔ ان حالات بہت سی قوتیں جو یہ پٹی بورژوا نظریات رکھتی ہیں وہ خود کو بائیں بازو کی نمائندہ سمجھتی ہیں۔

انقلابی صرف اسی صورت میں پٹی بورژوا طبقے کی تحریکوں کے ایکٹوسٹوں کو انقلابی محنت کشوں کی سیاست کی طرف جیت سکتے ہیں اگر وہ ان جدوجہد کی حمایت کے ساتھ پٹی بورژوا پروگراموں اور نظریات پر صبر کے ساتھ اپنی تنقید کو آگے بڑھائیں۔ وہ لازمی طور پر محنت کش طبقے میں موجود بیوروکریٹک اور اصلاح پسند قیادت کے خلاف جدوجہد شروع کریں۔ زیادہ واضح انداز میں بات کی جائے تو ان کو ٹریڈ یونینز اور افسرِ شاہی کے خلاف نچلی سطح  سے جمہوری تحریکوں کا آغاز کرنا چاہئے۔ صرف مذمت کر دینے سے بیوروکریسی کی بلادستی ختم نہیں ہوگی‘ ان کو اپنی تنقید کو پوشیدہ رکھے بغیر قیادت سے مطالبات کرنا ہیں۔ ان کو لازمی طور پر محنت کشوں کی تمام تنظیموں کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے تاکہ وہ بورژوا طبقے سے الگ ہو جائیں۔ وہ ملک جہاں محنت کش تحریک سیاسی و تنظیمی طور پر بورژوا پارٹیوں سے منسلک ہے‘ وہ ہر صورت میں محنت کشوں کی خودمختار پارٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کریں۔ مثال کے طور پر امریکا میں ڈی ایس اے کو ڈیموکریٹک پارٹی سے الگ ہونے کے لئے مستقل بنیادوں پر جدوجہد کرنی چاہئے۔ دیگر ملکوں جیسا کہ جرمنی میں اس کا مطلب محنت کشوں کی نئی انقلابی جماعت کی تشکیل کے لئے کام کرنا ہے۔

ان تمام معاملات میں انقلابی لازمی طور پر تمام محنت کشوں کی جماعتوں، تنظیموں اور تحریکوں کے متحدہ محاذ کی تجویز پیش کریں جب کہ اس کے ساتھ ہی بحرانوں، عالمگیر وبائوں، ماحولیاتی تباہی، نسل پرستی اور خواتین کے بارے میں منفی فکر پر مبنی رویوں کے خلاف پروگرام آف ایکشن میں استحصال شدہ طبقے کو پیشِ نظر رکھا جائے، مثال کے طور پراس پروگرام میں جبری برطرفیوں، بے روزگاری، کرایوں میں اضافے اور تمام لوگوں کی صحت کی سہولیات تک بلامعاوضہ رسائی اور لاک ڈائون کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کا مطلب پیداوار کے ذرائع کی نجی ملکیت کو چیلنج کرنا بھی ہے، مثال کے طور پر فارماسیوٹیکل کی صنعت کو سرکاری قبضے میں لینے اور تمام لوگوں کو ویکسین کی بلامعاوضہ فراہمی یقینی بنانے کے لئے پیداوار کے عالمی منصوبے شروع کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ اس کا مقصد شعبۂ صحت میں نجی کارپوریشنوں کو زرِ تلافی ادا کئے بغیر محنت کشوں کے کنٹرول میں دینا ہے: ان تمام کارپوریشنوں کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا جائے جو برطرفیاں اور تنخواہوں میں کٹوتیاں کرنے کی ذمہ دار ہیں۔

یہ اور ہر اہم سماجی جدوجہد صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب اس کا مقصد محنت کش طبقے کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنا ہو۔ مشترکہ جدوجہد میں شامل ہونے کے لئے اگرچہ تمام تنظیموں کو لازمی طور پر بلایا جائے تاکہ ان بڑی تنظیموں کو متحرک کیا جاسکے اور اس طرح جدوجہد میں ان کی قیادت کے کردار کو بھی بے نقاب کیا جائے۔

اس نوعیت کی جدوجہد کو جمہوری بنیاد کی ضرورت ہے، لازمی طور پر کام کی جگہوں اور علاقوں میں سرگرم ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل کی جائے جس کے ممبرز کو منتخب اور واپس بلایا جاسکے ۔ آخر میں  تحریک کی بنیاد لازمی طور پر اپنے دفاع کے دھانچے پر رکھی جائے جو اسے ہڑتال تورنے والوں کے حملوں، دائیں بازو کے گروہوں اور پولیس سے محفوظ رکھے۔ اس مزاحمتی تحریک کو براعظمی اور عالمی سطح پر منسلک کرنے کے لئے ایک عالمی تحریک اور سوشل فورموں کے احیا کی ضرورت بھی ہے جو بات چیت کے تک محدود نہ ہوں بلکہ مشترکہ جدوجہد میں فیصلہ سازی کا کردار بھی ادا کریں۔

لیکن یہ ساری جدوجہد الگ تھلگ رہتے ہوئے کامیاب نہیں ہوگی کیوں کہ اس وقت محنت کش طبقے میں موجود قیادت کے بحران پر سیاسی ردِعمل ظاہر کرنے کی شدید ترین ضرورت ہے: نئی انقلابی پارٹیوں اور نئی پانچویں انٹرنیشنل کی بنیاد عبوری مطالبات کے پروگرام پر ہو جو کہ سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کرئے، ایک عالمی انقلاب کی پارٹی کا موجود ہونا لازم ہے جو انسانیت کو درپیش سہ جہتی بحران کے حوالے سے حقیقی معنوں میں انٹرنشنلسٹ حل دے سکتی ہے۔