تحریر:عرفان خان
پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں جب بھی بجٹ پیش ہوتاہے تو محنت کش طبقے کی اکثریت کوپتہ ہوتاہے کہ ان کے لیے مہنگائی،بے روزگاری اور کٹوتیوں کے ایک اور سال کا آغاز ہونے جارہا ہے یعنی یہ بجٹ حکمران طبقہ کی طرف سے اُن پر حملوں کا ایک پروگرام ہوتاہے۔اس لیے ایسے کسی بھی بجٹ سے پہلے سرمایہ داروں اور حکمران طبقہ کی دیگر پرتوں کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اور اُن کو میڈیا میں بھی گفتگو کے لیے بلایا جاتاہے اور ایک مالکان دوست بجٹ کی خواہش کی جاتی ہے اور اس خواہش میں میڈیا میں سبھی لوگ شامل ہوتے ہیں۔اس سب میں حکومت کے لیے بھی آسان ہوجاتاہے کہ وہ سرمایہ داروں اور حکمران طبقہ کی دیگر پرتوں کے مفاد میں بجٹ پیش کرئے۔ویسے بھی بجٹ حقیقت میں سرمایہ کے مفاد اور منافع کے لیے پالیساں بنانے کا ہی نام ہے۔
اس سال تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے جب بجٹ پیش کرنے کا وقت آیا تو سب کو ہی پتہ تھا یہ سرمایہ داروں اور مالکان کے مفاد میں بجٹ پیش ہوگا حالانکہ لاک ڈاؤن کے عرصہ میں پوری دنیا میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ کونسا طبقہ ہے جس کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور اگر وہ کام بند کردئے تو منافع ختم ہوجاتاہے اورسماج رک جاتاہے نیز سماج تیزی کے ساتھ عدم استحکام کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے بجٹ سے پہلے کورونا وبا کے نام پر سرمایہ داروں کے مختلف حصوں کو 1200سے1800ارب روپے کا پیکچ دیا ہے۔ جس سے ایکسپوٹرز،بڑے صنعت کار،رئیل اسٹیٹ،بلڈرز،بجلی کی کمپنیوں کے علاوہ دیگر سرمایہ داربھی مستفید ہوں گے۔تعمیراتی پیکچ کا مقصد سرمایہ داروں کے کالے دھن کو سفید کرنا ہے۔اس سب کے باوجود مالکان کہہ رہے ہیں کہ ہم کام کے بغیر مزدوروں کو تنخواہ نہیں دئے سکتے ہیں جو محنت کش کام کررہے ہیں ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی گئیں بلکہ بڑی تعداد میں ان کو نوکریوں سے نکال دیا گیا اور یہ سب وہ بڑے سرمایہ دار اور مالکان کررہے ہیں جن کو حکومت کی طرف سے ہر طرح کی ریلیف ملی ہے۔
اس صورتحال میں 12جون کووفاقی وزیر حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا۔اس وفاقی بجٹ کا حجم7136ارب روپے ہے اس میں حکومتی آمدن کا ہدف 6573 ارب روپے ہے جس میں سے 5464 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہے جبکہ دیگر آمدن 1100 ہے۔ کل ٹیکس میں سے 4963ارب ہے جوایف بی آرکے ذریعے اکٹھے کیئے جائیں گئیں جبکہ475 ارب روپے کی ٹیکس آمدن پیٹرولیم کی مصنوعات سے حاصل کی جائیں گئیں۔ صوبوں کووفاق سے 2874 ارب ملے گئے جس کے بعدوفاق کے پاس 3700 ارب روپے بچیں گئے لیکن صوبے بچت کریں گئیں اور242ارب کی رقم وفاق کو واپس کریں گئیں اس کے باوجود وفاق کے پاس اپنے اخرجات کی تکمیل کے لیے 3942ارب روپے ہوں گئیں۔اس کامطلب ہے کہ بجٹ خسارہ تقریبا 3200 ارب روپے ہو گا اور یہ جی ڈی پی کے 7 فیصد کے برابر بنتا ہے۔ اس بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 2400 ارب روپے کے نئے اندرونی قرضے اور 810 ارب روپے کے نئے بیرونی قرضے لیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 100 ارب ریاستی اداروں کی نجکاری کے ذریعے حاصل ہوں گئے۔
یہ ساری تصویر تو وہ ہے جو حکومت نے بجٹ میں پیش کی ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ تمام تر عالمی معاشی بحران کے باجود پاکستان جس کی اس وقت معاشی گروتھ منفی 0.4ہے وہ ایک معاشی معجزے سے2.1فیصد ہوجائے گی لیکن یہ ایک ایسا دھوکا ہے جو وزیر خزانہ کو بھی پتہ ہے کہ اس مالی سال میں ممکن نہیں ہے بلکہ اس بات کے امکانات ہیں کہ معاشی گروتھ منفی2فیصد سے بھی نیچے جاسکتی ہے۔ان حالات میں پچھلے سال حاصل شدہ ٹیکس آمدن سے 27فیصد زیادہ کیسے حاصل ہوگی اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی لیکن جیسا کہ بجٹ دعویٰ کرتا ہے کہ کہ گروتھ2.1فیصد ہوگی تو یہ آمدن تب بھی ممکن نہیں ہے تو اس کا مطلب تو واضح ہے کہ اگلے عرصے میں مزید ٹیکس اور قرض لیے جائیں اور اس کا بوجھ محنت کشوں اور مڈل کلاس پر ہی پڑے گا۔
لیکن اس سب کے باوجود سرمایہ داروں کے لیے یہ ایک ٹیکس فری بجٹ ہے جس میں ان کو قومی معیشت کے نام پر ریلیف دیا گیا ہے اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہے ایسا ہر سال ہی ہوتا ہے اس بار بھی مالکان اور امراء کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔انکم ٹیکس آرڈنینس میں 200سے زائد ٹیکس چھوٹ یا کٹوتیاں ہیں جن سے امراء فائدہ اُٹھاتے ہیں۔اسی طرح فوج کے بزنس پر بھی کوئی ٹیکس نہیں ہے۔بڑی صنعتوں اور برآمدات کے نام پر مزید اشیاء کو کسٹم ڈیوٹی ختم یا ان میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی۔اس سے مالکان کی پیدواری لاگت میں کمی آئے گی یعنی ان کے منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔لیکن یہی مالکان ہیں جو محنت کشوں کی تنخواہوں میں کٹوتیاں اور ان کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔رئیل اسٹیٹ میں بھی مختلف ریلیف دیئے گے ہیں اور یہ پچھلے پیکچ کے علاوہ ہیں یعنی ان کو نوازنے کا عمل جاری ہے۔اسی طرح دیگر شعبوں کے مالکان کو بھی فوائد اور مراعات دی جارہی ہیں۔لیکن یہ سب کچھ بڑے سرمایہ داروں کے لیے ہے۔اس میں چھوٹے کاروباریوں کے لیے کچھ خاص نہیں ہے۔
ہر بجٹ کی طرح اس بجٹ کا بڑا حصہ بھی دو مدوں میں خرچ ہوگا ایک 2946ارب اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کی مد میں اور دوسرا دفاعی بجٹ جو اس دفعہ1290ارب ہے پچھلے سال کینسبت یہ 140ارب روپے زیادہ ہے لیکن حقیقت میں فوجی بجٹ اس سے کہیں زیادہ ہے البتہ اسے مختلف مدوں میں تقسیم کردیا جاتاہے تاکہ اس کا حجم کم نظر آئے لیکن حقیقت میں فوجی بجٹ2100ارب ہے۔
یہ ظاہر کرتاہے کہ ہمارے بجٹ کی بنیادیں کیا ہیں کیونکر حکمران طبقہ ایک ایسا بجٹ پیش کررہا ہے جو اس کے نظام کے لیے بھی خطرہ بنتا جارہاہے جیسے کہ یہ واضح ہے کہ پاکستان کا بجٹ ایک نیم نوآبادی کا بجٹ ہے جس میں سب سے زیادہ قومی معیشت کے نام پرسرمایہ داروں کے مفادات کا خیال رکھا جاتاہے اور خطے میں ان کے مفادات اور لوٹ کھسوٹ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک فوج کی ضرورت ہے وہ بھی اس بجٹ کا بڑا حصہ لے جاتی ہے اسی طرح قرضوں کی ادائیگی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس وجہ سے ہر سال حکمران طبقہ کی طرف سے محنت کشوں پر حملے میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے حقیقت میں یہ معیشت ہی محنت کشوں کے لیے ایک مسلسل بحران ہے۔
اس سال 650ارب کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے جو پچھلے سال سے50ارب کم ہے یہ بھی پورا خرچ نہیں ہوتااور اس کے زریعے بھی ریاستی افسرشاہی اور ٹھیکیداروں کو نواز جاتاہے اور ایسے منصوبے پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے محنت کش کی بجائے سرمایہ کو ہی فائدہ حاصل ہولیکن اس سے روزگار پیدا ہوتا ہے توموجود حالات میں اس میں بڑے اضافہ کی ضرورت تھی لیکن اس میں کمی ظاہر کرتی ہے کہ معیشت کی کیا حالت ہے۔
اسی طرح صحت اور تعلیم کا بجٹ تو مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔صحت کا بجٹ کورونا وبا کے باوجود40ارب روپے رکھا گیا ہے جب اس وبا کی وجہ سے ہیلتھ نظام کی حقیقت بھی سب پر عیاں ہوگی ہے اور حکومت ن محنت کشوں اور غریبوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ تعلیم کا بجٹ117ارب ہے جو حقیقت میں بہت ہی کم ہے۔وفاقی بجٹ کا بڑا حصہ ہائر ایجوکیشن کے لیے ہوتا ہے لیکن اس میں پچھلے سال جو کٹوتی کی گئی تھی اس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن نے حکومت سے جو رقم مانگی تھی وہ بھی حکومت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں پہلے ہی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرچکی ہیں اور بہت سارے پروگرام بند کرچکی ہے جس میں مزید اضافہ ہوگا۔اس کا مطلب ہے محنت کش طبقہ کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں گئیں۔
اس بجٹ کی واحد بات شاید احساس پروگرام ہے جس میں اس وبا کے باوجود حکومت نے صرف چند ارب کا ہی اضافہ کیا ہے اور ان کے خیال میں یہ انتہائی غریب آدمی کے لیے مناسب ہے۔جب کہ دوسری طرف مختلف طریقوں سے عوام کی جیب سے پیسے نکلنے کا عمل جاری ہے۔آئی ایم ایف کے حکم پر حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے اور اسی طرح کم از کم تنخواہ میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔اس سے محنت کش طبقہ جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا کررہا ہے اس کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے اور اس وباکا مقابلہ کرنے کے لی تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
عالمی معاشی بحران اور پاکستان کی اپنی معاشی بنیادوں کی وجہ سے اس بات کے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ حکومت کے سرمایہ دوست بجٹ کے باوجود معیشت میں کوئی بہتری آئے بلکہ ہر آنے والا دن اس میں مزید ابتری لے کر آئے گا اور حکمران طبقہ کے پاس اس کا ایک ہی حل ہے کہ قومی معیشت کے نام پر اس کا بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈالا دیا جائے اور سٹیل مل کے محنت کشوں کی نوکریوں کا خاتمہ،ریلوے سے چھانٹیاں اسی کا حصہ ہے اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر نجکاری کا منصوبہ ہے۔یہ ایک خطرناک صورتحال ہے اور سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے خاص کر اس لیے بھی کہہ مزدور تحریک بہت غیر منظم ہے لیکن اس دفعہ یہ واضح ہے کہ یہ بوجھ محنت کشوں اور غریب عوام کے لیے ناقابل قبول ہوتاجارہا ہے۔اس لیے اس نظام کے بلوچستان سے لے کر،فاٹا،کراچی،اندرون سندھ اور پنجاب میں احتجاجات بڑ ھ رہے ہیں یہ ایک طوفان کی آمد کے ابتدائی نشانات ہیں۔یہ صورتحال ایک مزدور متحدہ محاذ اور شدت سے محنت کش طبقہ کی پارٹی کے سوال کو سامنے لاتی ہے جو نہ صرف ان تحریکوں کو باہم منسلک کرتے ہوئے حکمران طبقہ کے حملوں کا جواب دئے بلکہ اس لڑائی کو حکمران طبقہ اور نظام کے خلاف لڑائی میں بدل دئے۔