تحریر:مارٹن سوچیانیک

جمہوری حقوق پر پابندیاں ہی اب ”جمہوریت” کی اصل تصویر ہے۔ انجیلا مرکل اور اولاف شولز کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ ”غیر مشروط یکجہتی” کو ریاست کی بنیاد قرار دیا جانا آزادی اظہار سے واضح طور پر مطابقت نہیں رکھتاہے۔
12 اپریل کو جس طرح آزادئی اظہار پر حملہ کیا گیا ایسا شاید ہی پہلے کبھی برلن میں ہوا ہو حالانکہ یہ ایک ایسا شہر جو پولیس تشدد اور من مانی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔
اس طرح کا جبر ”عام طور پر” مظاہروں، قبضوں، ناکہ بندیوں، نیز سول نافرمانی کی کارروائیوں یا انتہائی برے حالات میں ملازمت کرنے والے لوگوں کی بغاوت پر مرکوز ہوتا ہے لیکن اس بار آزادی اظہار پر حملے کا مقصدایک جمہوری طور پر منظم فلسطین کانگریس تھی۔
جرمن ریاست کی اسرائیلی حمایت:
اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کو جرمنی کے مفاد پر اہم قرار دیا گیا ہے حالانکہ اس کی مسلح افواج نے ابھی تک تقریباً 40,000 افراد کو ہلاک کیا ہے اور غزہ کے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ان کے شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ اب سیکڑوں ہزاروں کو بھوک کا شدید خطرہ ہے۔ جرمن حکومت، بورژوا اپوزیشن اور میڈیا اسرائیل سے یکجہتی کے موقف کے حامی ہیں۔ اس جھوٹ سے چمٹے ہوئے ہیں کہ اسرائیل جارحیت نسل کشی کی جنگ نہیں ہے اور یہ صرف اپنے ”اپنے دفاع کے حق” کا استعمال کر رہا ہے اور یہ سب کچھ نہیں ہے جرمنی نہ صرف سیاسی اور سفارتی طور پر بلکہ عسکری طور پر بھی جنگ کی حمایت کر رہا ہے۔ صرف 2023 میں اسرائیل کو اس کے ہتھیاروں کی برآمدات میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔
چنانچہ یہ جنگ اندرون ملک بھی جاری ہے۔ ایک طرف اس کا مقصد ہولوکاسٹ کے لیے جرمن سامراج کے جرم کو نظریاتی طور پر ختم کرنا ہے تو دوسری طرف جرمن ریاست اپنے ٹھوس اقتصادی اور سب سے بڑھ کر جیوسٹریٹیجک مفادات کی پیروی کر رہی ہے۔
اس طرح اظہار رائے کی آزادی کے حق کا استعمال ایک مجرمانہ سرگرمی بن گیا ہے۔ ہفتوں سے رجعت پسند اور قیاس کرنے والے لبرل ”جمہوری” رائے ساز میڈیا میں فلسطین کانگریس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ چونکہ یہ قانونی طور پر ممکن نہیں تھا اس لیے کئی دن تک مطالبات اور دھمکیاں دی جاتی رہیں جس پر پولیس نے 12 اپریل کو کارروائی کی۔ برلن کے دائیں بازو کے قدامت پسند میئر کارل ویگنر ہفتوں سے غیر قانونی بیانات کے ”ذرا سا شک” پر ”سخت مداخلت” کی دھمکی دے رہا تھا۔ سادہ زبان میں اس کا مطلب اسرائیل کی ریاست اور اس کی نسل پرست بنیادوں پر کھلی تنقید، فلسطین کے ساتھ یکجہتی، صیہونیت مخالف اور فلسطینی عوام کے جمہوری حقوق خاص طور پر ان کے جمہوری حق یعنی قومی خود ارادیت کی وکالت جرم کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اشتعال انگیزی:
اس دن ناقابل یقین انداز میں مضحکہ خیز ہراسمنٹ شروع ہو گئی تھی۔ فائر سیفٹی کے ضوابط کو بنیاد بنا کرعمارت کے حکام کو صرف 250 لوگوں کو احاطے میں جانے کی اجازت دی گئی جس ہال میں 600 افراد کے بیٹھ سکتے ہیں۔آغاز میں ہی سینکڑوں لوگوں کو تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا۔ اس کے علاوہ پولیس شرکاء کے عمارت میں جانے کو گھنٹوں تک روکتی ٍرہی۔
جب کہ حکام کی طرف سے ٹکٹوں کے باوجود سینکڑوں لوگوں کو داخلے سے منع کردیا گیا۔ پولیس نے صیہونیت کے حامی قدامت پسند روزنامہ ڈائی ویلٹ کے اشتعال انگیز صحافیوں کو زبردستی کانگرس میں شامل کیا۔ جو اس تقریب اور اس کے منتظمین کے حقوق کے خلاف ایک انتہائی ہتک آمیز مہم چلا رہے تھے۔ مزید برآں پولیس اہلکاروں نے وردی اور سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کو تقریب کے شروع ہونے کے لیے شرط قرار دیا۔ برلن پولیس نے اس سیاسی مشن کو انجام دینے کے لیے تقریباً 900 افسران کو تعینات کیا۔
حب جمال کی تقریر:
اس تمام ہراسگی، اشتعال انگیزی اور پولیس کے ریاستی طریقوں کے باوجود،(جن سے پیوٹن، اردگان، نیتن یاہو، بائیڈن، بلکہ میلونی اور میکرون بھی ایک یا دو چیزیں سیکھ سکتے تھے)کانگریس کا آغاز ایک جاندار تقریر سے ہوا۔حب جمال ایک فلسطینی جرمنی میں مقیم امریکی صحافی ہے۔ اس نے جھوٹ بلکہ دنیا بھر میں ظالموں کے تعاون کو بھی بے نقاب کیا۔یہ ایک ایسا تعاون جو کوئی ”سازشی نظریہ” نہیں ہے بلکہ استحصال اور جبر پر مبنی سامراجی نظام میں تمام حکمران طبقات کے مشترکہ مفادات کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کراس نے واضح کیا کہ ایک کانفرنس جو نکبہ کے جرائم، فلسطینیوں کی بے دخلی اور جبر کو اجاگر کرتی ہے اور جرمن سامراج کی ملی بھگت کو واضح کرتی ہے بذات خود ایک مزاحمتی عمل ہے۔
اس پالیسی کی مذمت جس کا کانفرنس نے وعدہ کیا تھایہ خاموشی کو توڑنے کا ایک ضروری حصہ ہے۔یکجہتی کا ایک لمحہ جو ہم پر زور دیتا ہے کہ ہم جدوجہد کریں اوراپنی تحریک کے تال میل کو گہرا اور بہتر بنائیں۔
یہ بالکل وہی ہے جسے پوری جرمن سیاسی اسٹیبلشمنٹ ہر قیمت پر روکنا چاہتی ہے۔ اس ”متحدہ فرنٹ“ میں مخلوط حکومت کی جماعتیں، (SPD، Greens، and Free Democrats (FDP) اور مرکزی اپوزیشن کرسچن ڈیموکریٹس اور کرسچن سوشلز (CDU-CSU) کے علاوہ انتہائی دائیں بازو کی AfD (جرمنی کے لیے متبادل) شامل ہیں۔لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ اس میں بائیں بازو کی پارٹی دی لیفٹ کے کچھ حصے بھی شامل ہیں
سامراجی ”جمہوریت” کی حقیقت
فلسطینی مصنف اور محقق سلمان ابو سیتا نے کانگرس کے نام ویڈیو پیغام بھیجاجس پر جرمن ریاست نے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ پولیس نے اس کے ویڈیو پیغام کو محض چند منٹوں کے بعد اور بغیر کسی وجہ کے روک دیا۔ آخر میں منتظمین کے وکیل کو اس کی کئی متضاد وجوہات بتائی گئیں جو سول قانون کے تحت بھی انتہائی قابل اعتراض تھیں۔ ایک موقع پرپولیس نے وضاحت کی کہ تقریر میں ایسے اقتباسات ہوسکتے ہیں جو نفرت کو بھڑکا سکتے ہیں اس کی تحقیقات کی جائیں گی۔ اس بنیاد پر کہ آپ کے پاس بہت زیادہ ”وجوہات“نہیں ہوسکتی ہیں بعد میں یہ کہا گیاکہ سلمان ابو سیتا پر جرمنی میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
پولیس اس بات کا جواب نہیں دے سکی کہ یہ فیصلہ کب کیا گیا اور نہ ہی انہیں یہ معلوم تھا کہ آیا ویڈیو پیغام چلانا بھی پابندی کی زد میں آتا ہے۔ لیکن جب آپ کی دستیاب طاقت کے استعمال پر اجارہ داری ہو تو کس کو وجوہات کی ضرورت ہے؟ اور کسی بھی قسم کے شبہات کو دور کرنے کے لیے کہ اجتماع اور تقریر کی آزادی کے حق کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ کانگریس اور اس کے بعد کے تمام پروگراموں پر ہفتہ اور اتواردو دن کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
پولیس کانگریس کو توڑنے اور منتشر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ لیکن وہ نہ تو ہمیں خاموش کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ ہماری تحریک کو تباہ کرنے کے اپنے مقصد کو حاصل کرسکیں گے جو بڑھتی اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس کانگریس کی من مانی تحلیل اور آزادی اظہار پر حملہ نہ صرف پولیس کے جابرانہ کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جرمن حکومت کے جمہوریت مخالف کردار کو بھی واضح کرتا ہے اور یہ سامراجی سیاست اور ”عوامی رائے” پر اجارہ داری برقرار رکھنے کی ضرورت کے درمیان قریبی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ جبر کے علاوہ، ہمیں شدید مخالفت اور بہتانوں کا بھی سامنا ہے جس میں فلسطینی مخالف،مسلم مخالف اور عرب مخالف نسل پرستی کی ایک بڑی لہر بھی شامل ہے۔
ہماری رائے میں یہ حقیقت کہ جرمن میڈیا تنظیم ورکرزپاور اور نوجوانوں کے گروپ ریولیشن کے ساتھیوں کے خلاف تحریک چلا رہا ہے صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے کچھ ٹھیک کیا ہے۔ تاہم ہم یہ نہیں بھولنا چاہتے کہ جرمن اسٹیبلشمنٹ نے حالیہ ہفتوں میں اپنا یہود مخالف پہلو بھی ظاہر کیا ہے جب اس نے صیہونیت مخالف یہودیوں کوخاص طور پر ”مشرق وسطیٰ میں انصاف کے لیے یہودی آواز” کے ساتھیوں کو سرعام بدنام کیا اور برلن سیونگ بینک نے ان کے ایسوسی ایشن اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا۔ تاہم سب سے بڑھ کر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ہمارے فلسطینی ساتھی ہیں جن پر وحشیانہ حملے ہو رہے ہیں، جن کی انجمنوں اور تنظیموں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں مجرم قرار دیا جا رہا ہے اور جن پر جلاوطنی کی تلوار لٹک رہی ہے جبکہ ان کے رشتہ دار اور دوست مر رہے ہیں یا بیدخل کیئے جا رہے ہیں۔
آج12 اپریل 2024 کو Wegnerاور Giffeys، Scholzs اور Baerbocks ہماری کانگریس کو تحلیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس ایسا کرنے کے ذرائع ہیں۔ لیکن وہ اپنی ”کامیابی” ہمارے جمہوری حقوق پر اپنی ”فتح” کے بارے میں زیادہ پریقین نہیں ہیں اور وہ یقینی طور پر زیادہ دیر تک اس سے لطف اندوز نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ہماری کانگریس کو تحلیل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ تاریخ کی چھوٹی ستم ظریفیوں میں سے ایک کے طور پر دنیا بھر میں اس سے بھی زیادہ مشہور ہوگئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جبر نے جرمن سرمایہ داری کے رجعتی، جمہوریت مخالف کردار سے کہیں زیادہ لوگوں کو واقف کرایا ہے جتنا کہ ہماری تقریروں، شراکت، مباحثوں اور قراردادوں سے کیا جا سکتا تھا۔ خاص طور پر جرمن سامراج نے نسبتاً ”جمہوری” اور ”قدر پر مبنی” ہونے کی تصویر بنانے میں کئی دہائیاں گزاری ہیں۔ یہ فی الحال خود اس مبارک جھوٹ کو بے نقاب کر رہا ہے۔
ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ ان کے گلے میں پرجائے۔ وہ کانگریس پر پابندی لگا سکتے ہیں،لیکن وہ ہماری مزاحمت، لڑنے کی ہماری مرضی اور ہمارے عزم کو نہیں توڑسکتے کیونکہ ان کے برعکس ہم فلسطینی عوام کی آزادی اور خود ارادیت کے لیےدرحقیقت استحصال اور جبر سے پاک دنیا کے لیے ایک منصفانہ مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *