تحریر:سرخ حنا

20. نومبر بروز ہفتہ شہر کراچی میں گرینوچ یونیورسٹی (Greenwich University) میں ٹرانس کمیونٹی کے شہدا کی یاد میں خواجہ سراوں کی تنظیم جینڈر انٹریکٹیو الائنس (GIA) کے اشتراک سے ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس میں معاشرہ میں خواجہ سراوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور انکے مسائل اور مسائل کے حل پر بات چیت ہوئی۔ جیا نے سال گزشتہ سے لے کر اب تک پچاس سے زائد واقعات پر تحقیقات کی ہیں جو خواجہ سراوں پر تشدد کے مسئلے کی سنگینی کو مزید واضح کرتے ہیں۔
تقریب میں جیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بندیا رانا، پروجیکٹ منیجر سارہ گل اور کمیونٹی کونسلر شہزادی رائے نے تقاریر کیں اور ایک تھیٹر بھی پرفارم کیا جس میں پائل سمیت دیگر خواجہ سرا خواتین نے حصہ لیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گل کا کہنا تھا کہ وہ انتھک محنت و جدوجہد سے آج اس مقام پر پہنچی ہیں لیکن یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ وہ کمیونٹی کی پہلی ڈاکٹر تو ضرور ہیں لیکن آخری نہیں ہیں۔ سارہ نے کہا کہ اب ہم خواجہ سرا دنیا سے اپنا حق چھین کے لیں گے، ہم پیچھے نہیں رہ سکتے، ہم اس سماج کی حقیقت ہیں اور کوئی ہمیں یا ہمارے وجود کو جھٹلا نہیں سکتا اور یہ کہ ہم پدر شاہی و ظلم سے آزادی لے کر رہیں گے۔
ماں بندیا رانا نے تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم پر پاکستان میں ہر قسم کا تشدد کیا جاتا ہے اور ہم سے ظلم و ستم کا سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے مگر ہم اپنی شناخت کی اور حقوق کی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹنے والے ہیں۔ بندیا رانا نے اس بات پر زور دیا کہ ریاست خواجہ سراوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف قانون سازی کرے اور اس قانون پر عمل درآمد بھی یقینی بنائے۔ ماں بندیا نے اس بات پر زور دیا کہ خواجہ سرا سماج سے جدا ہو کر بھی نہیں رہ سکتے، ہمیں سیاست میں اعوانوں میں اور اداروں میں اپنا حق مانگنا ہوگا۔نیشا راو پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل اور عائشہ مغل اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلی خواجہ سرا ہیں لیکن یہ سفر ابھی شروع ہوا ہے۔ ہمیں مزید آگے جانا ہے۔
شہزادی رائے نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بہت اہم انداز میں مسائل پر روشنی ڈالی۔ شہزادی نے بتایا کہ بر صغیر میں خواجہ سراوں کی ظلم کی تاریخ میں ایک نیا موڑ انگریزوں کے کالونیل دور سے شروع ہوا جب انہوں نے خواجہ سراوں کے وجود کے ہی خلاف قانون سازی کی۔ انہوں نے کہا کہ انکو سماج میں پسماندہ سماجی حیثیت تک قید رکھنے میں سب سے بڑا ہاتھ برطانوی سامراج کا تھا اور اسکے بعد سے لے کر آج تک پاکستان میں کتنی ہی خواجہ سراوں کیلئے قانون سازی ہوتی رہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور پدر شاہی کو برقرار رکھنے کیلئے کام کی ایک مخصوص صنفی تقسیم جبری طور پر لاگو ہے جو اس جبر کے نظام کو قائم رکھتی ہے، جہاں سماج کو مرد اور عورت کی بائنری میں ہی دیکھا جاتا ہے تاکہ مرد گھر کے باہر کا پیداواری کام کرے اور عورت تولیدی کام کرے۔ خواجہ سراوں پر پوری دنیا میں اس لیے بھی ظلم ڈھایا جاتا ہے کہ ہم خواجہ سراوں کا وجود ہی اس صنفی تقسیم کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور اسکے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام و پدر شاہی کے بنائے ہوئے سماجی ڈھانچے کو بھی توڑ کے رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہزادی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کیسے خواجہ سراوں کو سماج میں نوکری ہو یا پڑھائی، ان شعبوں میں شامل ہونے سے روکا جاتا ہے اور ہمیں کیسے ان مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا اور خواجہ سراوں کو بھی مرد یا عورت کی طرح برابری کے ساتھ سماج کی دوڑ میں شامل ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ چاہے سامنے جتنے بھی مسائل کا مقابلہ کرنا پڑے اب ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔
اس تقریب میں جیا کہ جانب سے خواجہ سراوں نے ایک شاندار تھیٹر پرفارمنس دی جس میں خواجہ سراوں اور دنیا داروں کی دو دو الگ الگ دنیاوں کے فرق کو سمجھایا گیا اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ کن کن سختیوں اور دشواریوں کے ساتھ خواجہ سرا اس سماج میں جیتے ہیں اور اپنے بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔
جو بات مجھے ذاتی طور پر پریشان کرتی رہی اور یہ بات وہاں نہیں کی جا سکی وہ یہ تھی کہ عزت کی نوکری یعنی چوکیدار، وکالت، ڈاکٹری، بیوروکریسی، درس و تدریس وغیرہ ہے لیکن خواجہ سرا کا اپنے جسم پر کنٹرول اور ان کے رہن سہن کو مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ سوچ پدر شاہی اور سماجی قدامت پسندی کی وجہ سے پروان چڑھ رہی ہے جو کہ ایک پریشان کن بات ہے کیونکہ بہت سے خواجہ سراوں کا رہن سہن ان کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی ہے اور ہمیں یہ زندگی پسند بھی ہے اور ہم اس میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایک بحث طلب موضوع ہے لیکن یہاں اس بات کو واضح کرنا ضروری تھا کہ میں خود ایک خواجہ سرا عورت یعنی ایک ٹرانس وومن ہوں جو اپنے رہن سہن سے خوش ہوں۔ ویسے خواجہ سرا کمیونٹی کوئی مونولتھ (monolith) نہیں ہے تو جہاں کافی خواجہ سرا میری رائے سے اتفاق کریں گے وہیں کئی خواجہ سرا اختلاف کا حق بھی رکھتے ہیں۔
اسٹیج ٹھیٹر میں ایک پہلو بہت دلچسپ تھا، پائل کا دھمال اپنی جگہ کہ کیسے وہ فنکشن میں ناچ کر پیسے کماتی ہے اور اپنے بھائی کی فیس کیلئے مدد کرتی ہے اور دوسری طرف وہ بھائی جو اس سے نفرت کرتا ہے۔ اس ٹھیٹر میں خواجہ سرا کے رومانوی پارٹنر یا بوائے فرینڈ (جسے ہم اپنی زبان میں ”گریا” کہتے ہیں) پر بھی بات ہوئی۔ جو کہ بہت مثبت اور اہم پہلو ہے کہ خواجہ سرا بند کمروں میں اکیلے زندگیاں نہیں گزارتے بلکہ انکے بھی عام انسانوں یا بائنری مردوں اور عورتوں کی طرح جسمانی و جذباتی رشتے ہوتے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر گرینوچ یونیورسٹی اور جیا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسکے مطابق جیا کی جانب سے تجویز کردہ خواجہ سراوں کو گرینوچ یونیورسٹی میں مفت تعلیم یا مکمل اسکالرشپ فراہم کی جائے گی۔ یہ ان خواجہ سراوں کیلئے ایک ایک بہترین کاوش ہے جو یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام ہو یا پدر شاہی ہو، ریاستی جبر ہو یا مذہبی قدامت پسندی ہو، انکا مقابلہ محنت کشوں کو ایک ہو کر کرنا ہوگا اور محنت کش مرد و خواتین کو اس جدوجہد میں اپنے ساتھ خواجہ سراوں، صنف منفرد، غیر صنفی افراد اور دیگر جنسی و صنفی اقلیتوں کو ساتھ ملانا ہوگا۔ اس ہی صورت میں ہم اس نظام کو شکست دے کر انقلاب کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔