تحریر:شہزاد ارشد

قومی معیشت

عمران حکومت سرمایہ داروں کے منافع کو قومی معیشت کی ترقی کے طور پر پیش کررہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ گڈ گورنس اور بہتر مالیاتی پالیسیاں ہیں البتہ عمران خان نے 3نومبر کو قوم سے خطاب میں مہنگائی کو تسلیم کیا ہے کیونکہ اس سے انکار ممکن نہیں لیکن اس کی سب ذمہ داری اس نے عالمی سطح  پرہونے والی مہنگائی پر ڈال دی ہے۔ عالمی سطح پر کویڈ19 کے عرصہ میں آنے والی تبدیلیوں نے مہنگائی کردار ادا کیا ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں ہے۔

حکومتی پالیسی اور مہنگائی

اشیاء کی عدم دستیابی کی وجہ مہنگی ہوئی ہیں لیکن کویڈ19کے ابتدائی عرصہ میں اشیاء کی قیمتوں خاص کر پیٹرول کی قیمت میں کمی ہوئی تھی اب معاشی سرگرمی کی بحالی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں مہنگائی کی لہر میں اس شدید اضافہ کی بنیادی وجہ حکومت کی مالیاتی پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ داروں اور ایکسپوٹرزکو سبسڈیزاور شرح سود میں کمی کی گئی۔ اس سے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ ہوالیکن اس کے ساتھ درآمدات بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوا ہے۔جس کے نتیجے میں اس سال مئی سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہوااور 14مئی سے لے کر اب تک اس میں 13.34فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔اس کے ساتھ آئی ایم ایف سے معائدے کے لیے بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ کیا جارہا ہے اس نے مہنگائی کے ایک نئے طوفان کو جنم دیا ہے۔

سرمایہ دارمہنگائی کے خلاف نہیں

عمران خان کے قوم سے خطاب کا ایک ہی مقصد تھا کہ قومی معیشت کی ترقی کے نام پر مہنگائی،مزدور دشمن اور غریب کش پالیسیوں کو جاری رکھا جاسکے۔ حکومت کو مہنگائی پر جو تشویش ہے اس کا تعلق عدم استحکام سے جو محنت کشوں اور شہری ودیہی غریبوں میں اضطراب کی وجہ سے ہے۔

 مہنگائی سے بڑے سرمایہ دار اور ایکسپوٹرز کو ابھی تک کوئی مسئلہ نہیں خاص کرجب تک ان کو سبسڈیز کیا جارہا ہے بلکہ ایک حد تک مہنگائی ان کے مفاد میں ہی جاتی ہے البتہ چھوٹے سرمایہ دار اور تاجروں میں شدید اضطراب ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کررہے ہیں۔اس حکومت میں عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا۔مزدور طبقہ کو سرمایہ دارانہ ترقی نے کچل ڈالا ہے۔

دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک

عمران خان کی حکومت میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق عالمی سطح پر مہنگائی 3.2فیصد ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت9فیصد ہوگی ہے۔اکانومسٹ میگزین کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔

خطے میں مہنگائی

 وزیراعظم اور وزراء کے جھوٹ کے پلندوں کے برعکس علاقائی سطح پر بھی پاکستان میں مہنگائی پچھلے تین سالوں میں انڈیا،بنگالدیش اور سری لنکا سے زیادہ ہے۔پچھلے عرصہ میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قیمت میں 41فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ بنگالدیشی ٹکے کی قیمت میں 4فیصد اور ہندوستانی روپے کی قیمت میں 10فیصد کمی ہوئی ہے۔سوشل ڈویلپمنٹ گول کے مطابق اس وقت علاقائی سطح پر پاکستان صرف افغانستان سے بہتر ہے جبکہ انڈیا،ایران،سری لنکا اور بنگالدیش سے بہت پیچھے ہے۔

مہنگائی اور معیار زندگی

 تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مہنگائی کی شرح کی رپورٹ ہفتہ وارشائع نہیں کرئے گی یہ واضح کررہی ہے کہ مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہورہا ہے اور حکومت خود بھی موجود صورتحال پر پریشان ہے۔کنزیومر پرائس اینڈکس کا اگر 2018سے جب عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی تھی اگر اس کاموازنہ اکتوبر2021سے کیاجائے توپچھلے38ماہ میں اخراجات زندگی میں 35فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی عرصہ میں فی کس آمدنی میں 13.51فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں 40فیصد سے زیادہ آبادی کوفوڈ سیکورٹی کا سامناہے۔اس نے محنت کشوں اور شہری ودیہی غریبوں کے لیے جینا مشکل بنادیاہے۔

تحریک انصاف کی حکومت میں بنیادی اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔اکتوبر 2018 اور اکتوبر 2021 کے درمیان بجلی کے نرخوں میں 57 فیصد اضافہ،پیٹرول میں 49 فیصد اضافہ،گھی میں 108 فیصد اضافہ،شوگر میں 83 فیصد اضافہ،دال کی قیمتوں میں 60 سے 76 فیصد اضافہ،بیس کلو آٹے کے تھیلے میں 52 فیصد اضافہ،چاول میں اوسطاً 30 فیصد اضافہ ہواہے۔ابھی بجلی کی قیمت میں پھر اضافہ ہوا ہے جبکہ چینی کی قیمت170تک پہنچ چکی ہے اور ابھی مزید اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا امکان ہے۔

سرمایہ داروں کا منافع

عمران خان نے اسی تقریرمیں بیان کیا کہ اس وقت تعمیراتی شعبے میں چھ سو ارب کے پراجیکٹ لگ رہے ہیں،لارج سیکیل مینوفیکچرنگ میں پچھلے تین ماہ میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے،انجینئرنگ کی صنعت کے منافع میں 350ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے،ٹیکسٹائیل کے منافع میں 163فیصد اضافہ ہوا ہے،آٹو موبائل سیکٹر کے منافع میں 131فیصد اضافہ ہوا ہے،سیمنٹ کی صنعت میں 113فیصد منافع میں اضافہ ہوا ہے، آئل اینڈ گیس سیکٹر میں  75فیصد اضافہ ہوا ہے۔بجلی کے استعمال میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی صنعت میں اس کی کھپت میں اضافہ ہے۔ٹیکس کولیکشن میں 37فیصد اضافہ ہوا ہے اسی طرح آئی ٹی میں پچھلے سال 47فیصد اضافہ ہوا اس سال لگ رہا ہے کہ 75فیصد اضافہ ہوگا۔

عمران خان کے مطابق یہ حکومت کی کامیابی ہے اور جہاں تک مہنگائی کا معاملہ ہے اس پر انہیں تشویش تو ہے لیکن جب عالمی سطح پر مہنگائی ہو تو حکومت کیا کرسکتی ہے یعنی عمران خان سرمایہ داروں کے منافع کو کامیابی کے طور پر پیش کرکے مہنگائی کو قبول کرنے کی بات کررہاہے اور احساس پروگرام کو ایک حل کے طور پر پیش کررہاہے جبکہ یہ محنت کشوں اور غریبوں سے ایک بے ہودہ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

پاکستان میں کویڈ 19میں عالمی وعلاقائی صورتحال اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے گروتھ ہوئی ہے لیکن حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اس سے صرف بڑے سرمایہ دار اور ایکسپوٹرز ہی مستفید ہورہے ہیں۔مشیرتجارت کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر کے دوران 2ارب47کروڑ10لاکھ ڈالر کی برآمدات ہوئیں جو کسی بھی ایک ماہ میں ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ برآمدات کا ریکارڈ اور اکتوبر 2020 میں پاکستانی برآمدات 2ارب 10کروڑ40لاکھ ڈالر سے 17.5 فیصد زیادہ ہے۔پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کا نیا ریکارڈ قائم ہوگیا ہے۔ مسلسل 4 ماہ ٹیکسٹائل کی اوسط ماہانہ ایکسپورٹ ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد رہی ہے۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق اکتوبر 2021 میں ایک ارب 61 کروڑ ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی گئیں جو کہ کسی بھی ماہ میں برآمدات کی بلند ترین سطح ہے۔

ترقی کی دلکشی اور سرمایہ دار پارٹیاں

یہ سب اعداوشمار معیشت کی دلکش تصویر پیش کرتے ہیں یعنی ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت اور میڈیا میں بھی اس پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اوراسے کامیابی بتایا جا رہا ہے میڈیا اور اپوزیشن مہنگائی پر تو تشویش کا اظہار کررہی ہے لیکن وہ مہنگائی اورمزدوروں کے کچلے جانے کے ترقی (سرمایہ داروں کے منافع)سے تعلق پر کوئی بات نہیں کرتے ہیں کیونکہ تمام پارلیمانی پارٹیوں کا مفاد یکساں ہے اس لیے وہ بڑے سرمایہ کو ملنے والی سبسڈی ان کے منافع اور لوٹ مار پر خاموش ہیں۔

کارل مارکس کیمونسٹ مینیفیسٹو میں کہتاہے کہ ریاست سرمایہ دار طبقہ کی منجمنٹ کمیٹی ہے یعنی طبقاتی نظام میں حکومت ایسی پالیسیاں اپناتی ہے جس سے سرمایہ داروں کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ محنت کش اور غریب اس سے کچلے جاتے ہیں۔

ترقی کی طبقاتی بنیاد

 اسٹیٹ بنک کے اعداوشمار کے مطابق1.58ٹریلین جو ملکی جی ڈی پی کے 3.8فیصد کے برابر ہے اس کو کویڈ19کے آغاز میں کاروبار اور گھر یلو ضروریات کے لیے کیش بہاؤ کے لیے انجیکٹ کیا گیا حقیقت میں اسمیں سے بڑا حصہ بڑے سرمایہ داروں کے لیے تھا جنہوں نے سٹیٹ بنک کی مالیاتی پالیسیوں سے فائدہ اٹھایا جیسے شرح سود میں کمی،قرضوں میں سبسڈی اور قرضوں کا التواء شامل ہے۔اس رقم کو مختلف کارباروں اور صنعتی اشرافیہ کو چھ ماہ سے کم مدت میں دیا گیا۔اس کے علاوہ لاک ڈاؤن کے آغاز میں 1.24ٹریلین کا جو پیکچ دیا گیا تھا اس سے بھی بنیادی طور پر بڑا فائدہ بڑے سرمایہ داروں، بجلی اورکنسٹرکشن کی کمپنیوں کو ہی دیا گیا اور شہری و دیہی غریبوں کے لیے اس میں کچھ نہ ہونے کے برابر ہی تھا۔

ایشیا فلور ویج نامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 50سے زائد ٹیکسٹائیل انڈسٹری کے مزدوروں کو2020میں تقریباََ85ملین ڈالر کی اجرت میں چوری کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کے مطابق تنخواہیں ابھی کویڈ19سے پہلی والی سطح پر نہیں آئیں ہیں۔یہ صرف چند فیکٹریوں میں ہونے والی لوٹ مار ہے اس کو اگر پورے ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں میں پھیلایا جائے تواس کی  مالیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا۔

ٹیکسٹائل سیکٹر کے مالکان کی ایسوسی ایشن  اپٹما کہتی ہے کہ حکومت اگر بجلی کے ریٹ9 سینٹ کلو واٹ اور گیس6.5ڈالرایم ایم بی ٹی یو اگلے پانچ سال کے لیے مہیا کرئے تو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ جو اس وقت 15 ارب ڈالر سے 2022 میں 20 ارب ڈالر سالانہ ہو جائے گی اور چند ہی سالوں میں یہ 50ارب روپے تک چلی جائے گی۔

اپٹماکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شاہد ستار نے کہا کہ پچھلے سال اسٹیٹ بینک نے انویسمنٹ پیکج کے ذریعے سپورٹ کیا جس کے تحت 2.5 ارب ڈالر کی مشینری درآمد کی۔سماء کے پروگرام نیا دن میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایل ٹی ایف ایف کی سہولت کے تحت 1 ارب ڈالر کی مشینری درآمد کی جس سے پروڈکشن میں اضافہ ہوا اور پچھلے چار ماہ میں ٹیکسٹائل کی ماہانہ برآمدات ڈیڑھ ارب سے زائد رہی ہے۔

 ٹیکسٹائل کی صنعت کو گیس820 روپے فی یونٹ جبکہ یہی گیس عوام کو 2700 روپے فی یونٹ دی جا رہی ہے۔یہ سب قومی معیشت اور ترقی کے نام پر ہورہاہے یعنی سرمایہ داروں کو 1900روپے سے زائد کی سبسڈی مل رہی ہے۔اس وقت حکومت یہ گیس 5000 روپے فی یونٹ باہر سے خریدنی پڑ رہی ہے۔اب اگر ان کو ایکسپورٹ کے نام پر مزید سبسڈی دی گئی تو حقیقت میں اس کی قیمت بھی عوام ہی ادا کریں گئیں۔

شوگر مافیا نے 2020ء کے اوائل میں وزیراعظم عمران خان اور ساتھ ہی ڈی جی ایف آئی اے اور انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیاء کو دھمکی دی تھی کہ شوگر اسکینڈل کی تحقیقات روک دی جائیں بصورت دیگر ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کی قیمت 110 روپے فی کلو ہو جائے گی۔چینی اس وقت170روپے تک فروخت ہورہی ہے اور اس پر بھی شوگر کے صنعت کار دھمکیاں دئے رہے ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت میں شوگر کے صنعت کاروں کو تقریباََ265ارب کا فائدہ ہوا ہے جبکہ اس سال کے ابتدائی دس ماہ میں 67ارب کا فائدہ ہوا ہے اور یہ حکومت کے اپنے اعدادشمار ہیں۔

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ کیسے حکمران طبقہ کی پالیسیوں کی وجہ سے     ”ترقی“ ہے اور اسی وجہ سے مہنگائی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقہ اور شہری ودیہی غریب کی قیمت پر بڑے سرمایہ کو نواز جارہاہے اور یہ سب قومی معیشت کے نام پر کیا جارہاہے لیکن حقیقت میں یہ سرمایہ دار طبقہ کی ریاست ہے جس کی وجہ سے ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جس سے  سرمایہ داروں کے منافع میں اضافہ ہو اسی وجہ سے مہنگائی ہے جو براہ راست محنت کشوں کو کچلتی ہے اور اس کے ساتھ جیسے کے ٹیکسٹائیل میں محنت کشوں کی اجرت سے واضح ہے کہ استحصال کے ساتھ کھلم کھلا لوٹ مار جاری ہے اور فیکٹریوں کی انسپکشن نہ ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جارہاہے۔

معاشی مسائل اور محنت کشوں پر حملے

عمران خان حکومت کے تمام تر بلند و بالا دعووں اور سرمایہ داروں کے ہوشربا منافعوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 5 ارب ڈالر سے زائد کاہے۔ پچھلے مالی سال کی اِسی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ 865 ملین ڈالر کے سرپلس میں تھا۔ جس میں عالمی تجارت میں رکاوٹوں اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدات کم ہوئیں تھیں۔ اس کے ساتھ کورونا وبا کے آغاز سے ہی ترسیلات ِزر میں بڑا اضافہ ہوا تھا۔ اب ایک بار پھر یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہواہے جس کی وجہ سے روپے کی بے قدری میں اضافہ ہواہے اورتین سال حکومت میں ڈالر 123 سے بڑھ کے 175 روپے تک پہنچ گیاہے۔
جاری سہ ماہی میں اگر برآمدات 35 فیصد بڑھی ہیں تو درآمدات میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں وزیرخزانہ شوکت ترین ہی پریشان نہیں ہیں باقی اداروں کی طرف سے گھبراہٹ واضح ہے کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود خسارہ پر قابو پانا مشکل ہورہاہے اور اس سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے اور بیرونی قرضہ جو2018میں 95 ارب ڈالرتھااس وقت 125 ارب ڈالر ہو گیا ہیں۔یہ سب صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا بلکہ اس کی وجہ حکومت کی مالیاتی پالیسیاں جس کی وجہ سے درآمدات میں اضافہ ہوا ہے اس وقت روپے کی بے قدری کی وجہ سے درآمدات میں معمولی کمی ہوئی ہے لیکن یہ کسی طرح بھی اس سطح پر نہیں ہے کہ روپیہ مستحکم ہوسکے حالانکہ شرح سود میں 1.5فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔عمران حکومت نے جو کھربوں روپے سرمایہ داروں کی جیب میں ڈالا کر ترقی کا بلبلہ(سرمایہ داروں کا منافع) بنایا تھا۔اب یہ اس سے خوف ذدہ ہیں اور اسے روکنا چاہا رہے ہیں لیکن یہ سب محنت کشوں اور شہری و دیہی غریب کے لیے ایک خوفناک منظر نامے کو تشکیل دئے رہی ہے۔ پہلے ہی روپے کی بے قدری سے بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اورپچھلے چھ ماہ میں روپے کی قدر گرنے سے بیرونی قرضوں میں 1800 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے ڈیل کے لیے جن شرائط کو تسلیم کیا ہے اس میں 350ارب کے ٹیکس استشناء کوختم کرنا اور سٹیٹ بنک کی خود مختیاری کا بل قومی اسمبلی سے پاس کروانے کے علاوہ ہر ماہ پٹرول کی قیمتوں میں 4روپے کا اضافہ پانچ ماہ تک کرنا ہے۔ اس کا مطلب مہنگائی جو پہلے ہی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔محنت کشوں اور غریبوں پر مزید حملے ہوں گے اور اور پہلے ہی عام آدمی کے لیے بنیادی اخراجات کو پورا کرنا مشکل ہورہا ہے حکومت کے یہ اقدامات اس کی پہلے سے تلخ زندگی کو برباد کرکے رکھ دئے گی۔

محنت کش طبقہ کا حل

 سرمایہ دارانہ نظام میں ان مسائل کا کوئی حل نہیں ہے بلکہ مہنگائی کے ساتھ حکومت مزید حملے نجکاری اور رائٹ سائزنگ کے نام پر کررہی ہے۔اس کے خلاف مزدور کانفرنسوں کی ضرورت ہے۔جو مہنگائی کے خلاف محنت کش طبقہ کا موقف سامنے لائے یعنی یہ مہنگائی حکومت کی ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے بڑے سرمایہ داروں اور ایکسپوٹرز کو نواز جارہاہے اس سے نہ صرف ان کے منافعوں میں اضافہ ہورہاہے بلکہ وہ مہنگائی سے بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اس کامطلب یہ ہے کہ مہنگائی کی نوعیت طبقاتی ہے یعنی اگر آپ ذرائع پیدوار پر کنٹرول رکھتے ہیں تو ویسے بھی درمیانے درج کی مہنگائی سے سرمایہ داروں کو فائدہ ہی ملتا ہے۔مہنگائی کے خلاف جدوجہد صرف اسی صورت میں محنت کشوں کے مفاد میں ہوسکتی ہے اگر اس میں تنخواہوں میں اضافہ کے مطالبہ کو سامنے لایا جائے۔اس لیے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پارٹیوں سے کوئی توقع کرنا بیکار ہے۔محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد اور آزادانہ تنظیم سازی سے ہی حکومت کے حملوں کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن محنت کشوں کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں بدلنا ہوگا اس کے لیے محنت کش طبقہ انقلابی ورکرزپارٹی کی ضرورت ہے۔

 افراط زر میں ایک فیصد اضافہ کے نتیجے میں محنت کشوں کی تنخواہ میں بھی ایک فیصد اضافہ کیا جائے۔

 کام کی جگہ پر اور محلوں میں کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو نہ صرف قیمتوں میں اضافہ کا جائزہ لیں بلکہ جمہوری طور پر فیصلہ کرئیں کہ ان کو بجلی،گیس اور پٹرول کس قیمت پر ملے۔

پٹرول،گیس اور بجلی کے محکوموں کے محنت کشوں کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو ان کی قیمت کا تعین کرئیں اور اس کے لیے ان کو اکاؤنٹ بکس تک رسائی دی جائے۔

نجکاری،ڈاؤن سازنگ اور رائٹ سازئنگ کا خاتمہ کیا جائے۔