انقلابی سوشلسٹ موومنٹ

آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پونچھ ڈویژن اور دیگر اضلاح میں احتجاجات 25جنوری کی ڈیڈ لائین کے ساتھ ختم ہوگے ہیں۔اس کے باوجود اگلے دن تھوارا میں احتجاجی مظاہرین کا سرکاری عمارتوں پر قبضہ برقرار رہاتھا۔آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد پچھلے ایک ماہ سے پونچھ اور دیگر اضلاح میں بارہا احتجاجات ہوئے جس میں خاص طور پراہم 21دسمبر کو ہونے والا احتجاج اور ہڑتال تھی اس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک ہوئے اور یہ احتجاج پونچھ ڈویژن کے تمام اضلاح میں پھیل گیاتھا۔
پاکستان زیرانتظام کشمیر جس میں قومی جبر کے ساتھ معاشی جبر بھی شدید ہے۔مہنگائی،بے روزگاری،انفرسٹرکچر کی عدم موجودگی و ٹوٹ پھوٹ اور علاج کی سہولتوں کی عدم موجودگی نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل سے الگ تھلگ ہیں اور ان کی سیاست طبقہ اشرافیہ کے مفادات کے گرد گھومتی ہے اور اس لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اندرونی نوآبادیات کا ڈھانچہ ان کے حق میں ہے البتہ کبھی کبھی یہ پاکستانی ریاست سے تضاد میں بھی آتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ایک حد سے آگے نہیں جاتے ہیں کیونکہ یہ اس ڈھانچہ سے مستفید ہوتے ہیں۔
قوم پرست جو مزاحمتی سیاست کی حامی ہیں لیکن ان کی سیاست بھی اس نظام میں حل دیکھتی ہے۔اس لیے وہ محنت کش طبقہ سے جڑنے کی بجائے عالمی بورژوا اداروں سے امیدیں لگاکر بیٹھے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کردئیں گئے وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ادارے سرمایہ اور عالمی سامراج سے منسلک ہیں اور ان کے مفادات کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں تو ان سے امیدیں، مایوسی اور ناامیدی ہی لاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی سیاست ایک یا دوسری ریاست یا سامراج کی طرف دیکھنے تک محدود رہتی ہے۔
ان حالات میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں دیہاتوں کی کمیونٹی کی سطح پر عوام نے اپنی کمیٹیاں بنا ئیں جو اپنے مسائل کے حوالے سے احتجاج بھی کرتی ہیں اور یہ کچھ علاقوں میں امداد باہمی کے طور پر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔پچھلے عرصہ میں ان ہی کمیٹیوں نے مختلف وزراء کی اپنے علاقوں میں آمد کو روکا،ان کا یہ موقف تھا کہ ان وزراء کا ان کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اب یہ اس وجہ سے آرہے ہیں کیونکہ الیکشن قریب ہیں۔مختلف علاقوں میں ہونے والے ان احتجاجوں اور دھرنوں نے محنت کش عوام میں یہ شعور پیدا کیا کہ اگر وہ متحدہ ہوکر جدوجہد کرئیں تو حکومت کو جھکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔اسی لیے جب آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس کے خلاف سیاسی جماعتوں سے زیادہ کردار ان کمیٹیوں نے ادا کیا۔یہ درست ہے کہ ان کمیٹیوں میں مختلف سیاسی رجحانات رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور انہوں نے ان کی تشکیل میں بھی کردار ادا کیا ہے لیکن بڑی حد تک ان کی اُٹھا ن آزادانہ ہے اورسیاسی جماعتوں کے پاس بھی اس تحریک کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔
عوامی ایکشن کمیٹی پونچھ نے ضلع باغ اور ضلع سندھنوتی میں رابطہ کے ذریعے وہاں کے نمائندوں کے ساتھ ملکر کمیٹی تشکیل دی جس نے13جنوری کو پونچھ بند کے نام سے ہڑتال اور احتجاجات کی اپیل اور لائحہ عمل دیا اور مختلف راستوں کو بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔اس فیصلہ کے بعد ریاست کاخوف،مذاکرات اور گرفتاریوں کی تمام پالیسیاں ناکام ہوگئیں اور مختلف شہروں اور دیہاتوں میں ہزاروں کی تعداد میں محنت کش عوام باہر نکلے ان پر بدترین تشدد ہواجس میں محنت کش عوام بڑی تعداد میں زخمی بھی ہوئے لیکن انہوں نے ڈٹ کر پولیس کا مقابلہ کیا اور پولیس سٹیشن کو آگ لگائی اور پولیس کو کشمیر سے باہر بھاگنے پر مجبور کردیا۔محنت کش عوام نے اس شدید سردی میں بھی دھرنے دیئے رکھے اور جب کمیٹی کی طرف سے اس احتجاج کو فی الاوقت ملتوی کرنے اور 25جنوری کی ڈیڈلائین دی گئی تو اس کے باوجود تھوارا کے علاقے میں محنت کش عوام نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ برقرار رکھاتھا۔
یہ صورتحال واضح کررہی ہے کہ محنت کش عوام نے اس تجربہ سے یہ شعور حاصل کیا ہے کہ ان کے پاس لڑنے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے اور انہوں نے دکھایا بھی ہے کہ محنت کش عوام جب جدوجہد میں آتے ہیں تو کس طرح ریاست پیچھے ہٹنے اور جھکنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔یہ صورتحال ظاہر کررہی ہے کہ یہ تحریک ختم ہونے سے کہیں دور ہے کیونکہ نظام کا بحران اور حکمران طبقے کے حملے بار بار محنت کشوں کو لڑنے کی طرف لائیں گئے۔
ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ عوامی کمیٹیوں کو تمام اضلاح میں پھیلا یا جائے اور کام کی جگہ و تعلیمی اداروں میں بھی ان کمیٹیوں کو تشکیل دیا جائے۔ ان کے درمیان رابطے اور ڈھانچے تشکیل دیئے جائیں تاکہ جمہوری طریقہ سے مشترکہ فیصلے کیئے جاسکیں۔ان کمیٹیوں کی جنرل اسمبلیاں منعقد کی جائیں اور نمائندں کو منتخب کیا جائے اور ان کو واپس بلانے کا حق بھی ہو۔یہاں جمہوری بحث کے ذریعے قومی آزادی اور سماجی انقلاب کی جدوجہد کا پروگرام اور لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔
اسی طرح پرائس کمیٹیاں بھی قائم کی جائیں جس میں خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔
جموں و کشمیر سے بیرونی فوجی دستے باہر جائیں۔
الیکشن اور نئی آئین ساز اسمبلی کا انعقاد ان کمیٹیوں کے تحت کیا جائے۔اس آئین ساز اسمبلی میں قومی آزادی کی جدوجہد اور سماجی تبدیلی کا ایجنڈہ طے کیاجائے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں کسی بھی اسمبلی میں بھی ان مسائل کا حل نہیں ہے درحقیقت آئین ساز اسمبلی ایک ایسی جگہ ہے جہاں مختلف طبقات اپنے پروگرام کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی طرح محنت کش اورشہری و دیہی غریب اپنی جدوجہد سے سیکھتے ہوئے،عوامی کمیٹیوں کے ذریعے طاقت کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے قومی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھااوراس نظام کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔