سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

وائس فار سندھی مسنگ پرسنز نے سارنگ جویو و دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آج کراچی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک ریلی نکالنے کی کوشش کی، جس پر سندھ پولیس نے بدترین تشدد کیا اور ریڈ زون کے نام پر لاپتہ افراد کے لواحقین کو گورنر ہاؤس کی جانب نہیں بڑھنے دیا۔ رائٹ گیئر سے لیس مسلح پولیس اہلکاروں نے خواتین تک پر تشدد کیا اور ریلی کے شرکاء کو اس جارحانہ انداز میں پیچھے دھکیل کر پریس کلب سے گورنر ہاؤس جانے والی سڑک کو دو موبائل وین کھڑی کر کے بلاک کیا۔
ہانی گل بلوچ جو ایک عرصہ سے اپنے لاپتہ منگیتر کی بازیابی کا بنیادی مطالبہ اٹھانےکے لئے صبح سے شام تک پریس کلبوں پر احتجاجی کیمپوں میں پائی جاتی ہیں، ان پر بھی پولیس والوں نے بدترین تشدد کیا کیونکہ وہ ریلی کی صف اول سے قیادت کر رہی تھیں۔
ویسے تو مظلوم اقوام کی صورت حال اس ملک میں ایک عرصہ سے نہایت تشویشناک ہے مگر حالیہ دنوں میں ریاست کی بوکھلاہٹ اور معیشت کی زوال پذیری نے مظلوم اقوام پر تشدد کے واقعات میں اضافہ کیا ہے۔ سارنگ جویو جو خود دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے تمام عمر آواز اٹھاتے رہے، آج وہ خود لاپتہ ہیں۔ کل سے ان کے ساتھی انعام عباسی پریس کلب کے باہر وائس فار سندھی مسنگ پرسنز کے کیمپ پر بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب میں لاپتہ ہوا تھا تو میرے اس عزیز نے میرے لئے آواز اٹھائی تھی، آج میں اس کے لئے کم از کم بھوک ہڑتال تو کر ہی سکتا ہوں۔
نہتے شرکاء بشمول عورتوں پر اس طرح سندھ پولیس کے تشدد نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہر قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں اور کہنے کو وہ ایک قوم ہوتے ہیں مگر تاحیات اپنے اپنے طبقاتی مفادات کی جنگ میں ایک دوسرے سے تصادم میں رہتے ہیں۔ پولیس کا طبقاتی کردار واضح ہے۔ یہ ریاست کا وہ بازو ہے جو اس طبقہ کے مفادات کا مسلح دفاع کرتا ہے جس طبقہ کی یہ ریاست حقیقتاً ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مظلوم اقوام کے محنت کش اور پسے ہوئے طبقات کو آپس میں جڑنے اور ایک مشترکہ لڑائی کا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ کامریڈ انعام کے مطابق 90 میں سے 50 سندھی مسنگ پرسنز ایسے ہیں جو سات سال سے لاپتہ ہیں۔ بلوچ لاپتہ افراد کے تو حالات اس سے بھی زیادہ بدتر ہیں اور ایک عرصہ سے ہیں۔ سندھی اور بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کی جدوجہد کرنے والے آج ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور یہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ اسی طرح اس تحریک میں دیگر قومیتوں کو شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد لازم اور فرض ہے۔ ہم سندھی مسنگ پرسنز کے ریلی پر ریاستی حملہ کے باوجود ان کے بلند حوصلوں اور ان کے کیمپ کو جاری رکھنے کے عزم کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور ان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس معاملہ پر دیگر قومیتوں اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کے جدوجہد کا منصوبہ بنائیں