تحریرشاہ بہرام

تکنیکی مسائل

پاکستان میں تعلیم تک رسائی حاصل کرنا پہلے ہی پریشان کن تھا7کروڑ بچوں میں سے 2 کروڑ سے زائد پہلے ہی تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے باقی سبھی طلباء اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جانے والے طلباء بھی اس عرصے میں تعلیم سے محروم رہے۔آن لائن کلاسز کے دوران بہت سے طلباء کو تکنیکی مسائل درپیش رہے۔پاکستان میں 63.1فیصد سے زائد طلباء دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ناقص انٹرنیٹ ایک خاص مسئلہ رہا ہے۔دیہات میں انٹرنیٹ کنکشن بہت زیادہ ناقص ہوتا ہے۔. دیہات میں وائرلیس یا تھری یا فور جی کوریج بالکل نہیں ہوتی خاص طور پر بلوچستان,خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ سپیڈ بہت زیادہ کم ہوتی ہے۔صوبہ پنجاب کے بھی دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کوریج بالکل نہیں ہوتی. جبکہ آن لائن لیکچرز سننے کے لیے بہتر انٹر نیٹ کنکشن ضروری ہوتا ہے. اس لیے طلباء آن لائن لیکچرز لینے کے لیے یا لیکچرز ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے اپنے گھروں سے دور کئی کلو میٹر شدید گرمی میں موٹر سائیکلوں پر سفر کر کے شہروں میں کسی دوست یا رشتہ داروں کے گھر جاتے رہے ہیں۔

کمپیوٹر خواندگی

جیسا کہ اوپر میں نے بتایا ہے کہ طلباء تک تعلیم کی رسائی پریشان کن مسئلہ رہا ہے. اس لیے پاکستان میں کمپیوٹر خواندگی کی شرح 59فیصد ہے اور یہ واضح ہے کہ 41فیصد طلباء سمارٹ فونز, لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کے بارے میں سمجھ نہیں رکھتے. اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلباء کے پاس سمارٹ فونز تک نہیں ہیں۔چونکہ آن لائن کلاسز کا انعقاد ایکدم سے ہوا تھا. اس لیے بیشتر اساتذہ اور طلباء کو اُن اپلیکشنزکا بالکل پتہ نہیں تھا,جن کے ذریعے آن لائن کلاسز منعقد ہوتیں ہیں۔یہاں تک کہ بہت سے یونیورسٹیوں کی طلباء کو زوم ایپ کا صحیح استعمال نہیں آتا تھا. جس کی وجہ سے آن لائن کلاسز کے آغاز میں بہت سی کلاسز چھوڑنا پڑی اور نتیجتاً طلباء کا تعلیمی کورس بہت زیادہ متاثر ہوا.

ٹائم منجمنٹ

آن لائین کلاسزکے دوران صحیح ٹائم منجمنٹ کاانتظام سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ رہا90فیصد سے زیادہ آن لائن کلاسز بے قاعدہ یا بے ترتیب رہی. بعض اوقات ایک دن میں 5 سے زائد لیکچرز ہوتے تھے. اور کبھی کبھار ایک دن میں صرف ایک ہی لیکچر ہوتا تھااور بعض اوقات کئی کئی دن کلاسز نہیں ہوتیں تھیں. چونکہ اکثریت طلباء کی درمیانے غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے. اس لیے روایتی طور پر طلباء گھر کے اور دیگر دوسرے کاموں میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں. اور کلاسز کی بے ترتیبی کی وجہ سے 70فیصد سے زائد طلباء وقت پر آن لائن کلاسسز جوائن نہ کر سکے اور نتیجتاً طلباء کو تعلیمی کورس میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا.

انٹرنیٹ پیکجز

جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ پاکستان میں 95فیصد سے زائد طلباء محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ کورونا وائرس کے دوران محنت کش طبقے کے لیے روزگار انتہائی مشکل رہا. اس لیے بہت سے طلباء کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ آن لائن کلاسز کے لیے انٹریٹ پیکج حاصل کر سکے اور انٹرنیٹ پیکج نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے طلباء تمام آن لائن کلاسز میں شرکت نہ کر سکے اور نتیجتاً طلباء تعلیم سے مستفید نہ ہو سکے.

تعلیمی کورس

آن لائن کلاسز کے دوران کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کا تعلیمی کورس مکمل نہ ہو سکا یانہ پڑھ سکے۔آن لائن کلاسز کے دوران طلباء کے تمام مضامین کے پریکٹیکلز نہیں ہوئے چونکہ پریکٹیکلز نہ صرف سمجھنا ہوتے ہیں بلکہ لیبارٹری میں پرفارم بھی کرنا ہوتے ہیں اور آن لائن کلاسز کے دوران طلباء کو لیبارٹری کی سہولت میسر ہونا ناممکن تھا۔اس لیے طلباء تمام سبجیکٹز کے پریکٹیکلز پرفارم نہ کرنے کی وجہ سے تعلیمی کورس مکمل نہیں کر سکے۔یہ ساری صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ آن لائن ایجوکیشن بری طرح ناکام ہوئی ہے اور طلباء اس کے نظام کے خلاف احتجاج بھی کرتے رہے لیکن اب جب تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں تو بجائے طلباء کو پڑھنے کا مواقع دیا جاتا اسکی بجائے ان پر امتحانات بوجھ ڈالا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے مختلف یونیورسٹیز اور کالجوں کے طلباء شدید بے چین ہیں کہ وہ جو پڑھ ہی نہیں سکے اس کا امتحان کیسے دیں۔یہ بے چینی ایک بڑی طلباء تحریک کو جنم دئے سکتی اور اس کا پہلا اظہار کراچی یونیورسٹی میں ہوا ہے جہاں طلباء امتحانات کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔