سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے طلباء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کا آج دوسرا روز تھا۔ ایم بی بی ایس کے چوتھے سال کے طالب علم شہزاد بلوچ جن کا تعلق سندھ کے علاقہ کشمور سے ہے ان کی حالت آج کافی خراب ہوگئی اور انہیں اسٹریچر پر لٹا کر ایمبولینس میں اسپتال پہنچایا گیا۔ ساتھی عبدالکریم کی حالت بھی بگڑ رہی ہے اور ہم ان کی حالت کے مزید بگڑنے کے امکان پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ طلباء کی بگڑتی حالتوں پر سندھ حکومت کو شرم آنی چاہیے۔

13 ستمبر سے ڈاؤ بوائز ہاسٹل کی بحالی کے لیے طلباء نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ طلباء پچھلے دو ماہ سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں کہ ان سے ان کا رہائش کا حق نہ چھینا جائے۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل (پی ایم ڈی سی) کے قوائد کے مطابق کسی بھی میڈیکل کالج میں مرد طلباء کی کل تعداد کے کم از کم 20 فیصد کو رہائش فراہم کرنے کے لئے ہاسٹل ہونا لازم ہے۔ اس کے باوجود سندھ حکومت نے ڈاؤ بوائز ہاسٹل کی تینوں عمارتوں پر آئی پی ایم آر نامی ڈیپارٹمنٹ کا غیر قانونی قبضہ عمل میں لایا ہے جو کہ خود پی ایم ڈی سی پروٹوکول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح حکمران طبقہ اپنے ہی قاعدے قانون کا بھی پاس نہیں رکھتا جب بات آتی ہے اس کے طبقاتی مفادات کی۔

ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے طلباء دو مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ ہاسٹل طلباء کمیٹی کے ایک پریس ریلیز کے مطابق سندھ حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق ان کے ہاسٹل کی عمارتیں انسٹیٹیوٹ آف فیزیکل میڈیسن اینڈ ریہیبیلیٹیشن، جسے عام طور پر آئی پی ایم آر کہا جاتا ہے، کے حوالہ کی جا رہی ہیں جس کے لئے طلباء کو ہاسٹل خالی کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

ڈاؤ ہاسٹل کی تاریخ

ہاسٹل طلباء کمیٹی کے مطابق تاریخی طور پر ڈاؤ یونیورسٹی کو تین عمارتیں الاٹ کی گئی ہیں: ہاسٹل 1 (جسے وارث شاہ ہاسٹل بھی کہا جاتا ہے)، ہاسٹل 2 اور ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل۔ آئی پی ایم آر اور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ٹیکنالوجی کے اداروں کو قائم کرنے کے لئے ان تینوں ہاسٹلوں کی عمارتوں کو زیر استعمال لایا گیا جبکہ ڈاؤ کے طلباء کو سندھ میڈیکل کالج میں رہائش فراہم کی گئی کیونکہ یہ کالج ڈاؤ سے منسلک تھا۔ پھر 2013 میں سندھ میڈیکل کالج جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے حوالہ کر دیا گیا۔ ڈاؤ کے طلباء کو واپس ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل بھیج دیا گیا، جس کی خستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ عمارت کا ایک حصہ گرنے سے ایک طالب علم جان سے جاتے جاتے بچا۔ ہاسٹل طلباء کمیٹی کے پریس ریلیز کے مطابق ان تمام واقعات نے احتجاجات کو جنم دیا جس کے نتیجہ میں ہاسٹل 2 کے چھ میں سے تین فلور طلباء کو لوٹائے گئے۔ باقی دونوں عمارات، ہاسٹل 1 اور ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل، جو اب بھی سرکاری طور پر ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے نام سے ہی ریجیسٹر ہیں، آج تک آئی پی ایم آر کے قبضہ میں ہیں۔

مطالبات

طلباء کا بنیادی مطالبہ ہے کہ ڈاؤ بوائز ہاسٹل کی تینوں عمارتوں پر غیر قانونی قبضہ ختم کیا جائے اور ان عمارتوں کو ان تمام سہولیات کے ساتھ طلباء کے لئے بحال کیا جائے جو پی ایم ڈی سی کے قوائد میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مزید یہ مطالبہ کیا ہے کہ خستہ حال ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل کی عمارت کی مرمت کرائی جائے، نومنتخب طلباء کو فوری کمرے الاٹ کئے جائیں اور ہر کمرہ میں دو طلباء رہیں، ہاسٹل کے رہائشی طلباء کے لئے میس، جمنیزیم، لائبریری اور ایک کامن روم تمام بنیادی ضروری سہولیات کے ساتھ فراہم کئے جائیں، پینے کا صاف پانی اور کپڑے دھونے کے لئے جگہ فراہم کی جائے، تینوں ہاسٹل عمارتوں میں باقاعدہ بنیادی ضروری فرنیچر فراہم کیا جائے، ہاسٹل کی فیسوں میں سالانہ اضافہ بند کیا جائے اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت ہاسٹل میں فراہم کی جائے۔ ہم طلباء کے ان مطالبات کو جائز سمجھتے ہیں، ان کی تائید کرتے ہیں اور سندھ حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فی الفور پورا کیا جائے۔

مصلاحت نہیں جدوجہد

پچھلے احتجاج کے نتیجہ میں ڈاؤ کے پرنسپل نے نوٹس لیا تھا اور ہاسٹل طلباء کمیٹی سے ملاقات کی تھی۔ طلباء نے انہیں اپنے مطالبات سے آگاہ کیا تھا اور پرنسپل صاحب نے طلباء کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اس مسئلہ کو سندھ حکومت کے سامنے اٹھائیں گے۔ آج طلباء بھوک ہڑتال جیسے حربے آزمانے پر مجبور ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ یا سندھ حکومت کے حوالہ سے ہمارا تجزیہ درست تھا کہ ان پر طلباء بھروسہ نہیں کر سکتے۔ اپنے حق کے حصول کی جنگ میں آزادانہ سیاسی جدوجہد کا راستہ ہی اپنائے رکھنا حتمی فتح کی ضمانت ہے۔ یقیناً ہاسٹل کی بحالی ایک اہم اصلاح ہو گی مگر دنیا کے کسی بھی حصہ میں آج تک کوئی بھی اصلاح بغیر طبقاتی جدوجہد کے حاصل نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا ہم ڈاؤ کی ہاسٹل طلباء کمیٹی کے بننے کے عمل کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور طلباء کے اس عزم کو سراہتے ہیں کہ جب تک ہاسٹل کی تینوں عمارتوں کی بحالی نہیں ہو جاتی وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

جدوجہد تیز ہو

رہائش کا حق طلباء کا بنیادی جمہوری حق ہے اور آج وہ اس حق کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس ریاست کو اگر اپنی طاقت کا اس قدر زعم ہے تو ہم اسے طلباء کی وہ تحریکیں یاد دلانا چاہتے ہیں جنہوں نے ایک سے ایک آمروں کو نکال بھگایا، ہاسٹل کا حصول تو پھر اس کے آگے چھوٹی بات ہے۔ ہم اس وقت طلباء کے عزم اور جذبہ کو سراہتے ہیں مگر ساتھ ان سے اپیل بھی کرتے ہیں کہ یوں اپنی جانوں کو خطرہ میں نہیں ڈالیں اور بھوک ہڑتال جیسے عوامل ذاتی نقصان سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اس کے برعکس ہمیں سیاسی جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے طلباء کی اس جدوجہد کو دیگر طلباء اور مزدوروں کی لڑائیوں سے جوڑتے ہوئے اس ریاست کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ طلباء کی جدوجہد رنگ لائے گی اگر وہ سیاسی جدوجہد کی درست حکمت عملی پر ثابت قدم رہتے ہیں اور حکمران طبقہ کے کسی ڈھونگ سے دھوکہ نہیں کھاتے ہیں۔ ہاسٹل طلباء کمیٹی کی جدوجہد کو سرخ سلام!