تحریر:عمران جاوید

ہندوستان بھر سے لاکھوں کسانوں نے دہلی چلو مارچ کا آغاز 26نومبر کو آل انڈیا کسان سنگھرش کورڈنیشن کمیٹی جو تین سو کسان تنظیموں پر مشتمل ہے کی اپیل پرکیااور اس وقت یہ کسان12دن سے دہلی کے داخلی راستوں پر دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔انہوں نے نئی دہلی کو پنجاب اور ہریانہ سے ملانے والی شاہراہوں پر دھرنا دے رکھا ہے۔پولیس اور پیراملٹری فورسز مارچ میں شامل کسانوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن کے ذریعے حملہ آور ہوئی جس کے نتیجے میں متعدد کسان زخمی ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود کسان ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے 8دسمبر کو بھارت بند کی کال دی ہے۔کانگرس اور کیمونسٹ پارٹیوں سمیت اپوزیشن کی گیارہ سیاسی جماعتوں نے اس کال کی حمایت کی ہے۔
کسانوں کے دھر نے کو ملک بھر سے مزدور تنظیموں،طلبااورعورتوں کی طرف سے حمایت مل رہی ہے اور کسان دھرنے کے ساتھ اظہار یکجہتی میں احتجاجات بھی ہورہے ہیں اس کے علاوہ ومزدور،طلباء اور عورتیں کسانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے میں بھی شامل ہوتی ہیں اور اس موقع پر انقلاب اور آزادی کی نعرہ بازی کے ساتھ مطالبات کی منظوری تک جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا جاتاہے۔ٹرانسپورٹ ورکرز نے بھی دھرنے میں شمولیت اور پہیہ جام کا اعلان کیا ہے تاکہ دہلی کی طرف مزید سڑکوں کو بند کیا جائے۔
مودی حکومت نہ صرف کسانوں کے مارچ کو روکنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس کی تمام تر تقسیم اور حکمرانی کی پالیسی ناکام ہوئی ہے اورکسانوں کے ساتھ وزیر زراعت تومرکے تمام تر مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔ میڈیا میں ایک پروپگنڈہ جاری ہے جس میں ان قوانین کو ترقی اور سماج کی بہتری کے لیے مفید بتایا جارہا ہے۔
دہلی چلو مارچ اورکسانوں کا دھرنا ہندوستانی حکومت کی جانب سے نیو لبرل پالیسیوں کو اصلاحات کے نام متعارف کروانے اور ان کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے خلاف ہے۔ کسان تین متنازع بلوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں یعنی کم سے کم سپورٹ پرائس کوختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ اس قانون کے بعدزرعی اجناس کی فروخت اور قیمتوں کا تعین منڈی کرئے گئی جس سے نجی سرمایہ دار اور کارپوریٹ سیکٹر قیمتوں کا تعین کرسکیں گئیں، جس سے ذخیرہ اندوزی اوردیگر حربوں کے ذریعے کسانوں کا معاشی قتل عام کیا جائے گا اور مودی حکومت کے حمایتی سرمایہ داروں کو لوٹ مار کے نئے مواقعے ملیں گئیں۔اسی طرح کسان بجلی کا ترمیمی بل واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس ترمیمی بل کی وجہ سے کسانوں کو مفت بجلی کی فراہمی بند ہو جائے گئی۔ کسانوں کا تیسرا مطالبہ کھیتوں میں مڈھوں کو آگ لگانے والے کو پانچ سال قید یا ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا مقرر کرنیوالی قانون سازی ختم کرنا ہے۔
پچھلے کافی مہینوں سے پنجاب،ہریانہ،راجستان، اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کے کسان ان قوانین کی مخالفت کررہے ہیں۔ اس کے خلاف پنجاب میں ہڑتالوں کے علاوہ ریل رکو حکمت عملی کے تحت ریل کی سروسز کو بھی معطل کیاگیا تھا۔
حالانکہ کسان مخالف بلوں کو جاگیرداروں کی حکمرانی کے خاتمے نام پر پیش کیا جارہا ہے لیکن حقیقت میں یہ آڑتھی کے کردار کو مضبوط بناتا ہے اور ریاستوں کے درمیان تجارت کی اجازات دیتاہے اور ذخیرہ اندوازی پر گرفت کو نرم کرتا ہے۔مودی حکومت نے بی جے پی کو فنڈ دینے والے بڑے سرمایہ داروں یعنی مکیش امبانی اور گوتم اڈانی جیسے بڑے سرمایہ دار وں کو مواقع فراہم کیا ہے کہ وہ زراعت میں ان اصلاحات سے منافع حاصل کرسکیں۔ان اصلاحات کے نتیجہ میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور محنت کشوں اور غریب عوام کی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا ہے جو پہلے ہی اپنی آمدن کا بیشتر حصہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔
اکتوبر میں کنزیومرفوڈ پرائس انڈیکس11.07فیصد تک پہنچ گیا جبکہ رٹیل افراط زر7.61تک پہنچ گیا یہ پچھلے چھ سالوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔لازمی اجناس ایکٹ 1955 سے آلو، پیاز وغیرہ جیسے ضروری اشیائے خوردونوش کو ہٹاکر مودی حکومت نے تاجروں اور کارپوریٹ ہاوسسز کو مواقع فراہم کیا کہ وہ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرسکیں جس سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ان کے منافع کے مارجن میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ چونکہ مودی حکومت نے عوام کو رعایتی نرخوں پر اناج لینے سے روکنے کے لئے عوامی تقسیم کا نظام تباہ کردیا ہے لہذا آبادی کی اکثریت کو اناج اور سبزیوں کی کھلی منڈی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
۔27نومبر کو قومی شماریاتی دفتر نے موجود مالی سال کی دوسری ساماہی میں جی ڈی پی کی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق اس ساماہی میں جی ڈی پی میں 7.5فیصد کمی ہوئی ہے اور کل جی ڈی پی35.8ٹریلین سے کم ہو کر33.1فیصد ہوگیا ہے۔یہ ایک بڑا سکڑاؤ ہے اور یہ مسلسل دوسری ساماہی میں ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان تکنیکی طور پر کساد بازاری کا شکارہے۔اس سب کے باوجود جہاں ایک طرف غربت اور بے روزگاری میں شدید اضاٖفہ ہوا ہے تو دوسری طرف بڑے سرمایہ داروں کے منافعوں میں حکومتی پیکجز اور مزدور و کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق ہندوستان کی معیشت اس سال 10.3 فیصد کم ہوجائے گی، جو ایک بہت بڑا زوال ہے۔ آکسفورڈ اکنامکس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وبائی مرض میں کمی کے باوجود بھی ہندوستان معیشت شدید متاثر رہے گئی اور سالانہ پیداوار 2025 کے تک بھی کوویڈ19 سے پہلے کی سطح سے 12 فیصد نیچے ہوگی۔
دہلی چلو مارچ اورایک روزہ ہڑتال نے مزدور طبقے کے غم و غصے اور کسانوں، مزدوروں اور طلباء کے اتحاد کوظاہر کیا ہے۔ تاہم، مزدوروں اور کسانوں مطالبات کے لئے 8دسمبر کا بھارت بنداہم لیکن نا کافی ہے۔ پچھلے سالوں میں ہندوستان کے محنت کش طبقے نے متاثر کن ہڑتالیں کی ہیں لیکن نیولیبرل ایجنڈے کو شکست دینے کے لئے غیر معینہ مدت کی ہڑتال پر جانا ہوگا۔ نجکاری، مزدور مخالف اور کسان مخالف قوانین، منافع میں اضافے اور مزدورطبقے کے لوگوں کی اجرت، قانونی تحفظات اور شرائط کو کم کرنا ایک بڑے نو آبادیاتی سرمایہ دارانہ حملے کا ایک حصہ ہیں۔
ان حملوں کے خلاف مستقل مزاحمت کی ضرورت ہے یعنی مزدور اور کسان مخالف قوانین کے خلاف،شہروں اور دیہاتوں میں کم از کم آمدن اورتنخواہ کے لیے غیر معینہ ہڑتال کی ضرورت ہے۔
ٹریڈ یونینوں اور کسان تنظیموں جوجرات کے ساتھ مودی حملوں کا مقابلہ کررہی ہیں ان کوکام کی جگہ،ضلعی سطح،محلوں اور دیہات میں جدوجہد کی کمیٹیوں کو تشکیل دینے کی اپیل کرنی چاہیے ان میں مزدوروں،چھوٹے، درمیانے کسان اور بے زمین کسانوں شامل ہوں جن کے ساتھ مذہب،قومیت،ذات اور جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ ہو۔ریاستی جبر اور رجعت پسند ہندو انتہا پسند کے حملوں کے خلاف تحریک کے دفاع کے لیے دفاعی دستوں کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
ایک سیاسی عام ہڑتال جو ملک کو مستقل طور پر مفلوج کردیتی ہے لامحالہ طاقت کا سوال اٹھائے گی اور اس طرح دفاعی جدوجہد سے جارحانہ اقدام کی طرف بڑھنے کے امکان اور ضرورت کو جنم دے گی۔ یہ درست ہے کہ اس کے لئے ٹریڈ یونین کی جدوجہد سے آگے جانے کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد کو ہر طرح کے جبر کے خلاف جدوجہد سے جوڑنے، بی جے پی حکومت کے خلاف جدوجہد کو سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے جوڑنے، مزدور طبقے کی ایک انقلابی سیاسی جماعت کی تشکیل ضرورت ہے جس کا پروگرام عبوری مطالبات پر مبنی ہو اور محنت کشوں اور کسانوں کی حکومت کے لیے جدوجہدکرے اورکونسلوں کی حکمرانی قائم کرئے، بڑے کاروبار کو ضبط کرئے اور جمہوری منصوبہ بند معیشت کا متعارف کروائے۔
اس وقت قومی سطح پر ایسے پروگرام کی وکالت کرنے والی ہندوستان میں کوئی سیاسی قوت موجود نہیں ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں نے حقیقت میں طویل عرصے سے سرمایہ داری کے انقلابی خاتمے کی جدوجہد کو ختم کردیا ہے اور ریڈیکل بائیں بازو بھی گومگو کا شکار اوربکھرا ہواہے۔ان حالات میں سوشلسٹ اور انٹرنیشنل حل سے متفق تمام افراد کو ایک انقلابی پارٹی کے پروگرام کی بحث کو جدوجہد کے مرکز پر لانا ہوگا اور اس کی تعمیر کی جدوجہدکرنی ہوگی۔ ایسی پارٹی کو موجود سیاسی بحران کا انقلابی اور حکومتی حل پیش کرنا ہوگا۔