منرویٰ طاہر

کراچی: ڈاؤ بوائز ہاسٹل کو سندھ حکومت کے قبضہ سے بچانے کے لئے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے باہر منگل 18 اگست کو ہاسٹل طلباء کمیٹی کے زیر اہتمام زبردست احتجاج کیا گیا۔ شدید گرمی کے باوجود طلباء نے احتجاج میں شرکت کی اور انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے۔ دیگر بائیں بازو، طلباء اور قومپرست تنظیموں نے احتجاج میں شرکت کی اور ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے طلباء کے مطالبات کی حمایت کی۔ صبح ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے والا احتجاج دوپہر 2 بجے تک جاری رہا۔

پی ایم ڈی سی قوائد کی خلاف ورزی

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل (پی ایم ڈی سی) اس ملک کے میڈیکل اور ڈینٹل پریکٹیشنرز کے لئے ریگولیٹری اور ریجیسٹریشن ادارہ ہے۔ اس کے قوائد کے مطابق کسی بھی میڈیکل کالج میں مرد طلباء کی کل تعداد کے کم از کم  20 فیصد کو رہائش فراہم کرنے کے لئے ہاسٹل ہونا لازم ہے۔ اس کے باوجود سندھ حکومت نے ڈاؤ بوائز ہاسٹل کی تینوں عمارتوں پر آئی پی ایم آر نامی ڈیپارٹمنٹ کا غیر قانونی قبضہ عمل میں لایا ہے جو کہ خود  پی ایم ڈی سی پروٹوکول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح حکمران طبقہ اپنے ہی قاعدے قانون کا بھی پاس نہیں رکھتا جب بات آتی ہے اس کے طبقاتی مفادات کی۔

ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے طلباء کئی ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں۔  ہاسٹل طلباء کمیٹی کے پریس ریلیز کے مطابق سندھ حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق ان کے ہاسٹل کی عمارتیں انسٹیٹیوٹ آف فیزیکل میڈیسن اینڈ ریہیبیلیٹیشن، جسے عام طور پر آئی پی ایم آر کہا جاتا ہے، کے حوالہ کی جا رہی ہیں جس کے لئے طلباء کو ہاسٹل خالی کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

ڈاؤ ہاسٹل کی تاریخ

ہاسٹل طلباء کمیٹی کے مطابق تاریخی طور پر ڈاؤ یونیورسٹی کو تین عمارتیں الاٹ کی گئی ہیں: ہاسٹل 1 (جسے وارث شاہ ہاسٹل بھی کہا جاتا ہے)، ہاسٹل 2 اور ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل۔ آئی پی ایم آر اور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ٹیکنالوجی کے اداروں کو قائم کرنے کے لئے ان تینوں ہاسٹلوں کی عمارتوں کو زیر استعمال لایا گیا جبکہ ڈاؤ کے طلباء کو سندھ میڈیکل کالج میں رہائش فراہم کی گئی کیونکہ یہ کالج ڈاؤ سے منسلک تھا۔ پھر 2013 میں سندھ میڈیکل کالج جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے حوالہ کر دیا گیا۔ ڈاؤ کے طلباء کو واپس ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل بھیج دیا گیا، جس کی خستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ عمارت کا ایک حصہ گرنے سے ایک طالب علم جان سے جاتے جاتے بچا۔ ہاسٹل طلباء کمیٹی کے پریس ریلیز کے مطابق ان تمام واقعات نے احتجاجات کو جنم دیا جس کے نتیجہ میں ہاسٹل 2 کے چھ میں سے تین فلور طلباء کو لوٹائے گئے۔ باقی دونوں عمارات، ہاسٹل 1 اور ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل، جو اب بھی سرکاری طور پر ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے نام سے ہی ریجیسٹر ہیں، آج تک آئی پی ایم آر کے قبضہ میں ہیں۔

مطالبات

طلباء کا بنیادی مطالبہ ہے کہ ڈاؤ بوائز ہاسٹل کی تینوں عمارتوں پر غیر قانونی قبضہ ختم کیا جائے اور ان عمارتوں کو ان تمام سہولیات کے ساتھ طلباء کے لئے بحال کیا جائے جو پی ایم ڈی سی کے قوائد میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مزید یہ مطالبہ کیا ہے کہ خستہ حال ہری بائی پراگجی کاریہ ہاسٹل کی عمارت کی مرمت کرائی جائے، نومنتخب طلباء کو فوری کمرے الاٹ کئے جائیں اور ہر کمرہ میں دو طلباء رہیں، ہاسٹل کے رہائشی طلباء کے لئے میس، جمنیزیم، لائبریری اور ایک کامن روم تمام بنیادی ضروری سہولیات کے ساتھ فراہم کئے جائیں، پینے کا صاف پانی اور کپڑے دھونے کے لئے جگہ فراہم کی جائے، تینوں ہاسٹل عمارتوں میں باقاعدہ بنیادی ضروری فرنیچر فراہم کیا جائے، ہاسٹل کی فیسوں میں سالانہ اضافہ بند کیا جائے اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت ہاسٹل میں فراہم کی جائے۔ ہم طلباء کے ان مطالبات کو جائز سمجھتے ہیں، ان کی تائید کرتے ہیں اور سندھ حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فی الفور پورا کیا جائے۔

مصلاحت نہیں جدوجہد

منگل کے احتجاج کے نتیجہ میں بالآخر ڈاؤ کے پرنسپل نے نوٹس لیا اور ہاسٹل طلباء کمیٹی سے ملاقات کی۔ طلباء نے انہیں اپنے مطالبات سے آگاہ کیا۔ پرنسپل صاحب نے طلباء کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس مسئلہ کو سندھ حکومت کے سامنے اٹھائیں گے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ طلباء کو یونیورسٹی انتظامیہ یا سندھ حکومت کے کسی بھی نمائندہ پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور اپنے حق کے حصول کی جنگ میں جدوجہد کا راستہ ہی اپنائے رکھنا چاہئے۔ یقیناً ہاسٹل کی بحالی ایک اہم اصلاح ہو گی مگر دنیا کے کسی بھی حصہ میں آج تک کوئی بھی اصلاح بغیر طبقاتی جدوجہد کے حاصل نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا ہم ڈاؤ کی ہاسٹل طلباء کمیٹی کے بننے کے عمل کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور طلباء کے اس عزم کو سراہتے ہیں کہ جب تک ہاسٹل کی تینوں عمارتوں کی بحالی نہیں ہو جاتی وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

قومی و طبقاتی جبر

ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے طلباء کی جدوجہد اس وقت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ہاسٹل ان طلباء کے لئے نہایت ضروری ہیں جو سندھ، بلوچستان،خیبر پشتونخواہ، گلگت بلتستان، کشمیر وغیرہ سے طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بڑی تگ و دو کے بعد کراچی آتے ہیں۔ مشترکہ و غیر ہموار ترقی کے باعث جتنی اعلیٰ تعلیم کی سہولیات کراچی جیسے شہر میں میسر ہیں، ان مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے طلباء کے علاقوں کو اتنا ہی پسماندہ رکھا گیا ہے۔ ایک طرف اس پسماندگی کے نتیجہ میں ان مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے طلباء کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ بڑے شہروں میں جا کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں تو دوسری طرف ان کے ان شہروں میں رہائش کے حق پر حملہ کیا جاتا ہے۔ یہ کھلم کھلا طبقاتی عداوت ہے کیونکہ ہاسٹل کی خستہ حال عمارتوں میں رہنے والے طلباء عموماً محںت کش خاندانوں سے آتے ہیں اور ان سے ہاسٹل کی سہولت چھین لینے کا مطلب ہے کہ ان کی تعلیم کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوں۔ ان پر ایک طرف قومی جبر ہوتا ہے دوسری طرف طبقاتی، جس کے نتیجہ میں انہیں اور ان کی آئندہ نسلوں کو باقاعدہ پسماندگی کے دلدل میں دھکیلا جاتا ہے۔

ڈاؤ بوائز ہاسٹل کے ایک رہائشی عبدالکریم نے کہا: “ہمارے علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے موجود نہیں ہیں اور طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہم کراچی آتے ہیں تاکہ مستقبل میں ڈاکٹر بن سکیں۔ ہم اس ملک کا مستقبل ہیں، بالخصوص ایک ایسے وقت میں کہ جب کورونا وبا نے صحت کے شعبہ پر کتنا دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اس کے باوجود، بجائے اس کے کہ ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی اور ہماری تعلیم میں معاونت فراہم کی جاتی، یہ سرکار ہماری تعلیم کی راہ میں مزید رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔”

اس بات سے ریاست کی طبقاتی ترجیحات مزید واضح ہو جاتی ہیں۔ اگر کراچی شہر میں اتنی ہی جگہ تنگ پڑ گئی تھی کہ آئی پی ایم آر ڈپارٹمنٹ بنانے کے لئے سرکار کو اور کوئی جگہ نہ ملی تو ہم اسے یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کس طرح ریئل اسٹیٹ سے لے کر فوجی اشرافیہ تک، حکمران طبقہ نے اس شہر کی زمینوں پر بڑے قبضے کر رکھے ہیں۔ بلاول ہاؤس کو کیوں نہیں گرا دیتے اس ڈپارٹمنٹ کو بنانے کے لئے؟ وجہ بہت سادہ ہے۔ حکمران طبقہ اور اس کی ریاست محنت کشوں، مظلوم اقوام و دیگر پسے ہوئے گروہوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ان سے نہ ان کی معیشت سنبھل رہی ہے نہ یہ نظام، لہٰذا بوکھلاہٹ کی شکار یہ مردار ریاست آئے روز جبر و بربریت میں اضافہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بالخصوص کوروناوائرس وبا کے وقت تو یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے کہ زندگیاں بچانے اور انسانیت کی ضروریات کا خیال رکھنے کے لئے موجودہ اور مستقبل کے ڈاکٹرز کو مزید معاونت فراہم کی جائے۔ مگر سرمایہ داری کی حدود میں ایسا ہوگا کبھی نہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ ریاستیں جو بھی فیصلے کرتی ہیں وہ انسانیت کی بقا اور ضروریات کو مد نظر رکھ کر نہیں کرتیں بلکہ محض منافع کی ریل پیل کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہیلتھ ورکرز پر جبر جاری ہے اور طب کے طلباء پر بھی کیونکہ ان کو سہولیات فراہم کرنے سے حکمران طبقہ کے منافعوں میں کوئی اضافہ نہ ہوگا۔

ہمارا راستہ، جدوجہد کا راستہ!

خوش آئند پیشرفت یہ ہے کہ جس تیزی سے ریاست بربریت کی جانب بڑھ رہی ہے، اسی تیزی سے عوام کی دیگر پرتوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ حکمران طبقہ سے ٹکراؤ کا حوصلہ بھی ان حالات میں بڑھ رہا ہے۔ رہائش کا حق طلباء کا بنیادی جمہوری حق ہے اور آج وہ اس حق کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس ریاست کو اگر اپنی طاقت کا اس قدر زعم ہے تو ہم اسے طلباء کی وہ تحریکیں یاد دلانا چاہتے ہیں جنہوں نے ایک سے ایک آمروں کو نکال بھگایا، ہاسٹل کا حصول تو پھر اس کے آگے چھوٹی بات ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان دیگر پرتوں کو آپس میں جڑنا چاہئے جو اس وقت اپنے اپنے مسائل پر متحرک ہو رہی ہیں تاکہ حکمران طبقہ کے ہمارے بنیادی جمہوری حقوق پر حملوں کا مل کر کے مقابلہ کر سکیں۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ طلباء کی جدوجہد رنگ لائے گی اگر وہ جدوجہد کی درست حکمت عملی پر ثابت قدم رہتے ہیں اور حکمران طبقہ کے کسی ڈھونگ سے دھوکہ نہیں کھاتے ہیں۔ ہاسٹل طلباء کمیٹی کی جدوجہد کو سرخ سلام!