تحریر:شہزاد ارشد

طلبہ تحریک کے لیے 23اکتوبر ایک سنگ میل ہے یہ جدوجہداور عزم کی داستان ہے۔بلوچ کونسل ملتان کا سکالرشپ اور نشستوں کے خاتمے کے خلاف جدوجہد کا آغاز ملتان بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے ہوا جہاں انہوں نے چالیس دن تک انتہائی گرمی میں احتجاجی کیمپ لگا یا اس دوران ملتان پریس کلب اور یونیورسٹی کے باہر کیئے احتجاج بھی ہوئے۔پشتون طلباء نے بھی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے دروزاے پر کیمپ لگایا پھر کوئٹہ اور اب بھی گورنر ہاوس کے باہر لگا رکھا ہے جبکہ بلوچ طلباء12دن کا پیدل سفر کرکے ملتان سے پیدل لاہور آئے اور انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ابتداء میں انہیں ہر طرح سے دھمکایا گیا لیکن ان کے تدبر،ہمت اور جدوجہد کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا۔بلوچ طلبہ نے ایک ناممکن کو ممکن بنا دیا،طلبہ جیت گے اس جدوجہد میں بلوچ طلبہ نے ہراول کا کردار ادا کیا۔۔یہ جیت صرف پنجاب حکومت کی شکست نہیں ہے بلکہ ان طلبہ نے آئی ایم ایف کی نیولبرل پالیسیوں کو شکست دی ہے جس کے تحت ان طلبہ اور محنت کش طبقہ کی وسیع تر پرتوں پر حکومت حملے کررہی ہے۔
بلوچستان کے طلبہ تعلیم کے حق کے لیے لڑرہے ہیں یہ انتہائی پسماندہ علاقوں کے نوجوان ہیں حالانکہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور عالمی و مقامی سرمایہ اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے لیکن ان وسائل میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔یہ طلباء بتاتے ہیں کہ یہ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں یہ تالاب سے پانی پیتے ہیں۔ ان کے لیے پڑھنا آسان نہیں ہے پہلے ہی ان کے علاقوں میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کے علاوہ ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے خوف اور دہشت کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں اور ہزاروں بلوچ جبری طور پر گمشدہ ہیں اور اکثر ان کے مسخ شدہ جسم ملتے ہیں اور کبھی تو حیات بلوچ کی طرح پکڑ کر ماں باپ کے سامنے ہی قتل کردیا جاتاہے اور کبھی ثناء بلوچ کی طرح مسنگ پرسن بن جاتے ہیں جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔مارچ کرنے والے طالب علموں میں ایک جیئند بلوچ بھی تھاجو آٹھ ماہ تک زنداں میں جبر و تشدد برداشت کرتا رہا ہے اور اب بھی اس کا خاندان صدمے سے باہر نہیں ہے۔
ایسی شاندار جدوجہد کے باوجود طلبہ تحریک کے کچھ مسائل بھی ہیں اور سوالات بھی اُٹھائے گئے ہیں ان پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ تحریک کوجو بڑے چیلنجز ہیں ان کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اول تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک ان کے فوری مسائل یعنی ان کے تعلیم کے حق کی جدوجہد تھی جو وہ یونیورسٹی انتظامیہ اور پنجاب حکومت سے کررہے تھے لیکن ان کو سیاسی جماعتوں سے کوئی امید نہیں تھی کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں ہی تھیں جنہوں نے ان کے تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے لیے ووٹ دیاہے اور یہی وجہ ہے کہ صرف طلبہ میں ہی نہیں سماج میں بھی عمومی طورسیاست سے ایک بیگانگی ہے کیونکہ نیولبرل ازم کے تحت سیاسی پارٹیاں اور ریاست مکمل طور پر حکمران طبقہ کی نمائندہ بن کرسامنے آئیں اور ان کی پالیسیاں ہزاروں محنت کشوں،طلبہ اور عورتوں کی بربادی کا سامان پیدا کررہی ہیں۔روایتی سیاسی پارٹیوں اور طلبہ تنظیموں میں سکت ہی نہیں ہے کہ وہ طلبہ اور عوام کی نمائندہ بنیں اگر ان میں یہ سکت ہوتی تو یہ لڑائی یہ پارٹیاں اور تنظیمیں کرتی اور اسی وجہ سے سیاسی علیحدگی بھی ہے اور لحاظ اگر یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیمیں نہیں ہوں گئیں تو پھر کونسلیں ہی جنم لیں گئیں اور کونسلوں کا کردار اور دائرہ محدود ہے اور اپنے سیکشن کے لیے جدوجہد کرتی ہیں لیکن یہ سب کونسلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ نیولبرل پالیسیوں اور مزدور اور طلباء تحریک کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے۔اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے یہ درست ہے کہ کونسلیں انقلابی نہیں ہیں اور ان کا ایسا کوئی دعوی بھی نہیں ہے لیکن ان کو بورژوا یا استحصالی سمجھنا بھی غلط ہے۔اس مارچ کو بلوچ کونسل ملتان اور دیگر کونسلوں خاص کر لاہور کونسل کے ساتھ مل کررہی تھی تو ان کا طریقہ کار روایتی سیاست سے مختلف تھا۔اس لیے لاہور کونسل نے جو پروگرام اور ضابطے طے کیئے وہ لیفٹ کہ ایک حصہ کو سمجھ نہیں آئے اور ان کو نصیحتیں ملنا شروع گئیں کہ تم کو سیاست نہیں آتی تمھارا رویہ جمہوری اور انقلابی نہیں ہے اور یہ کہنے والے جدوجہد کی جگہ پر سرخ پرچم کو لے آئے۔ان کو ایسا لگا شاید لیفٹ کے ساتھ کوئی زیادتی ہوگئی ہو حالانکہ طلبہ کی جدوجہد سرمایہ کی پالیسیوں کے خلاف تھی۔ویسے لیفٹ کے ایک بڑے حصے نے اس کا ساتھ بھی دیا۔
اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ طلبہ نے مریم نوازکو جگہ دی لیکن سرخ پرچم کو نہیں اور یہ طلبہ کی جدوجہد نہیں تھی بلکہ مریم نوازکی آمد تھی جس کی وجہ سے گورنر نے مطالبات منظور کیئے۔پہلی بات تو یہ کہ طلبہ نے سیاسی حمایت سے کسی کو منع نہیں کیا تھا اور ویسے بھی وہ اس نظام میں حل دیکھ رہے ہیں تو وہ مریم نواز کی آمد کو کیوں روکتے جیسے انہوں نے لیفٹ کی کسی تنظیم کو نہیں روکا البتہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ طلبہ کی جدوجہد اور ہمت تھی جس کی وجہ سے مریم نواز دھرنے میں آنے پر مجبور ہوئی۔ یہ درست ہے حکمران طبقہ کی لڑائی میں تحریکیں بھی ابھرتی ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ہمیں طلبہ کو خبردار کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ سیاست دان اس نظام کے علمبردار ہیں جس کی وجہ سے انہیں نیولبرل پالیسیوں کا سامنا ہے اور ان سے کسی قسم کی امید بیکار ہے۔
طلبہ تحریک قومی بنیادوں پر تقسیم ہے اس کی وجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں اور اس تقسیم کے خلاف لڑنے اور طلباء کو اکھٹے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سوشلسٹوں کی شعوری مداخلت کی ضرورت ہے اور یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل کی بڑی لڑئیاں قومی پیمانے پر جیتی نہیں جاسکتیں لیکن یہ جڑت علیحدگی میں نہیں بنئے گئی اس تقسیم کا خاتمہ طلبہ کی سطح پر نہیں ہوگا بلکہ یہ سوال سماجی تبدیلی کی جدوجہد سے جڑا ہوا ہے اور اس کے لیے محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو تمام مظلوم اقوام کے مسائل کو اپنے پروگرام کا حصہ بنائے اور اس کے لیے سرگرم جدوجہد کرئے اور اسے سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں بدل دئے۔