لیگ فار دی ففتھ انٹرنیشنل

طالبان کی فتح اور اشرف غنی حکومت کا زوال امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے عالمی سطح پر ذلت آمیز شکست ہے۔ امریکی سفارت خانے کی چھت سے بھاگنے والے سفارت کاروں کی ہیلی کاپٹروں میں بیٹھنے کی تصویر 1975 میں سیگون کے زوال کی طرح اشتعال انگیز ہے لیکن اس میں ایک اہم فرق ہے۔ اس وقت امریکہ کا واحد عالمی حریف سوویت یونین پہلے سے ایک زوال پذیر قوت تھاجبکہ آج چین ایک مضبوط سامراج ہے جواپنی ترقی کی رفتار کی وجہ سے اپنی طاقت اور رسائی کو امریکہ کی قیمت پر بڑھارہا ہے۔
ٹرمپ نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکی انخلا پر راضی ہونے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس حوالے سے کابل حکومت سے دکھاوئے کی مشاورت بھی نہیں کی گئی یہ صرف ایک سنکی صدر کی ذاتی خواہش نہیں تھی۔ اس نے اس حقیقت کو ظاہر کیا تھاکہ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی ہے اوربہتر ہے کہ جتنی جلدی ہواس سے جان چھڑا لی جائے۔ یہ نتیجہ پہلے ہی نہ صرف بہت سے ریپبلکن بلکہ خود جو بائیڈن نے بھی شیئر کیا تھا جنہوں نے بطور نائب صدر اوباما کے ”اضافے” کی مخالفت کی تھی۔
دوحہ میں طالبان رہنماؤں کی ایک نئی نسل کو پاکستانی ریاست کے ان عناصر نے جنہوں نے جلاوطنی میں ان کی حمایت کی تھی انہوں نے اگر حکم نہیں دیا تو کم از کم مشورہ دیا کہ حکمت عملی کے طور پر معاہدے کرلیں جس میں مستقبل میں تشکیل پانے والی حکومت میں ان کا حصہ ہو۔ اگرچہ اس سے امریکہ کی سبکی میں کچھ کمی ہوئی لیکن طالبان جانتے تھے کہ افغانستان کے بڑے حصے میں سماجی تعلقات تبدیل نہیں ہوئے ہیں اور موجودحکومت مکمل طور پر امریکی موجودگی پر انحصار کررہی ہے۔ معاشی اور سماجی ترقی کے لیے زمیندار طبقے کا تختہ الٹنے کی ضرورت تھی جس میں امریکہ یا اس کے کٹھ پتلیوں کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
طالبان نے بھی شاید اس غیر معمولی رفتار کی توقع نہیں کی تھی جس کے ساتھ انہوں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے لیکن وہ ہمیشہ صحیح طور پر پراعتماد تھے کہ ایک بار جب قابض سامراجی فوجیں چلی جائیں گی توحکومت اور اس کی فوج بکھر جائے گی۔یہ بات اس تلخ حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ اس حکومت کی افغان سماج میں کوئی حقیقی سماجی جڑیں نہیں تھیں۔
20 سال کے قبضے میں لاکھوں کی اموات اورغیر متناسب اور طویل جنگ کی وجہ سے 70 لاکھ لوگ مہاجر ہوئے اور اب افغانستان کو اس کے قابضین تباہی کی حالت میں چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں۔ تقریبا 80 فیصد آبادی بے روزگار یا نیم روزگار کی حامل ہے اور 60 فیصد بچے بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔
غربت اور جنگ کے امتزاج نے نہ صرف لاکھوں افراد کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا اور طالبان نے ایسے ہی لوگوں کو بھرتی کیاہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد شہروں میں بھی آئی جس کی وجہ سے سماجی تعلقات میں تبدیلیاں آئی ہیں یہ شاید سب سے اہم خواتین کے لیے ہیں لیکن یہ تبدیلیاں ملازمتوں اور سیاسی جمہوریت کے حوالے سے بھی ہیں۔ حکومت کی طرح ان کا بہت زیادہ انحصار بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے فراہم کردہ وسائل پر ہے۔
پاکستان
حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے نہ صرف کرہ ارض کی سب سے طاقتور ریاست کے خلاف لڑائی کو برقرار رکھاتھابلکہ ان کی طاقت اور اثر روسوخ میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ چند ہفتوں میں پورے ملک پر قبضہ ہوگئے ہیں۔اس کی وجہ صرف مفلس اور بے یارومددگار مہاجرین میں طالبان کی بھرتی ہی نہ تھی بلکہ اسے پاکستان کی حمایت تھی اورخاص طور پر انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی تھی جوطویل عرصے سے افغانستان کے ساتھ اپنے جھگڑے میں بھارت کو ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
افغانستان پر سوویت حملے کے بعد ایک ایسے وقت میں جب نیم نوآبادیاتی پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا۔آئی ایس آئی نے مجاہدین کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے گوریلا جنگجوؤں کو امریکی امداد پہنچانے میں قیمتی تجربہ اور مہارت حاصل کی تاہم وقت بدلتا ہے اور اسی طرح وفاداری بھی تبدیل ہوتی ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بیس سال چین کے عروج کے سال بھی ہیں۔ جو اب پاکستان کی معاشی امداد کا اہم ذریعہ ہے بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں پاکستان اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے ریاستی نظام میں ابھی بھی مغرب نواز عناصر موجود ہیں، لیکن وزیراعظم عمران خان نے جس تیزی سے طالبان کی فتح کا خیرمقدم کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیجنگ نواز دھڑا اب غالب ہے۔
طالبان کی فتح کی عالمی اورشاید تاریخی اہمیت یہ ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے اور بعدازں جس طرح عراق پر حملے کیا گیا ان کا مقصد صرف امریکی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا اور پورے مشرق وسطیٰ پر اپنی گرفت مضبوط کرکے اپنی بالادستی کو ثابت کرنا تھاتاکہ سوویت یونین کے خاتمے اور گلوبلائزیشن کے ذریعے شروع ہونے والی نئی صدی کو امریکی صدی کے طور پر پیش کیا جائے۔
9/11کے وحشیانہ اور رجعتی حملے نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” کو ایک جواز کے طور پر پیش کیا گیا۔جس میں واشنگٹن نے کہا کہ جہاں کہیں بھی اس کے مفادات کو خطرہ ہوگا وہ وہاں فوجی مداخلت کرئے گا۔ آج عراق اور افغانستان دونوں میں فوجی شکستوں اور 2008/9کے معاشی بحران کے بعدپوری دنیا میں امریکن بالادستی کے نظریہ پر سوالیہ نشان ہے۔ امریکہ بلاشبہ اب بھی ایک بہت طاقتور ریاست ہے لیکن اب اس کی بالادستی کو ابھرتے ہوئے سامراجی ممالک کی طرف سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
قوتوں کا بدلتا ہوا توازن ناگزیر طور پر نہ صرف حریف سامراج چین اور روس بلکہ علاقائی طاقتوں جیسے پاکستان، ایران، ترکی، بھارت کو بھی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے کی ترغیب دے گا۔ مزید وہ ممالک جنہوں نے امریکہ کی حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے جیسے تائیوان ذہن میں آتا ہے، ضرور سوچ رہا ہوگا کہ مستقبل کیا ہے۔ یہاں تک کہ یورپی یونین کے سامراج جیسے جرمنی اور فرانس اس بات کا حساب لگائیں گے کہ انہیں امریکی ترجیحات سے کتنا دور ہونا چاہیے۔
خود افغانستان میں طالبان حکومت کی بحالی واضح طور پر امن اور خوشحالی کا راستہ نہیں کھولے گی۔ پاکستان اور خلیجی ریاستوں میں بیس سال کی جلاوطنی، نئے رہنماؤں کی نشوونما، بہت تبدیل شدہ ملک میں نظام حکومت بنانے کا چیلنج اور واپس آنے والے جلاوطنوں اور ملک کے اندر قبضہ کے دوران تنظیم کو برقرار رکھنے والوں کے درمیان تناؤ کا امکان ہے جس کی وجہ سے اندرونی کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔فتح ہمیشہ فاتحین کو تقسیم کرتی ہے۔
عام معافی
اپنی پہلی پریس کانفرنس میں نئی حکومت کے نمائندے نے ان تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جنہوں نے سابقہ حکومت کے لیے کام کیا اور خواتین کو یقین دلایا کہ ان کے تعلیم، کام اور عوامی زندگی میں شمولیت کے حقوق کی ضمانت دی جائے گی بشرطیکہ اسلامی اصولوں کا احترام کیا جائے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ طالبان کوئی انتقام نہیں چاہتے اور دوسروں کو مجوزہ حکمرانی میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔عوام سے عام طور پر کام پر واپس آنے کی اپیل کی گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کا عملی نقطہ نظر ایک ایسی تحریک کے لیے قابل عمل ہے جس کا اپنا کوئی سول انتظامی ڈھانچہ نہیں ہے اور اس کے ممکنہ بین الاقوامی حامیوں کی طرف سے بھی اسے یہی مشورہ تھا۔ وقت بتائے گا کہ کیا اس پر عمل ہو گااورملک کے سب سے زیادہ رجعتی دھارے اس طرح کی مراعات کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں گے جو اپنے پسندیدہ معیارات کی واپسی کے لیے بیس سال تک لڑتے رہے ہیں۔ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت سیاسی جماعتوں یا ٹریڈ یونین جیسی کوئی قوتیں موجود نہیں ہیں جو کسی بھی رجعت کو روکنے کے لیے متحرک ہو سکے۔
عالمی سطح پر جمہوری حقوق کے علمبرداروں کوافغانستان میں استحصال ذدہ اور مظلوم عوام سے شکست خوردہ سامراجیوں کو انتقام لینے سے روکنے کے لیے اپنی طاقت سے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ پابندیاں لگانے یا یہ اب جوملک کی ڈی فیکٹو حکومت ہے اسے تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت ہونی چاہیے،اس سے صرف مصائب اور غربت میں اضافہ ہی ہوگا۔
افغانستان میں عوام کے لیے سیا ہ عہدجنم لے چکا ہے۔ طالبان کی فتح تمام جمہوری تنظیموں، خواتین کی تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور سوشلسٹ یا کمیونسٹ قوتوں کو غیر قانونی قرار دئے دے گئی۔ تاہم جیسا کہ تمام تھیوکریٹک حکومتوں میں دیکھا جا سکتا ہے اس سے سماجی تضادات کسی بھی طرح ختم نہیں ہوں گے۔ طبقاتی دشمنی اور دیگر سماجی تنازعات جلد یا بدیر ناگزیر طور پر ابھریں گئے۔جلال آباد میں نوجوانوں کا احتجاج اس کی پہلی علامت ہے۔ افغانستان میں انقلابیوں کو اس کے لیے تنظیمی، سیاسی اور پروگرام کے حوالے سے ہر طرح سے کا م کرنے کی ضرورت ہے۔
پارٹی
دو سبق مرکزی ہوں گے اول جمہوری اور سماجی تقاضوں کی جدوجہد میں کسی بھی سامراجی طاقت یا ان کے علاقائی ایجنٹوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ہے اس میں سیاسی آزادی اہم ہے۔ حقیقی اتحادی صرف وہ قوتیں ہی ہوسکتی ہیں جنہوں علاقائی اورعالمی سطح پر ”اپنی” حکومتوں سے اپنی آزادی کو ثابت کیا ہے۔ دوم افغان انقلابیوں کو ایک نئی پارٹی بنانی چاہیے جو ایک ایسے پروگرام پر مبنی ہو جو ناگزیر سماجی اور سیاسی جدوجہد کو مزدور طبقے اور کسان تنظیموں کی تعمیر سے جوڑ دے جو ایک وقت میں موجودہ حکومت کے خاتمے اور اس کی تبدیلی کے لیے بنیادی کردا ادا کرسکتی ہیں اور مزدوروں اور کسانوں کی حکومت قائم کرسکتی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ انقلاب مسلسل کی حکمت عملی ہے۔
ایسی تنظیم کی ترقی بلاشبہ ایک طویل مدتی تناطر ہے۔ فوری طور پرلاکھوں افغانوں کو سفاکانہ سیاسی جبر کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ ہمسایہ ممالک یا یورپ فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بائیں بازو اور مزدوروں کی تحریک کو سرحدوں کو غیر مشروط طور پر کھولنے اور افغانستان کے پڑوسی ممالک میں رہنے والے مہاجرین کے لیے مادی وسائل جمع کرنے کی مہم کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے ہے۔
افغانستان میں ڈرامائی واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم بڑھتی ہوئی سامراجی کشمکش کے عہدمیں رہتے ہیں، ایک ایسا عہد جس میں معاشی مقابلہ تجارتی جنگوں کو جنم دے سکتا ہے، پابندیاں ناکہ بندی بن سکتی ہیں اور علاقائی تنازعات وسیع جنگیں پیدا کر سکتے ہیں۔ بیسویں صدی کے معاشی اور علاقائی تنازعات میں ماحولیاتی تباہی کا تناظر سامنے آیا ہے جو کہ اپنی نوعیت سے عالمی حل کی ضرورت کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے لیے ایک عالمی تنظیم ایک عالمی پارٹی شرط ہے – یہ دنیا بھر کے انقلابیوں کا بنیادی کام ہے کہ وہ ایک نئی پانچویں انٹرنیشنل کی تعمیر کرئیں۔