انقلابی سوشلسٹ موومنٹ

پاکستان کا معاشی،سماجی اور سیاسی بحران اپنے عروج پرہے کورونا وباء نے صورتحال کو مزید ابدتر کردیا ہے اور نظام کی متروکیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ حکومت بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈال رہی ہے اورسرمایہ دار طبقہ کو ہر طرح سے نواز جارہا ہے جس کی وجہ سے سماجی ڈھانچہ شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔معیشت کے حوالے سے حکومت کے تمام تر خوش نما دعوں کے باوجود حقیقت میں مہنگائی،بے روزگاری اور غربت نے عوام کی کمر توڑ دی ہے البتہ بڑے سرمایہ داروں کے منافع میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

پی ڈی ایم اور جمہوری جدوجہد

 حکمران طبقہ کے درمیان تضادات شدت اختیار کرگئے تھے اور یہ پی ڈی ایم کی صورت میں سامنے آئے تھے جس میں حکمران طبقہ کا ایک حصہ کھل کرکہ رہا ہے کہ نظام کو پرانے طریقے سے چلانا ممکن نہیں ہے اور ایک نیا بندوبست کرنا پڑئے گا جس میں عمران خان حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اس کے ساتھ ریاست کے سب اداروں کو آئین کے تحت کام کرنا ہوگا۔

  پاکستان میں فوج نے بارہا سویلین حکومتوں کا خاتمہ کرکے مارشل نافذ کیا ہے اور جب سویلین حکومت بھی ہوتی ہے تو فوج پیچھے سے ان کو کنٹرول کررہے ہوتے ہیں۔ اس لیے لبرل اور لیفٹ کہتا ہے کہ پی ڈی ایم فوج کے خلاف جمہوری آزادیوں کی جدوجہد کررہی ہے اور یہ کم ازکم فوج کی بالادستی تو ختم کرنا چاہتی ہے اور اگر یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے تو جمہوریت بحال ہوجائے گی۔اس لیے لبرلز میں تو سب ہی اس کی حمایت کررہے ہیں لیکن لیفٹ کے حلقوں میں بھی پی ڈی ایم کی طرف خوش فہمیاں ہیں اور یہ اب بھی برقرار ہیں

یہ اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ فوج سرمایہ کے مفاد میں ہی عمل کرتی ہے اور جمہوری آزادیوں کی لڑائی کسی طور حکمران طبقہ کے کسی حصہ کے مفاد میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ جمہوری آزادیوں کی لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

 پی ڈی ایم میں شروع سے ہی تقسیم موجود ہے اور اب یہ کھل کرسامنے آگی ہے۔ پی پی پی واضح طور پر کسی ایسی تحریک کے لیے تیار نہیں ہے جس میں اسے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا سامنا ہو یعنی وہ کسی صورت میں سندھ حکومت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ یہ بھی سمجھتے اگر وہ حکومت چھوڑ بھی دئیں تو ان کے لیے مستقبل اس سے مختلف نہیں ہوگا اور پچھلے چھ ماہ میں یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ پی پی پی وہ کردار ادا کرنے سے بھی قاصر ہے جو اس نے ایوب اور ضیاء آمریت کے ادا کیا تھا۔

 نواز لیگ جو بظاہر فوج کی بالادستی کے خلاف اور اداروں کے آئین کے مطابق کام کرنے کی بات کرتی ہے۔ اس کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ اس نے ہر موقع پر فوج کے ساتھ اپنے معاملات طے کیئے ہیں۔یہ پنجاب کے سرمایہ داروں کی نمائندہ جماعت ہے اس کا فوج سے تضاد کسی طور پر ناقابل مصالحت نہیں ہے بلکہ یہ فوج اور دیگر ریاستی ادارے ہی ہیں جو سی پیک اور دیگر معاملات میں ان کے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ فوج آئینی کردار ادا کرئے یعنی مکمل طور پر سرمایہ دارانہ حکومت کے تابع کام کرئے لیکن اس کے ساتھ سرمایہ دار طبقہ کی نااہلی کی وجہ سے اس کا ریاستی اداروں اور خاص طور پر فوج پر انحصار بہت زیادہ ہے۔ اس وجہ سے فوج کا کردار بالادست ہے لیکن یہ کردار سرمایہ کے مفادات کے تحت ہوتا ہے نہ کہ اس سے آزادانہ جیسا کہ لبرلز اور لیفٹ میں اکثرسمجھتے ہیں۔

ان حالات میں پی ڈی ایم میں اس وقت تقسیم سمجھ میں آتی ہے کیونکہ یہ کسی طور پر جمہوری بالادستی اور نظام کی تبدیلی کی لڑائی نہیں لڑرہے بلکہ اسی نظام میں سے ہی حصہ چاہتے ہیں اور اگر کسی حصہ کو امید دلائی جارہی ہے تو اسے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہی اس وقت پیپلزپارٹی کررہی ہے اور سینٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا اظہار ہے۔

 لبرل اور لیفٹ کے دانشوروں کی تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم محنت کش عوام میں موجود بے چینی کے ساتھ جڑ نہیں سکی اور نہ ہی ان کو سڑکوں پر موبلائز کرسکی بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ وہ ان محنت کشوں کی تحریکوں سے بھی نہیں جڑپارہی جو مسلسل حکومتی پالیسیوں اور حملوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں۔

سرمایہ کا پھیلاؤ اور آمریت

افغانستان میں امریکہ کی بدلتی ہوئی حکمت عملی ہو،انڈیا سے تعلقات ہوں یا سی پیک ہو اس میں فوج کا اہم کردار ہے۔

 اور اب جس طرح سے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو لاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔یہ سب فوج کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ صورتحال فوج کے کردار کو بالادست کرتی ہے اسی میں عالمی و قومی سرمایہ کے مفاد میں ہے کیونکہ فوج ہی ہے جو سرمایہ کے پھیلاؤ کے راستے میں موجود ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس سے یہ واضح ہے کہ لبرلز اور لیفٹ میں جو یہ تصور ہے کہ سرمایہ داری کے پروان چڑھنے سے جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے اور سرمایہ کا پھیلاؤ مزید جمہوریت یا جمہوری آزادیاں نہیں لارہا بلکہ یہ استبدایت میں اضافہ کررہا ہے تاکہ اس کے مفاد کے خلاف ہر آواز کو کچلا جاسکے۔میڈیا میں سخت سنسر ہے اور ریاست کے آمرانہ کردار پر بات چیت کی اجازات نہیں ہے چند ایک جو تنقیدی آوازیں ہیں ان کو خاموش کردیاگیا ہے۔ اس کا بدترین اظہار اطراف کے علاقوں میں ہورہا ہے جہاں شدید جبر مسلط ہے۔

حکمران طبقہ کا محنت کشوں پر حملہ

 حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے مابین گذشتہ ماہ جو معاہدہ طے پایا تھا،اس کی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے سٹاف کی سطح کے معاہدے کی توثیق کردی ہے۔ بورڈ کی منظوری سے 50کروڑ ڈالر قرض کی تیسری قسط جاری کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔  6 ارب ڈالر میں سے آئی ایم ایف پہلے ہی دو قسطوں میں 1.45 ارب ڈالر دے چکا ہے۔اس معاہدے کے تحت بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ، 140 ارب روپے کے ٹیکس لگانے اور اسٹیٹ بینک کو مکمل خودمختاری دینے پر اتفاق کرنا بھی شامل تھا۔یہ ٹیکس بھی ابھی ابتداء ہیں جبکہ اگلے بجٹ میں مزید کٹویتوں اور700ارب سے زائد بھاری ٹیکس لگانے پر اتفاق ہوا ہے بجلی کی قیمتوں میں 36فیصد تک اضافہ کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے حکمران طبقہ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں اور غریب عوام پر ڈال رہا ہے۔

ترقیاتی بجٹ،عوامی سبسڈیز اور سہولیات میں مزید بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی جائیں گئیں اور بالواسطہ ٹیکسوں میں ہوشربا اضافہ ہوجائے گا یہ سب یہاں ہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ بڑے پیمانے پرمحنت کشوں پر حملے کیئے جارہے ہیں اور نجکاری اور ڈاؤن سازی کے فیصلے قومی معیشت کی بحالی کے نام پرکیئے جارہے ہیں جن میں اسٹیل مل،ریلوے،یوٹیلیٹی سٹور،پی آئی ایااور ہسپتال اور تعلیمی ادارے شامل ہیں اس کے علاوہ کورونا وباء کا بہانہ بنا کر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشنوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ قومی معیشت کے نام پر جبری رٹیائرمنٹ کے احکامات اور پنشنوں کو بوجھ قرار دے کرختم کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جبکہ بیروزگاری میں اضافہ کے باوجود سرکاری محکموں میں موجود لاکھوں نوکریوں کو ختم کردیا گیا ہے یعنی حکومت یہ واضح کررہی ہے کہ وہ کسی طورپر عوامی بہبود کے کسی منصوبہ پر خرچ نہیں کرئے گی اور محنت کشوں کی نوکریوں اور ان کی مراعات کو ختم کرئے گئی کیونکہ یہ بڑے سرمایہ کے منافع پر بوجھ ہیں۔

جمہوری آزادیوں کی جدوجہد

پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری آزادیوں کا سوال ہمیشہ اہم رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سماج میں وہ کونسی قوتیں ہیں جن کامفاد جمہوریت اور جمہوری آزادیوں میں ہے۔

موجود صورتحال میں پی ٹی ایم جمہوری آزادیوں کے لیے زبردست تحریک کے طور پر موجودہے اور یہ تمام اپنے تر مسائل اور ریاستی جبر کے باوجود خود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اسی طرح بلوچ سماج جہاں فوج آپریشن اور انتہائی جبر سے ریاست نے سیاسی اظہار کو کچل کررکھ دیا تھا وہاں اب طلباء اور سماج کی دیگر پرتیں اپنے مسائل اورجبر کے خلاف سیاسی طور پر بار بار جدوجہد میں آرہے ہیں اور حکومت کو پیچھے ہٹنے پر بھی مجبور کررہے ہیں۔سندھ میں بھی ترقی کے نام پر جس طرح مقامی آبادی سے سلوک کیا جارہا ہے اس سے وہاں قومی تحریک ایک بار پھر منظم ہورہی ہے جس کو ریاست کی طرف سے جبر اور جبری گمشدگی کا سامنا ہے جس کے خلاف سندھی مسنگ پرسنز اور دوسرے مسائل پر جدوجہد مسلسل سامنے آرہی ہے۔اسی طرح گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی ریاست مسائل کو وہاں کے لوگ کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی بجائے اپنا حل مسلط کررہی ہے جس کے خلاف وہاں بھی ایک مزاحمت ابھر رہی ہے۔انہی تحریکوں کا مفاد اور صلاحیت ہے کہ یہ پاکستان میں جمہوری آزادیوں کی لڑائی لڑسکتی ہیں۔

محنت کش طبقہ

 محنت کش طبقہ میں ایک تحرک موجود ہے اور وہ اپنی نوکریوں،تنخواہوں میں اضافہ،مستقل ملازمتوں اور نجکاری کے خلاف مسلسل جدوجہد میں آرہے ہیں۔پاکستان میں پچھلے ایک سال میں مزدور جدوجہداور احتجاج میں بڑااضافہ ہوا ہے۔اب بھی لاہور اور دیگر شہروں میں محنت کش احتجاج اور دھرنے دئیے بیٹھے ہیں۔ان تحریکوں کو عمومی طور پر کامیابیاں ہی مل رہیں ہیں جس کی وجہ سے محنت کشوں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔محنت کش تنظیموں کے اتحادبھی بن رہے ہیں جو خوش آئندہ ہیں لیکن یہ صورتحال باربار سیاسی سوال کو بھی سامنے لارہے ہیں یعنی محنت کشوں کے سیاسی اظہار کو جو نظریاتی اور تنظیمی طور پر مکمل طور پر آزاد ہو۔

نظام کے بحران اور حکمران طبقہ کی پالیسیوں کے خلاف سماج میں ایک نفرت موجود ہے اور محنت کش طبقہ،مظلوم اقوام،طلباء اور عورتوں کی جدوجہد واضح کررہی ہے کہ حکومت کا مقابلہ کیا جاسکتاہے اور اسے پیچھے ہٹنے اور اپنے مطالبات ماننے پر مجبور بھی کیا جاسکتاہے۔سماجی بربادی اور اس پر آئی ایم ایف کی تباہ کن پالیسیوں کے نتیجہ میں ایک بڑا وبال یا بے چینی جنم لے سکتی ہے۔ایسے میں پی ڈی ایم ایک دفعہ پھر متبادل کی صورت میں خود کو سامنے لانے کی کوشش کرسکتا ہے اور لیفٹ میں سے بھی کچھ اسے جمہوریت کی لڑائی سمجھتے ہوئے پی ڈی ایم کے پیچھے کھڑے ہوسکتے ہیں جیسا کہ پچھلے عرصے میں ان کی سیاست سے واضح ہے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے واضح کیا ہے کس طرح سرمایہ کا مفاد اس وقت جمہوریت سے زیادہ آمرانہ طرز حکومت میں ہے تو جمہوریت کی لڑائی بھی محنت کش،مظلوم اقوام،طلباء اور عورتیں ہی لڑسکتی ہیں کہ ان کا مفاد ہی آمرانہ طرز حکومت سے ٹکراؤ میں آتا ہے۔اس کے لیے محنت کشوں کی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جو ان تحریکوں کو اس نظام کے خلاف جدوجہد میں بدل دئے۔