سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

پاکستان میں صحت کا نظام جو پہلے ہی انتہائی ناقص تھا  پچھلے سالوں میں نیولبرل پالیسیوں کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہے۔ دیہی علاقوں میں تو صحت کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان حالات میں 1994 میں دیہی علاقوں اور شہروں کی کچی آبادیوں میں بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے لیڈی ہیلتھ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ ابتداء میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد30000 تھی جو اس وقت بڑھ کر ایک لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کو نوکری سے پہلے چھ ماہ تک ٹرینگ کرنی ہوتی ہے تاکہ وہ گھر کی سطح پر خدمات پہنچا سکیں۔ ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کم ازکم ایک ہزار افراد پر مشتمل آبادی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ دیہی اور کچی آبادیوں میں انتہائی بنیادی صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے دوران ان کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انتہائی کم تنخواہ کے باوجود طویل گھنٹوں تک کام کرنا پڑتا ہے۔ان سے حکومت مختلف کام لیتی ہے مگر ان کو کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ کام کے دوران ان کو جنسی طور پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان کو زچگی کی بھی چھٹیاں نہیں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد لیڈی ہیلتھ ورکرزکو پولیو و دیگر خدمات کے دوران تشدد کا سامنا بھی رہا ہے۔ کچھ لیڈی ہیلتھ ورکرز ان خدمات کے دوران قتل بھی ہوئی ہیں۔

ان مسائل کے خلاف لیڈی ہیلتھ ورکرز نے 2009 میں آل پاکستان لیڈی ہیلتھ ورکرزایسوسی ایشن کو تشکیل دیا اور انہوں نے مستقل ملازمت اور دیگر مطالبات کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔اس جدوجہد کا ایک نکتہ عروج 2010 میں پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے احتجاج تھا۔ اس کے بعدملک گیر سطح پر لیڈی ہیلتھ ورکرز نے احتجاج کا آغاز کیا۔اس میں کراچی کے پریس کلب کے سامنے ان کا احتجاج بھی شامل ہے جس پر پولیس نے شدید تشدد کیا تھا جس کے نتیجہ میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کا بچہ ضائع ہوگیا تھا۔ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے احتجاج پر مال روڈ کے تاجروں نے انتظامیہ کی سربراہی میں حملہ کردیا تھا۔اس سب کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور حکمران طبقہ کے اندر موجود تقسیم کی وجہ سے ان کے مطالبات کو حکومت نے کسی طور تسلیم کرلیا اوران کی ملازمت مستقل ہوگی۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جدوجہد کی شاندار تاریخ ہے اور صحت کے نظام کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی خدمات نہایت اہم ہیں۔ وہ ہر مشکل میں اپنے لوگوں کی مدد کے لیے متحرک رہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کی نہ تو اپ گریڈیشن ہوتی ہے اور سروس سٹرکچربھی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ان کو مہنیوں تنخواہیں بھی نہیں ملتیں ہیں جب کہ 25 سال یا اس سے زیادہ کی سروس کے باوجود ان کو پینشن کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔

کوویڈ19کے دوران خدمات کے باوجود جب لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو انہوں نے اکتوبر 2020 میں سروس سٹرکچر،پینشن،سروس کے دوران مر جانے والے ورکر کے بچوں کی نوکری اور تنخواہوں میں اضافہ کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا جہاں حکومت سے مذاکرات کے بعد اس کو ختم کیا گیا کہ وہ صوبائی حکومتوں کو اس سلسلہ میں نوٹفیکیشن جاری کرے گی۔ لیکن ایک طویل انتظار اور کوشش کے باوجود جب لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ معاہدے کے مطابق کسی مطالبہ پر عمل نہیں کیا گیا تو انہوں نے حال میں لاہور میں سول سیکٹریریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے انتہائی برے حالات کے باوجود پچھلے 8 دنوں سے دھرنا دیا ہواہے۔اس دوران ان کے صوبائی حکومت سے مذاکرات بھی ہوئے اور حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ دھرنا ختم کردیں کیونکہ کل نوٹفیکشن جاری کردیا جائے۔

اگلے دن حکومت معاہدہ سے مکر گئی اور کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز انہیں بلیک میل کررہی ہیں تو لیڈی ہیلتھ ورکرز نے دوبارہ دھرنا دے کر سڑک بلاک کردی۔اب ان کو مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں اور بڑی تعداد میں پولیس کو تعینات کرکے ان کو خوفزدہ کیا جارہا ہے لیکن اس سب کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز ڈٹ کر صورتحال کا مقابلہ کررہی ہیں اور انہوں نے اضلاع میں کام کو روک دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔

حکومت جو پہلے ہی آئی ایم ایف کے دباؤ پر پینشن کو ختم کرنے چاہتی ہے وہ کسی صورت میں ان کو پینشن دینے کے لیے تیار نہیں۔ حسبِ معمول ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے کہ خزانہ خالی ہے اور قومی معیشت کمزور ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ خزانہ خالی ہونے کے تمام تر اعلانات کے باوجود بڑے سرمایہ داروں کو ہر طرح کی مراعات دی جارہی ہیں اور اب تک مختلف مدوں میں ان کو ہزروں ارب روپے دیئے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آئے روز حکمران اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔یہ سب اس حکومت اور نظام کی ترجیحات کو ظاہر کررہا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں کن کے مفاد میں ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تاریخی جدوجہد بھی ظاہر کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے مطالبات تب ہی منوائے ہیں جب انہوں نے ایک جفاکش جدوجہد کے ذریعے حکومت کو مجبور کیا ہے۔

اس وقت حکومت کی مکمل کوشش ہے کہ ورکرز کی مختلف تحریکوں کو تقسیم رکھ کر ان کو قابو کیا جاسکے۔ مختلف محکموں کے ورکرز نجکاری کے خلاف،تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مطالبات کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ ورکرز لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے میں بھی آئے اور مل کر احتجاج بھی کیا۔ یہ ایک اہم قدم ہے لیکن اب ان کو اس اظہار یکجہتی اور علیحدہ احتجاج اور سڑکوں پر دھرنوں کے ساتھ ساتھ کام کی جگہ پراحتجاج اور جمہوری کمیٹیوں کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ سب ورکرز کی جمہوری رائے سے جدوجہد کو آگے بڑھایا جاسکے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تحریک سرمایہ دار اپوزیشن سے آزاد رہے کیونکہ اس نام نہاد اپوزیشن کی مکمل کوشش ہوگی کہ وہ ورکرز میں موجود بے چینی اور احتجاج کو اپنے معاملات طے کرنے کے لیے اور اپنے مفادات کے لئے استعمال کرسکیں۔ایک جفاکش جدوجہد کے نتیجہ میں ہی حکومت کے ایجنڈے کو شکست دی جاسکتی ہے لیکن اس ایجنڈے کو حتمی شکست دینے کے  لئے بورژوا اپوزیشن سے بھی آزاد رہنا ہوگا بلکہ اس جدوجہد کو نظام کے خلاف جدوجہد میں بدلنا ہوگا۔ یہ محنت کشوں کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی آزادانہ سیاست کریں۔ اس کے لیے ورکرز کے جدوجہد میں اتحادسے آگے جانا ہوگا اور ایک انقلابی ورکرز پارٹی تشکیل دینی ہوگی جو حقیقی معنوں میں محنت کشوں کے مفادات کا دفاع کر سکے۔