تحریر:منروی طاہر

دنیا بھر میں کورونا وبا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بحران کی سب سے بڑی قیمت خواتین نے ادا کی ہے، چاہے وہ ہیلتھ ورکرز کی صورت میں ہو یا گھر پر بڑھنے والے بوجھ کو اٹھانے کی صورت میں ہو۔

سرمایہ داری نظام میں خواتین محنت کشوں کی ایک ریزرو فوج ہوتی ہے جس کو بوقتِ ضرورت نوکری پر رکھ لیا جاتا ہے اور اسی طرح بوقتِ ضرورت نوکری سے فارغ بھی کر دیا ہے۔ مثلاً سرمایہ دارانہ جنگوں میں مردوں کی ہلاکتوں کے نتیجہ میں انہیں نوکریوں پر رکھ لیا جاتا اور کورونا وبا و دیگر بحرانوں کی صورت میں معاشی بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈالنے کے لئے انہیں کثیر تعداد میں برطرف کر دیا جاتا ہے۔ کووڈ 19 کے نتیجہ میں جنم لینے والی کساد بازاری (recession) پچھلی کساد بازاریوں سے مختلف ہے کیونکہ موجودہ صورتِ حال میں عالمی سطح پر خواتین نے مردوں کی نسبت 1.8 گنا زیادہ نوکریاں کھوئی ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں نجی خاندان پر بڑھنے والا بوجھ ہے۔

پاکستان کی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف پنجاب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ مارچ سے مئی تک کے مہینوں میں 3217 کیسز ریجسٹر کئے گئے۔ اکتوبر کے مہینہ میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا اسلام آباد میں دھرنا نظام کی شکستہ حالی کی بہت واضح دلیل تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں دھرنے میں شرکت کرنے والی ان خواتین کو ریاست نے بیت الخلاء تک کی سہولت سے محروم رکھاتھا۔

دوسری جانب سندھ و بلوچستان جیسے اطراف کے علاقوں میں خواتین کو اپنے گھروں کے مردوں کی جبری گمشدگیوں کے اثرات بھگتنا پڑتے ہیں۔ اس ریاستی جبر کے نتیجہ میں یہ خواتین ایک عام مزدور کی زندگی سے بھی محروم ہو جاتی ہیں کیونکہ گھر کا چولہا اور گھر کی دیکھ بھال دونوں کا بوجھ اب وہ اکیلی اٹھاتی ہیں اور باقی بچنے والا وقت پریس کلبوں اور سڑکوں پر اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے ریلیاں نکالتے گزارتی ہیں۔ اکثر دور دراز کے علاقوں سے یہ خواتین شہری مراکز کا رخ کرتی ہیں کہ شاید وہاں احتجاج کے دوران حکمران ان کی آواز سن لیں اور ان کے پیارے رہا کر دیئے جائیں۔ ہم نے ایسے احتجاجوں میں کئی بار لاپتہ افراد کی ماؤں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو سسکیاں لیتے اور حتیٰ کہ بےہوش ہوتے بھی دیکھا ہے۔

اسی ضمن میں بانک کریمہ بلوچ جیسی نڈر خاتون کا قتل بھی اسی ریاستی جبر و سامراجی پالیسی کا تسلسل ہے جس کا بوجھ مظلوم اقوام کی خواتین اپنے کاندھوں پر اٹھائے دہائیوں سے چلی آ رہی ہیں۔ مقامی و سامراجی سرمایہ داروں کی جیبیں گرم کرنے کے لئے آئے روز اطراف کی زمینوں پر نت نئے ڈیویلپمنٹ پراجکٹ متعارف کرائے جاتے ہیں اور اسی حساب سے اطراف کے باسیوں کو جبری گمشدگیوں و دیگر ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح خواجہ سرا افراد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے لئے عام طور پر سماج کا رویہ تضحیک آمیز ہوتا ہے اور ان کے لئے عام نوکریوں میں مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ ایسے میں خواجہ سرا صرف تین پیشوں کا انتخاب کر سکتے ہیں: ذاتی محفلوں میں رقص کرنا، سیکس ورک یا بھیک مانگنا۔ ان تمام پیشوں میں انہیں بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رقص کی محفلوں میں اور سیکس ورک کے دوران اکثر انہیں قتل بھی کیا گیا ہے۔ ہمیں 23 سالہ علیشہ کی موت کا دردناک واقعہ آج بھی یاد ہے کہ کیسے اسے سات گولیاں ماری گئیں اور جب اسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں لایا گیا تو اس کی جان صرف اس وجہ سے چلی گئی کہ عملہ یہ فیصلہ نہ کر پایا کہ خواجہ سرا کو مردوں کے وارڈ میں داخل کیا جائے یا خواتین کے وارڈ میں۔ علیشہ کو اسپتال لانے والی خواجہ سراوں کے ساتھ بھی اسپتال میں ناروا سلوک روا رکھا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ علیشہ کو ایڈز ہے اور یہ کہ وہ ان کی محفل میں آ کر رقص کریں۔

کورونا وبا کے اثرات مرتب ہونے سے پہلے ہی خواتین کے لئے دنیا کے سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ایک اندازہ کے مطابق پاکستان میں ہر سال کم از کم 1000 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین و دیگر صنفی اقلیتوں پر ہونے والے جبر کی جڑیں طبقاتی نظام اور اس کے بورژوا خاندان کے ادارے میں پیوست ہیں۔ عورت اور مرد کے لئے صنف کی بنا پر مختص کی گئی ذمہ داریاں اس فرسودہ نظام کی بقا کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ موجودہ طبقاتی نظام میں مرد کی ذمہ داری پیداواری شعبہ سے منسلک ہے، یعنی وہ گھر سے باہر جا کر سماجی پیداوار کا حصہ بنے، جبکہ عورت کی ذمہ داری تولیدی شعبہ سے منسلک ہے جہاں وہ خاندان کی نجی حدود میں بچوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانا، برتن و کپڑے دھونا وغیرہ جیسے کاموں کے لئے انفرادی طور پر ذمہ دار ہوتی ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی مرد و عورت کی اس طے شدہ تشریح پر پورا نہ اترے اسے سماج میں تمسخر، تضحیک اور دھتکار کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسا کہ ہم خواجہ سراوں کے معاملہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں اور صنفی اقلیتوں کو اس جبر سے نجات دلانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ جب تک صنفی تقسیمِ محنت برقرار رہے گی، تب تک عورت و صنفی اقلیتوں کے ساتھ نفرت انگیز سلوک بھی جاری رہے گا کیونکہ یہ نفرت انگیز شعور اپنے طور پر وجود نہیں رکھتا ہے، یہ براہِ راست اس جبری صنفی تقسیمِ محنت کے ساتھ جڑا ہے اور اس تقسیم کو جواز بخشنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً، عورت کی کردار کشی ایک نہایت غلیظ شعور کی علامت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک علامت ہی ہے اور علامت کو مٹانے کے لئے بیماری کی جڑ کو مٹانا لازمی ہوتا ہے۔

ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین کو گھریلو کام کی غلامی سے آزادی کے لئے مفت عوامی کچن و کینٹین، عوامی لانڈریاں اور عوامی دار الاطفال یعنی کنڈر گارٹن کھولے جائیں، جن کو امیروں پر ٹیکس لگا کر فنڈ کیا جائے اور جن کو چلانے کا اختیار و ذمہ داری محنت کش خواتین و صنفی اقلیتوں کے ہاتھ میں ہو۔

یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان مطالبات کو منوانے کے لئے محنت کش خواتین و خواجہ سرا افراد کو اپنے محلوں میں کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں جن میں وہ اپنے ان مطالبات کے گرد جدوجہد کے متعلق بحث کریں اور خود کو منظم کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مڈل کلاس قیادتوں کے یہ مسائل اس طرح سے ہیں ہی نہیں جس طرح محنت کش عورتوں کے ہیں کیونکہ ان نجی گھر کے کاموں کے لئے مڈل کلاس خواتین باآسانی ملازم رکھ لیتی ہیں۔ یہ محنت کش خواتین ہوتی ہیں جن کے بچے گھر پر اکیلے اور غیر محفوظ ہوتے ہیں جب وہ کام کرنے گھر سے باہر جاتی ہیں۔ اسی طرح محنت کش خواتین اور صنفی اقلیتوں کو اپنے جدوجہد کے حقیقی ساتھیوں کو پہچاننا ہوگا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو لاہور کی ایک فیکٹری مزدور کو جبر کا نشانہ بناتا ہے اور یہی وہ جبر ہے جو شبیر بلوچ کی اہلیہ اور بہن کو اس کی رہائی کے سلسلہ میں سالوں سے در در کی ٹھوکریں کھلا رہا ہے۔محنت کشوں کا دشمن ایک ہے اور وہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ دیگر محنت کش ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کر تقسیم در تقسیم رہیں۔ شہری مراکز کی محنت کش خواتین کو اطراف کی محنت کش خواتین کے مسائل کے گرد جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا تاکہ ایک مشترکہ جدوجہد کے ذریعہ محنت کش مرد، خواتین و صنفی اقلیتیں اس نظام کو شکست دے کر ایک منصفانہ سوشلسٹ نظام کا قیام کر سکیں۔ اس کے علاوہ ہمیں مزدور تحریک میں موجود عورت کی تضحیک جیسے شعور کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔ یہاں ایک اہم اقدام خواتین و صنفی اقلیتوں کا علیحدہ میٹنگ کرنے کے حق کی فراہمی ہے جہاں وہ اپنے مسائل پر آزادانہ بحث کر سکیں۔

اپنے جسم کے فیصلوں پر اختیار

ہم یہاں یہ وضاحت بھی کرنا چاہتے ہیں کہ صنفی جبر کے شکار ہر شخص کے جسمانی خود مختاری کے حق کا ہم دفاع کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو آئے روز ہندو اور مسیحی بچیوں کے جبراً مذہب تبدیل کرائے جاتے ہیں، جو آئے روز تعلیمی اداروں، کام کی جگہوں، سڑکوں اور حتیٰ کہ خاندانوں میں عورتوں اور بچوں بچیوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے، جو آئے روز غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، جو آئے روز خواجہ سراوں کے ساتھ نفرت انگیز تشدد ہوتا ہے، جو ہر احتجاجی صورتِ حال میں ریاست کی جانب سے نہتی محنت کش خواتین پر جبر ہوتا ہے، جو آئے روز حمل کا جنس معلوم ہونے پر جبری اسقاطِ حمل ہوتا ہے، اور جو کم و بیش ہر شادی میں شوہر کی لذت کو پورا کرنے کے لئے عورت کی مرضی کے خلاف جنسی جبر ہوتا ہے، اس جیسے تمام تر جبر کے خلاف ہم “میرا جسم، میری مرضی” کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان جیسے پسماندہ معاشرہ میں عورت کی رضا کی کوئی اہمیت نہیں، اور یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو بائیں بازو کی جانب سے بھی زیادہ توجہ حاصل نہیں ہوئی ہے۔ عورت کا محبت کی شادی کرنا بھی اس سماج میں جرم سمجھا جاتا ہے اور بہت سے پسماندہ خاندانوں میں اس جرم کی پاداش میں انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ یوں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ عورت کا جسم اس کے خاندان کی مرضی ہے اور یہ خاندان طے کرے گا کہ وہ کس کے ساتھ شادی کرے گی۔ ہم اس رجعتی سوچ کو رد کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مرد، عورت اور ہر صنف کو محبت کرنے کا برابر حق میسر ہونا چاہئے۔ اسی طرح ہر کسی بھی عورت کو چھونے کا حق کسی مرد کو نہیں ہونا چاہئے جب تک کہ اسے عورت کی اجازت حاصل نہ ہو، خواہ وہ عورت اس کی اہلیہ ہی کیوں نہ ہو۔

جو لوگ جسمانی خود مختاری کے حق کو رد کر رہے ہیں، وہ خود کو کچھ بھی کہتے رہیں یہ لازم ہے کہ وہ سوشلسٹ نہیں۔ کچھ لوگ اس نعرہ کو انفرادیت پسند کہہ کر رد کر رہے ہیں۔ ہمارے مطالعہ کے مطابق انفرادی آزادیوں کو یوں رد کرنا اسٹالنزم کا شیوہ رہا ہے اور اس کا انقلابی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بائیں بازو اور محنت کشوں کی تنظیمیں اس بنیادی مطالبہ کو محنت کشوں میں مقبول کرانے کے حوالہ سے سوچ وچار کی طرف آئیں گی۔