تحریر:مارٹین
ایران میں موجودہ تحریک کی گہرائی کو صرف اسی صورت میں بہترطورپر سمجھا جا سکتا ہے اگرہم حالیہ برسوں کی سماجی اور اقتصادی پیش رفت اور حکومت کے سرمایہ داری سے تعلق کو مکمل طور پر سمجھیں۔
جمود
برسوں سے ایرانی معیشت اور سماج گہرے معاشی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ جی ڈی پی میں تسلسل کی بجائے بڑا اتاروچڑھاؤ جاری رہتا ہے۔یہ 2012 میں منفی3.75فیصد اور 2013 میں منفی 1.53کی گرواٹ کے بعد 2014 میں 4.99 فیصد رہی تھی۔ تاہم اگلے سال 2015 میں، GDP پھر سے سکڑ گیا اور یہ منفی1.43رہی تھی۔ 2016 میں اس میں 8.82 فیصد اضافہ ہوا لیکن 2017 میں ترقی دوبارہ کم ہو کر 2.76 فیصد رہ گئی۔ اس کے بعدایک بار پھر کساد بازاری نے معیشت کو اپنی جکڑ میں لیا اور 2018 میں یہ منفی1.84 اور 2019 میں منفی3.7 رہی تھی۔ 2020 اور 2021 میں جی ڈی پی میں دوبارہ اضافہ بالترتیب 3.3فیصد اور4.72فیصد رہا تھا۔
معیشت میں یہ اتارچڑھاؤ واضح کرتاہے کہ ملک میں سرمایہ دارانہ ترقی کس قدرکمزور ہو چکی ہے اور کئی سالوں پر مشتمل ایک ”عام” معاشی سرکل بھی ابھر کر سامنے نہیں آسکا ہے۔ درحقیقت ملکی معیشت تقریباً ایک دہائی سے جمود کا شکار ہے۔خاص طور پر اگر ہم جی ڈی پی کا جائزہ آبادی کے حوالے سے لیں جو 2012 میں 76.04 ملین افراد سے بڑھ کر 2021 میں 84.98 ملین ہو گئی۔
سماجی صورتحال
اجرت پر کام کی صورتحال میں خاصی ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ 2012 سے اوسط فی کس آمدنی تقریباً 8,000 امریکی ڈالر سے کم ہو کر2020میں صرف 2,000 ڈالر پر آ گئی تھی۔ قوت خرید کے میں شدید گراوٹ اور عوام کی آمدنیوں اور اثاثوں کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ مستقل طور پر بلند افراط زر کی شرح جو 10سے 20 فیصد سالانہ ہے، کرنسی کی شرح مبادلہ میں کمی، بے تحاشہ بے روزگاری ہیں اورغیر یقینی اور کم روزگارہے۔ بے روزگاری کی شرح آج سرکاری طور پر 11.13فیصد ہے اور یہ خواتین، نوجوانوں، یونیورسٹی کی ڈگریوں والے افراد اور قومی اقلیتوں کے لیے اوسط سے تقریباً دوگنا ہے۔
لیکن پچھلے دس سال ملازمت کرنے والے محنت کشوں کے لیے ایک سماجی آفت ہی رہے ہیں۔ مسرت کے مطابق حقیقی کم از کم اجرت 2010 میں 400 امریکی ڈالرماہانہ سے کم ہو کر 2018 میں 100-130 ڈالررہ گئی – محنت کشوں کی جفاکش تحریکوں کی وجہ سے قلیل مدتی اجرت میں اضافہ ہوا تھالیکن افراط زر کی وجہ سے اس میں تیزی سے کمی ہوگئی ہے۔یہ 2021 میں 40 فیصد سے زیادہ تھی اور اس وقت 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ مزید برآں کوویڈ19کے دوران عمومی صورت حال بگڑ گئی تھی۔ آج تقریباً نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔یہ سب کچھ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ تحریک کیوں اتنی جلدی اور بڑے پیمانے پر یونیورسٹیوں اور کام کی جگہوں پرمضبوطی سے پھیلی اورطلباء اور مزدوروں کو متحرک کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
نوجوان اور خواتین
آج ایران میں تقریباً 4.5 ملین طلباء ہیں، جو جرمنی (3 ملین) کے مقابلے میں تقریباً 50% زیادہ ہیں جو ایک نیم نوآبادیاتی ملک کے لیے ایک قابل ذکر تعداد اور شرح ہے۔ تقریباً ہر دوسرا طالب علم ایک عورت ہے۔ یہ ملا حکومت کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ریاستی سرمایہ دارانہ صنعت کاری کو فروغ دینے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے جس کا اظہار خواندگی کی شرح میں اضافے (”جدید” شاہ کے دور حکومت میں 20% کے مقابلے میں 80%) کے ساتھ ساتھ زیادہ ملازمت کرنے کی مجبوری میں بھی ہوتا ہے۔ خواتین کو بطور اجرت مزدور یا پیشہ ورانہ طور پر اہل بناتا ہے۔
اس طرح ایران میں ایک طرف خواتین کی ایک بہت ہی قابل پرت ابھری ہے جو بیک وقت سیاسی اور ثقافتی طور پر حق رائے دہی سے محروم ہے۔اصلاح پسندی کی طرف سے بتدریج کھلے پن اور لرلائزیشن کی ناکامی نے امید کا خاتمہ کردیا ہے کہ اس نظام میں بہتری ممکن ہے۔
آج، یونیورسٹیاں تحریک کے مرکز کی نمائندگی کرتی ہیں اور ہم طالب علموں اور خاص طور پر طالبات کی سماجی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ کیوں نوجوان خواتین اور نوجوان فرنٹ لائن میں لڑنے اور متحرک کرنے میں اتنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ برسوں تک حکومت نے سماجی جبر اور ثقافتی خوف کے بدلے خواتین اور نوجوانوں کو ملازمتوں میں آمدنی اور ترقی کا وعدہ کیا تھا۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ابتدائی صنعتی اور معاشی کامیابیوں کے بعداب یہ سب کچھ ایک افسانہ بن گیاہے۔ پچھلی دہائی کی نو لبرل اصلاحات اور نجکاری، خاص طور پر 2012-13 میں آنے وال زوال کے بعد سے صورتحال کو مزید خراب ہوگی ہے۔ خواتین اور نوجوانوں کو مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
محنت کش طبقہ اب ایرانی معاشرے میں سب سے زیادہ تعداد میں ہے، خاص طور پر اگر ہم ذیلی اور نیم پرولتاریہ طبقے اور دانشوروں کے ان حصوں کو شامل کریں جو پرولتارائزیشن کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ملاسرمایہ دار طبقہ کے مفاد کے لیے محنت کشوں کو کنٹرول کرتے ہیں – ایرانی سرمایہ داری اور اسلام پسند حکومت کا بہت واضح اور قریبی تعلق ہے۔
ریاست اور بورژوازی
1979 میں ایرانی انقلاب کی شکست اور اس کے خلاف ردِ انقلابی کے قبضے کے بعد حکومت نے ریاستی سرمایہ دارانہ صنعت کاری پر اپنی نگاہیں مرکوز کیں جس کی مالی مدد تیل کے کاروبارسے اور تجارتی بورژوازی کے ساتھ اتحاداور سب سے بڑھ کر نام نہاد ”بازاری” (ایک روایتی طور پر مذہبی پر قدامت پسند تہران کے بازار میں تھوک فروشوں کا طبقہ جو شاہ کے عہد میں نقصان کا سامنا کررہے تھے)کے ساتھ مل کرکی تھی۔
یہ تیل اور گیس کی برآمدات کے ساتھ ساتھ مغربی سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل کیا جانا تھا۔ اس پالیسی کو کچھ محدود کامیابی ملی جو محنت کش طبقے کی برھوتری میں جھلکتی ہے۔
تاہم ملاؤں کے دور میں بھی جیسا کہ شاہ کے دور میں تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا زیادہ تر حصہ ایک جامع قومی معیشت اور صنعت کی ترقی میں نہیں لگایا جاتا تھابلکہ زیادہ تر حصہ نوکر شاہی، مذہبی طبقے کی جیبوں میں یا جابرانہ ادارے جن کا حکومت سے گہرا تعلق ہے۔ اس عمل میں کاروباری افراد کا ایک نیا طبقہ ابھراجیسے افسران، اعلیٰ سرکاری ملازمین، سرکردہ ملیشیا کمانڈر اور دیگر اہلکار، جو نجکاری کے حق میں تھے جن کا کاروباری ماڈل بنیادی طور پر ریاستی معاہدوں پر مشتمل تھا، یعنی تیل کی آمدنی کی دوبارہ تقسیم یہ ان کے لیے نئی صنعتی سرمایہ کاری کے مقابلے میں زیادہ منافع بخش اور محفوظ تھا۔
یہ پہلے سے موجود ہول سیل کے سرمایہ داروں کے لیے زیادہ فائدہ مندتھا جن میں سے بہت سے تاریخی طور پر دیہی علاقوں میں بڑی زمینداریوں سے ابھرے تھے۔ بڑے تجارتی سرمایے کا کاروباری ماڈل میں ایک طرف ان پرتوں کے لیے سامان کی درآمد پر مشتمل تھا جو تیل کی آمدنی سے مستفید ہوتے (اور اس طرح ملکی مصنوعات کی جگہ لے لیتے ہیں) اور دوسری طرف رئیل اسٹیٹ اور مالیاتی منڈیوں میں سرمایہ کاری پر مشتمل تھا۔ اس کی وجہ کوئی راز نہیں ہے۔ ان شعبوں میں صنعتی شعبے سے تیز رفتار اور زیادہ منافع ہوتا ہے۔ ایرانی ریاست کی تیل کی آمدنی ان سودوں کے ضامن کے طور پر کام کرتی ہے۔
کیموڈیٹی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا یہ مسئلہ ہے کہ یہ مقامی معیشت کی تعمیر میں غیر محدودود طور پر استعمال نہیں ہوتا ہے یقیناً یہ خاص طور پر ایرانی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ نیم نوآبادیاتی ممالک کا مخصوص مسئلہ ہے جن کی آمدنی کافی حد تک کیموڈیٹی کی فروخت یا زمین کے کرائے سے حاصل ہوتی ہے۔ ایران جیسے ممالک پابندیوں اور سفارتی تنہائی کے باوجود قدرتی طور پر عالمی منڈی پر انحصار کرتے رہتے ہیں۔ یہ اس حقیقت سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی معیشت 2012-13 سے تیل اور گیس کی کم قیمتوں کی وجہ سے مزید مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں جو اس نے اپنے مغربی اتحادیوں پر بھی نافذ کی ہیں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے جسے چین جیسی دیگر ریاستیں پورا نہیں کر سکیں۔
عالمی منڈی اور قومی سرمایہ
تاہم عالمی منڈی پر انحصار بھی قومی سرمائے کی ایک مخصوص سمت کے ساتھ ساتھ چلتا ہے نہ صرف سب سے اہم معاشی اشیاء کا رخ عالمی منڈی کی طرف ہوتا ہے بلکہ اہم ترین سرمایہ دار گروپوں کی سرمایہ کاری کی سمت بھی اس سے طے ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران میں ”قومی” سرمایہ اپنی رقم کو قیاس آرائی پر مبنی لین دین اور سامان کی درآمد اور برآمد میں لگانے کو ترجیح دیتا ہے۔ انفرادی سرمائے ایک سادہ منطق کی پیروی کرتا ہے یعنی جہاں کم سے کم خطرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ منافع کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کیوں ایرانی بورژوازی ایک بار پھر ملک کی ترقی کے لیے آمادہ اور قابل ہے لیکن یہ بنیادی طور پر طفیلی خصوصیات رکھتی ہے۔ یہ ان ”نئے” کاروباریوں کے بارے میں زیادہ سچ ہے جو حکومت سے ابھرے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام پسند حکومت کو جابرانہ قوتوں کی پوری طاقت، فوج، نیم فوجی یونٹوں جیسے پاسداران، سرکاری ملازمین، مذہبی معززین کی حمایت کرنی پڑتی ہے۔یہ سب معاشی طور پر غیر پیداواری سماجی پرتیں ہیں۔
خلیج میں پیٹرو بادشاہتوں کے برعکس ایرانی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ تیل کی آمدنی سے اس کی مکمل حمایت حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ چونکہ نجی بورژوازی نے اپنے سرمائے کو صنعت کی بجائے تجارت اور مالیات میں لگانے کو ترجیح دی اس لیے شاہ اور اسلامی حکومت نے کچھ عرصے کے لیے ریاستی سرمایہ دارانہ صنعت کاری کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ نہ صرف عالمی منڈی (تیل اور اجناس کی قیمتوں) پر انحصار کی وجہ سے ناکام ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تجارتی اور مالیاتی بورژوازی اور ان کے بے شمار نالائقوں کی سب سے پہلے خدمت کرنا پڑتی ہے۔
معاشی جدیدیت حاصل کرنے کے لیے ”باقی” بہت چھوٹا اور غیر محفوظ تھا اس لیے بہت کچھ رہ گیااوردرمیان میں پھنس گیا۔ 2010 کے بعد حکومت کے نو لبرل ٹرن اور مغرب کی پابندیوں نے اس مسئلے کو اور بڑھا دیاہے۔ صنعت اور معیشت کے متعلقہ حصوں کو اسپیئر پارٹس کی کمی، پرانی مشینری، مارکیٹوں کی کمی، صلاحیت کے استعمال میں کمی اور خاص طور پر نئی یا متبادل سرمایہ کاری کے لیے سرمائے کی کمی کا سامنا کرنا پڑاہے۔
محنت کش طبقے کو کسی نہ کسی طرح زوال پذیر کاروبار کو جاری رکھنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ روزانہ اسے یہ تجربہ ہوتا ہے کہ اسلامی سرمایہ داری نہ صرف زوال کا شکار ہے بلکہ اجرت کمانے والوں کو بھی کھائی میں لے جانے کا خطرہ ہے۔ملازمت کرنے والے محنت کشوں کے لیے کام کے حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں اور حادثات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ مہنگائی اور پیداوار بند ہونے کی وجہ سے کم سے کم کماتے ہیں اور دوسرے اپنی اجرت کے لیے مہینوں انتظار کرتے ہیں۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اجرت پر کام کرنے والے حالیہ برسوں میں حکومت سے تیزی سے دور ہو گئے ہیں۔خاص طور پراسٹرٹیجک اہمیت رکھنے والے سرکاری ملکیت والے شعبوں سے ہٹ کر جہاں زیادہ اجرت دی جاتی ہے۔۔ انہوں نے 2019 میں حکومت کے خلاف عوامی تحریک میں مرکزی سماجی قوت تشکیل دی اور ملا کی حکومت کے خاتمے کے لیے اقتصادی مطالبات اٹھائے۔
شاہ اور اسلام پسندوں کی آمریت کے تحت ایرانی بورژوازی ملک کو ترقی دینے سے قاصر اور ناپسندیدہ ثابت ہوئی ہے یہ مستقبل میں بھی ملک کو ترقی نہیں دئے سکے گی۔ یہ طویل عرصے سے ایک ترقی پسند قوت کے طور پر اپنا کردار کھو چکی ہے۔ اس لیے یہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ نوجوان، لڑنے والی خواتین، مظلوم قومیتیں بلکہ سب سے بڑھ کر خود محنت کش طبقہ یہ سمجھے کہ آنے والا ایرانی انقلاب ملک کے مسائل صرف اسی صورت میں حل کر سکتا ہے جب وہ سوشلسٹ ہو۔