شہید حمید بلوچ وہ پروانہ جو خود شمع بن گئے

Posted by:

|

On:

|

تحریر: ظریف رند

یہ آرٹیکل پہلے بی ایس او کی ویب سائٹ پر شائع ہواتھا

پروانے کا شمع کو چھو لینے کی دیوانگی میں ہر بار لٹ جانا فنا ہو جانا وہ حسین منظر ہے جسے ہم انسان دیکھ کر ایسی سحر انگیز دلکشی کا لطف بھی اٹھاتے ہیں اور دھنگ بھی رہ جاتے ہیں کہ ایک دیوانہ اپنی منزل کیلئے کیسے فنا ہوجانے کو بیتاب رہتا ہے. انسانوں میں ایسے ہی انقلابی پروانوں کی لاکھوں کروڈوں مثالیں دنیا بھر میں موجود ہیں جو وطن انقلاب اور انسانیت کی دیوانگی میں زندگیاں لٹا دیتے ہیں مگر وہ فنا ہو کر خود شمع میں تبدیل ہو جاتے ہیں. ان عظیم دیوانوں میں ایک نام حمید بلوچ کا ہے.

حمید بلوچ کیچ کے علاقے دشت کنچتی میں پیدا ہوئے. انہوں نے اپنی بنیادی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور بعد ازاں عطاشاد ڈگری کالج تربت میں داخل ہوئے جو پروانوں کا سنگر اور سؤرگ مانا جاتا تھا. حمید بلوچ سکول کے زمانے میں ہی اپنے قومی مدرعملی “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن” کا حصہ بن گئے تھے اور کالج کے زمانے میں وہ بی ایس او کے اہم زمہ داران میں شمار ہو چکے تھے.

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جو کہ سامراج مخالف ایک طبقاتی رجحان رکھنے والی طلبہ تنظیم رہی ہے نے ہمیشہ طلبا کی تربیت ایسی کی ہیکہ وہ اپنی قومی محرومیوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے محکوم اقوام اور محنتکش عوام کی جبر و استحصال کے خلاف سینہ سپر رہیں. انہی افکار و آدرشوں کے سچے پیروکار حمید بلوچ بھی تھے جو پروانوں کی طرح اپنی منزل کی حصول کیلئے ہمیشہ سرگرم عمل رہے.

اسی دوران سلطنت عمان میں سلطان قابوس کی فسطائی ریجیم کے خلاف ایک بغاوت پھوٹی جس کی قیادت مارکسسٹ لیننسٹ تنظیم (الجبھتہ الشعبیہ لتحریر عمان) “پاپولر فرنٹ فار دا لبریشن آف عمان” کر رہی تھی جو بعد میں بدل کر ‘پاپولر فرنٹ فار دا لبریشن آف گلف’ بن گئی. اس تنظیم کا مقصد گلف کو بادشاہت کی دقیانوسی چنگلوں سے آزاد کرانا تھا جوکہ پورے گلف میں پھیلی ہوئی تھی. اس تحریک کو یمن اور مارکسی قوتوں کی خاص سپورٹ حال تھی جبکہ تحریک کو کچلنے کیلئے برطانیہ, ایران, ہندوستان اور پاکستان نے سلطان کی خاص مدد کی.

پاکستان نے سلطنت عمان سے اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے تحریک کو کچلنے کیلئے سلطان کو کرائے کے قاتل کے طور پر نفری بھیجنے کا زمہ اٹھایا اور ان کرائے کے قاتلوں کا چناؤ بلوچستان سے کیا گیا. چونکہ بلوچستان میں پہلے سے ریاست مخالف تحریک موجود تھی اس لئے بیروزگار اور محکوم بلوچستان باسیوں کا انتخاب کرکہ ریاست ایک تیر سے دو شکار کرنے کا منصوبہ تیار کر چکی تھی. اسی منصوبے کے تحت سلطنت عمان کیلئے مکران میں بھرتیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے شدید مخالفت کی. مخالفت کی بنیادی وجہ بلوچ قوم کا خود محکوم ہونا اور دوسرا دیگر محکوم اقوام پر جبر و استحصال اور سامراجی پالیسیوں کی مخالف تھی. اسی فکر کے پیش نظر بی ایس او نے کرائے کے قاتلوں کی بھرتیوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا جس کی سرپرستی حمید بلوچ نے اپنے سر لی. اگست 1979 کو حمید بلوچ نے اپنے ساتھی سمیت بھرتی کیمپ میں جا کر عوام کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ کی اور عوامی ہجوم کو منتشر کر دیا جہاں وہ گرفتار ہوئے اور ان پر قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کر دیا گیا.

قتل کا مقدمہ بلوچستان کے اعلی عدلیہ میں چلا تو پتا چلا کہ جس گمنام شخص کو مقتول بنا کر ایف آئی آر بنایا گیا ہے اسکا کوئی وجود نہیں ہے اس لئے عدالت نے حمید بلوچ کو سزا دینے سے انکار کر دیا. مگر چونکہ ضیاءالحق آمریت کا دور تھا اور ضیاء کی آمرانہ مشن کو ناکام بنانے کی کوشش ہوئی تھی تو حمید بلوچ کا کیس ملٹری کورٹ میں لے جایا گیا جہاں انہیں ایک گمنام قتل کی پاداش میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی.

ملٹری کورٹ کے ناجائز فیصلے پر حمید بلوچ نے کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ اپنی عظیم قربانی پر فخر محسوس کرتے ہوئے مطمئن تھے کہ انہوں نے ظفار میں جاری انقلابیوں کو ایک پیغام پہنچایا تھا کہ بلوچ نوجوان دھن دولت اور ریال کی چمک دمک سے متاثر ہو کر محکوموں کے قاتل نہیں بنیں گے بلکہ طبقاتی انقلابی جڑت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا بھر میں سامراجی قوتوں کے خلاف مشترکہ لڑائ کو ترجیح دیتے ہیں.

حمید بلوچ کا عظیم انقلابی جذبہ بلوچ نوجوانوں کی اْس وقت کی پختہ نظریاتی جہد کی عکاسی کرتی ہے اور بلوچ قوم کی دنیا بھر کے محکوم اقوام کے ساتھ انقلابی جڑت کو ثابت کرتی ہے۔

حمید بلوچ نے اپنی پھانسی کے صرف آٹھ گھنٹے پہلے نوجوانوں کے نام لکھے ہوئے وصیت نامے میں واضح الفاظ میں کہا کہ “مجھے اس بات پر کوئی پشیمانی نہیں اور نہ ہی اس بات کا خیال ہیکہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیئے تھا کیونکہ زندگی بلامقصد اور غلامی میں بسر کی جائے تو وہ لعنت ہے۔ میں نے ایک بڑے دشمن کو شکست دینے کی ٹھانی ہے میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں میرے جدوجہد کے ساتھی، عزیز اور میرے قوم کے بچے میرے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائینگے۔” (10 جون، مچھ جیل ۔پھانسی گھاٹ)

حمید بلوچ نے تسلی بخش انداز میں لکھا کہ میرے قوم کے بچے اس مشن کو پایہ تکمیل تک ضرور پہنچائیں گے اور انکی تین سالہ بیٹی بانڑی اور اس کے بچے اس نعمت سے ضرور برآور ہونگے. آج بھی حمید بلوچ کی جنم بھومی دشت سے جنم لینے والی بیٹی شہید ملکناز بلوچ نے حمیدبلوچ کی روح کو تسکین پہنچاتے ہوئے قربان ہو کر ایک روشن شمع میں تبدیل ہوگئی اور اس وقت کے بانڑی کے عمر کی بچی برمش بلوچ آج جدوجہد و مزاحمت کی استعارہ ہیں.

حمید بلوچ کے عظیم افکار و آدرشوں سے خوفزدہ ہوکر جابر آمر نے انہیں 11 جون 1981 کو مچھ جیل میں پھانسی دے دی. پھانسی کے پھندے کو چوم کر حمید بلوچ نے اپنے گلے کا ہار بنا دیا اور جھوم کر پروانے کی طرح جسمانی طور پر فنا تو ہوگئے مگر وہ خود شمع بن گئے جو آج روشنی پھیلائے امر ہے.

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن حمید بلوچ کو انکی 39ویں یوم شہادت پر سرخ سلام پیش کرتی ہے اور انکی عظیم افکار و آدرشوں پر ثابت قدم رہ کر منزل مقصود تک ڈٹے رہنے کا تجدید عہد کرتی ہے. شہید حمید کی عظیم قربانی ہمارے لیئے مشعل راہ ہے.

Posted by

in