بلوچ جدوجہد، اصلاح پسندی اور ہمارا راستہ

Posted by:

|

On:

|

تحریر۔شہزاد ارشد
چار سالہ معصوم بچی برمش بلوچ کے سامنے اس کی ماں کے سفاکانہ قتل اور خود برمش کے زخمی ہونے سے بلوچ سماج میں موجود غصہ اور نفرت ابل رہی ہے وہاں سیاسی جمود ٹوٹ رہاہے اور بلوچ تمام تر جبرکے باوجود سیاسی طور پر متحرک ہورہے ہیں، خوف ختم ہوگیاہے اور لوگ انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں۔ہرتحریک یہ واضح کرتی ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔اس تحریک میں بھی یہی ہورہاہے تو اس میں سوشلسٹوں کا کردار بہت اہم ہوجاتاہے کہ وہ تحریک کی طرف کیا رویہ اختیار کریں گے۔یہ رویہ ہماری نظریات کی بنیاد پر ہوتاہے، یعنی آیا سرمایہ داری اور ریاست کے متعلق ہماری سمجھ کیا ہے۔ آیا ہم اس نظام اور ریاست کا خاتمہ چاہتے ہیں یا اس میں ہی حل دیکھتے ہیں۔ انہی سوالات سے ہماری قومی سوال پر پوزیشن کا بھی تعین ہوتا ہے۔اس لیے بالادست قوم کے سوشلسٹوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اس تحریک کو پھیلائیں۔
لہٰذا ہمارے ”کامریڈز“ جس طرح ایک اہم نظریاتی سوال کو تنظیمی مسئلہ کے طور پر پیش کررہے ہیں اس سے وہ جہالت کو پھیلارہے ہیں لیکن اس جہالت کا ایک مقصد ہے اور وہ اس نظام میں حصہ ہے۔بلوچ جدوجہد کے ساتھ کھڑے نہ ہونے کی وجہ ان کی اصلاح پسند سیاست ہے جس کی وجہ سے یہ سرمایہ داری اور ریاست کے خلاف جدوجہد کی بجائے وہ اسی نظام میں حل دیکھتے ہیں۔ اسی لیے کبھی یہ سرمایہ داری کے خلاف باقاعدہ جدوجہد نہیں کرتے اور نواز شریف کا ساتھ دیتے ہیں کیونکہ نیولبرل سرمایہ دار بہتر ہے تو کبھی ان کے لیے نواز شریف کی سابقہ حکومت ایک حل تھی جس کے بلوچستان میں فیصلہ کو خوش آئند قرار دیتے اور کہتے تھے کہ اس سے بلوچستان کے مسائل حل ہو جائیں گے اور پشتونوں پر فوجی آپریشن کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کی یہ جہالت بامقصد ہے اور وہ مقصد ہے مجینٹا یعنی ایسی سرمایہ داری جس میں سوشل ویلفیر موجود ہو۔
ایسے میں بلوچ قوم کی جدوجہد کی حمایت کرنا مشکل ہے لیکن پھر کچھ عالمی مجبوریاں بھی ہیں اور مجینٹا کے باوجود پاپولر ہونے کے لیے مزدور اور غریب کی بات اور لال لال لہرانے کی بھی بات کرنی ہے لیکن لال کی بات سرمایہ کے ساتھ وفاداری کے بغیر نہیں ہے۔ ان کے لیے انقلابی پارٹی کی تعمیر جیسے سوال ایک فضول اور بے معنی بات ہیں اور اس سے باہر تحریکوں کو تعمیر کرنا ضروری ہے۔ لیکن بلوچ تحریک ان کے لیے خوفناک ہے جیسے پہلے پشتون تحریک تھی اور ریاست کو بتایا جاتا تھا کہ کیسے بہتر آپریشن کیا جاسکتاہے البتہ پی ٹی ایم کے بن جانے کے بعد اب یہ پشتونوں کے ساتھ ہیں یعنی پاپولسٹ سیاست کرتے ہیں اور ہوا کے دھارے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
اس لیے جب برمش کے ساتھ اظہار یکجہتی کی کال پراحتجاج کا فیصلہ کیا گیا تو ہمیں معلوم تھا کہ زیادہ تعداد نہیں ہوگی۔ صرف یہ امید تھی کہ یہ ایک معصوم بچی کی پکار ہے اور لیفٹ والے انسانیت کے لیے ہی آجائیں گئیں لیکن نظریاتی معاملات(جہالت) بہت گہرے ہوتے ہیں اس لیے سب سے رابطوں کے باوجود بھی کوئی نہیں آیااور اب یہ خوامخواہ کی بکواس ہے کہ معاملات تنظیمی ہیں اور ناکامی وغیرہ۔
پچھلی ایک دہائی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ جب بلوچ قوم نے کوشش کی کہ وہ اپنی علیحدگی کو ختم کریں تو لاہور سے اچھا رسپانس نہیں ملا۔ جب بلوچ قافلہ لاہور پہنچاتو لیفٹ کے بڑے ناموں کا رویہ افسوس ناک تھا۔ زیادہ تر شریک ہی نہیں ہوئے اور جو شریک ہوئے ان کی شرکت بہت ہی واجبی تھی اور اگر آپ اس کمیٹی کو دیکھیں جس نے لانگ مارچ کوخوش آمدید کہا تھا اس میں کوئی بھی”لیفٹ قیادت“ شامل نہیں تھی اس کے باوجود لاہور میں لانگ مارچ مناسب رہا تو اس کی وجہ لیفٹ نہیں تھا بلکہ بلوچ طلباء اور دیگر مظلوم قومیتوں کے طلباء کے ساتھ کچھ پنجابی طلباء کی شرکت تھی۔البتہ اُسی دن ایک مزدور لیڈر کا ایک بڑا جلسہ ہوا اور کچھ دنوں بعد فیض امن میلہ میں لیفٹ کی قیادت کی شرکت دیدنی تھی اور اس پر بھی بلوچ اور کراچی کے کچھ ساتھیوں نے تنقید کی تھی کہ بلوچ قافلہ آئے تو واجبی شرکت اور موج میلے کو سیاست بنا کر”ہم دیکھیں گے“سے لوگوں کو خوش کرلیا جائے۔
اس کے بعد مسلسل ایسے واقعات ہوئے جن پر ہم نے لاہور میں احتجاج کیئے۔ وہ احتجاج بہتر رہے جن میں بلوچ طلباء شریک ہوئے پھر چاہے وہ زاہد بلوچ یا لطیف جوہر کے لیے احتجاج ہو، اجتماعی قبروں کے خلاف یا بلوچ طلباء پر تشدد کے خلاف ہو،ایسے احتجاجات منظم کرنے پر لاہور میں ہمیں اور مسائل کا سامنا تورہتا ہی ہے لیکن لیفٹ کی طرف سے بھی اعتراضات موجود رہتے ہیں۔ جو اکثر اوقات ریاست کے الزامات کی طرح ہی ہوتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ تو چند سردار ہیں یا انڈیا کی مداخلت ہے۔ اور پھر کچھ اتنے معیشت پسند بن جاتے ہیں کہ ان کے مطابق مزدور اور بس سرمایہ داری میں استحصال ہی ہے، اس میں دیگر جبر نہیں ہوتے، اور اگر ہیں بھی تو سوشلزم کے آنے تک انتظار کریں۔لاہور لیفٹ میں ایسے بھی لاتعداد مل جائیں گے جو پہلے تو سرمایہ داری کے خاتمے پر اب یقین ہی نہیں رکھتے لیکن جیسے ہی آپ ان سے بلوچ جدوجہد کی بات کریں تو طبقاتی سوال لے آتے ہیں۔ اور پھر ہمارے پیارے ”کامریڈز“جن کو پہلے ہی لاتعداد خطرات ہیں اور وہ اس لیے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ بعدازاں ان کے ساتھی معافی بھی مانگتے ہیں لیکن رویئے نہیں بدلتے کیونکہ جہالت کی بھی ایک منطق ہے۔
بلوچستان کی تو بات رہنے دیں، جب ہانی بلوچ کراچی سے لاہور آتی ہیں تو مظاہرہ کامیاب ہوجاتا ہے۔لیکن یہاں بھی لیفٹ کی شرکت اور اس مظاہرے کو منظم کرنے کی کوشش بہت کم تھی اور ایک گروپ تو زیادہ اہم”سٹڈی سرکل“ میں مصروف تھا۔
پھر ملتان یونیورسٹی کا ایک طالب علم جبری طور پر اپنے گھر سے اٹھا لیا جاتاہے اگلے دن لاہور میں سٹوڈنٹ سالیڈیرٹی مارچ ہوتاہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کے منتظمین سے بات کریں لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ اس کے باوجود ہم لوگ اس مارچ میں جیئندبلوچ کے لیے پلے کارڈ لے کرآجاتے ہیں اور مارچ کے دوران سے بات ہوتی ہے۔لیکن پھر بھی اس کے سٹیج سے جیئند بلوچ کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوتی۔ بعدازاں بی ایس او کی تقریباً پوری قیادت اٹھا لی جاتی ہے تو تب بھی سب سے مشاورت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اس دفعہ تو کچھ بلوچ طلباء بھی لیفٹ کے لوگوں سے ملتے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اور پھر بی ایس او کے ساتھیوں کے لیے لاہور میں جو مظاہرہ ہوتا ہے اس میں تمام تر خوف کے باوجود بلوچ طلباء ہی شریک ہوتے ہیں۔ یعنی ہمیشہ سب سے اہم کردار ان (بلوچ طلباء) کا ہی تھا اور اس دفعہ جب وہ نہیں تھے لاہور میں تو اظہار یکجہتی محدود ہونا ہی تھا۔
جھوٹ بولنا بھی ایک فن ہے کہ لیفٹ کے گروپ اس احتجاج سے بے خبر تھے۔ پہلے کامریڈ فاروق خود کو لاہور لیفٹ تصور کرلیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ان کوپتہ ہی نہیں تھا۔ پھرجب بتایا جاتا ہے کہ آپ کے ہوم پیج پر اس مظاہرے کی کال شائع ہوئی تھی تو کہتے ہیں جگہ معلوم نہیں تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ سرکار آپ کا متحدہ محاذ (پاپولر فرنٹ جس میں پی پی پی جیسی بورژوا تنظیمیں شامل ہیں اور جو حقیقت میں واٹس ایپ گروپ ہے)، اس میں میسج کیا گیا ہے۔ پھر کہتے ہیں دیکھا نہیں تھا۔ جب بتایا گیا کہ بہت دفعہ میسج ہوا تو فرماتے ہیں ایسے مظاہرہ منظم کرتے ہیں، آپ کو مظاہرہ منظم کرنے کے آداب نہیں آتے۔ بہت سارے بلوچ ساتھیوں نے انہیں بتایا کہ ہمیں بلوچستان میں پتہ تھا اور آپ کو لاہور میں معلوم نہیں تھا۔ ”پیارے کامریڈز“کے لیے تو اس احتجاج کو منظم کرنے کی کال دینے والے ان کے دشمن ہیں جبکہ وہ خود تو اس نظام کے ”رکھوالے“ہیں اس لیے وہ مظاہرے میں نہیں آتے ہیں۔
یہ جہالت بامقصد ہے تو ”پیارے کامریڈز“یہ تنظیمی مسئلہ نہیں ہے یہ نظریاتی معاملہ ہے۔ لیکن جہالت بتائے گی کہ ہم بڑے ہیں، پہلے ہی مناسب انتظام کرلیتے ہیں اور کرتے کچھ ہیں لیکن جب دباؤ پڑتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو مظاہرہ کیاہے ارے اتنی پریشانی کاہے کی ہے۔
ہمارے لیے اس کا مطلب ہے کہ ہمارے راستے ہی مختلف نہیں ہیں بلکہ منزل بھی مختلف ہے۔ آپ سرمایہ داری کے”رکھوالے“ اور ہم سرمایہ کے نظام کے مخالف اور سوشلزم کے حامی ہیں، صرف الفاظ میں نہیں بلکہ اپنے عمل میں۔اس لیے ہماری عملی جدوجہد سرمایہ داری نظام کے خلاف ہے اور سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہدیہاں قومی محرومی سے جڑی ہوئی ہے۔ یقیناً ہم تھوڑے ہیں، ہمارے وسائل محدود ہیں کیونکہ مزدور تحریک بہت کمزورہے اور جو ہے اس پر اصلاح پسند نظریات بہت حاوی ہیں۔ہم آپ کی طرح منظم”ادارے“نہیں رکھتے جو ہمیں مظاہروں میں سپورٹ کریں۔ لیکن ہم نے مارکس ازم کا پرچم اُٹھا رکھا ہے جو بے داغ ہے، اس پر دھبے نہیں ہیں یہ میجنٹا نہیں ہے اورجدوجہد جاری ہے۔ اس بات کا فیصلہ تاریخ کرے گی کہ کون درست ہے اورجب یہ جدوجہد بڑھے گی تو بہت سارے اس جدوجہد میں جہالت کی منطق سے علیحدہ ہوں گے اور باقی تاریخ کے کوڑا دان کا حصہ بن جائیں گے۔

Posted by

in