اسٹیل ملز کے ملازمین کو بحال کرو! کراچی میں محنت کشوں کا شاندار احتجاج

Posted by:

|

On:

|

تحریر:منرویٰ طاہر
کراچی کے اسٹیل ٹاؤن علاقہ میں واقع قائد اعظم پارک میں پاکستان اسٹیل ملز کے برطرف ملازمین نے 4 جون کو زبردست مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا۔تقریباً ایک ہزار افراد نے دھرنے میں شرکت کی۔ دھرنے سے آدھا گھنٹہ قبل دیگر ٹریڈ یونین قیادت کو گرفتار کر لیا گیا۔
یہ احتجاج اسٹیل ملز کی مختلف ٹریڈ یونینوں نے مل کر منعقد کیا تھا جس میں انصاف لیبر یونین سی بی اے، پروگریسو لیبر یونین
پاسلو لیبر یونین، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین، لیبر یونٹی آف پاکستان اسٹیل، یوتھ یونٹی آف پاکستان اسٹیل، لیبر لیگ آف پاکستان اسٹیل وغیرہ شامل ہیں۔ اس اتحاد کی اگلی ملاقات 5 جون کو ہو گی جس میں اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ فی الحال دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔
احتجاج کے دوران برطرف ملازمین کے مطالبات تھے کہ انہیں نوکریوں پر بحال کیا جائے اور ان کے قائدین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ رات تک گرفتار کی گئی ٹریڈ یونین قیادت کو رہا کر دیا گیا۔ مظاہرہ میں ایک گرفتار شدہ ٹریڈ یونین رہنما کے دس سالہ بیٹے نے بھی شرکت کی اور کہا کہ ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ احتجاج کے دوران بھی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات تھی۔
مظاہرہ کے شرکاء نے پاکستان تحریک انصاف کی سرکار کے خلاف نعرے لگائے۔ ایک شخص کا کہنا تھا: ”مجھے آج شرم آتی ہے کہ میں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔ اس پارٹی نے ایک کروڑ نئی نوکریاں دینے کاوعدہ کیا تھا۔ نئی نوکریاں دینا تو دور اس نے ہم سے ہی ہمارا روزگار چھین لیا۔”
ایک منیجر کا کہنا تھا کہ میری عمر 58 سال ہے اور رٹیائرمنٹ میں دو سال باقی ہیں اور اس وقت مجھے نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ ایک اور بزرگ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سپورٹر تھے مگر آج مزدور اپنے حق کے لئے نکلے ہیں اور آج ان کی کوئی پارٹی نہیں ہے۔
کامریڈ ماجد اصغر کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست پہلے سے زیادہ کمزور، مقروض اور نااہل ہو چکی ہے اور آئی ایم ایف و ورلڈ بنک کی جڑیں پاکستان میں مضبوط ہوگئی ہیں۔ ایک اور ساتھی کا کہنا تھا کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں کا دشمن ہے۔
احتجاج میں شرکاء کے نعرے کچھ یوں تھے: ”بیروزگاری نامنظور”، ”ہمیں کیا چاہئے، روزگار!”، ”مزدور، بے قصور!، ”شرم کرو، ڈوب مرو!”، ”ظلم کے یہ ضابطے، ہم نہیں مانتے!”۔
اس کے علاوہ جئے بھٹو کے نعرے بھی سنائی دیئے جو اسٹیل ملز کے محنت کشوں کے حالیہ طبقاتی شعور کی عکاسی کرتے ہیں اور ایک باقاعدہ مزدور تحریک کی عدم موجودگی میں یہ بات زیادہ حیران کن بھی نہیں۔ حالیہ شعور محض معاشی سوال تک محدود ہے اور جئے بھٹو کے نعرہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ حکمران طبقہ کی پارٹی میں بھی امیدیں آج بھی موجود ہیں۔
مثبت بات البتہ یہ ہے کہ دیگر محنت کشوں نے آئی ایم ایف و ورلڈ بنک جیسے سامراجی اداروں پر تنقید کی اور کہا کہ یہ سامراجی ادارے ہمارے قومی اداروں کو نجکاری کے ذریعہ تباہ کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ اور یہی وہ کڑی ہے جس کے ذریعہ سوشلسٹ اس وقت طبقاتی شعور کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ مزدور خود یہ شعور رکھتے ہیں کہ سامراج مزدور دشمن ہے۔ اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان پارٹیوں کو بے نقاب کریں جو اس سامراج کی گود میں کھیلتی ہیں۔ پھر چاہے وہ پی ٹی آئی ہو، نون لیگ یا پی پی پی، حکمران طبقہ کی تمام جماعتیں اپنے طبقاتی مفادات کے دفاع کے لئے آئی ایم ایف کے پاس سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے لئے جاتی رہی ہیں۔
احتجاج میں محنت کشوں کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی بھوکے مر رہے ہیں تو اگر ہمارے مطالبات پورے نہیں کئے تو ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں اور نیشنل ہائی وے بلاک کر دیں گے۔ یہ ایک نہایت اہم بات ہے کیونکہ اس سے واضح ہو رہاہے کہ اس وقت معیشت کا بحران ایسی شدت اختیار کر رہا ہے کہ مزدوروں پر پہلے سے بھی زیادہ بڑے حملے ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں محنت کشوں کی دیگر پرتیں جدوجہد میں آ رہی ہیں۔ ابھی 15 دن پہلے ہی پاکستان کے 30 سے زائد شہروں میں ورکرز یکجہتی کمیٹی کے تحت کورونا وبا کے دوران مزدوروں کے روزگار کے تحفظ کرنے کے لئے احتجاجات منعقد کئے گئے۔ اس کے علاوہ چین ون، لکی ٹیکسٹائل، سیفائر، افسانہ، رؤف ٹیکسٹائل، ڈینم کلاتھنگ و دیگر فیکٹریوں اور ملوں میں مزدوروں نے زبردست جدوجہد کی ہے اور حالیہ دنوں میں بلوچستان میں برمش کے لئے انصاف مانگنے کے لئے احتجاججات منعقد کئے گئے اور کل کراچی و لاہور میں مظاہرے کئے جائیں گے۔ غرض یہ کہ ان حالات نے مزدور طبقہ کی آزادانہ جدوجہد کے لئے زرخیز زمین فراہم کر رکھی ہے۔ اب یہ سوشلسٹوں پر منحصر ہے کہ وہ اس بڑھتے ہوئے تضاد کو کیا سمت دیتے ہیں۔ سماجی اشتراکیت کی سمت۔۔طبقاتی جدوجہد کی سمت یاحکمران طبقہ کی پارٹیوں و پارلیمان پر انحصار کی سمت یا کام کی جگہوں اور محنت کش علاقوں میں ورکرز کمیٹیوں کی سمت!

Posted by

in