منرویٰ طاہر
پچھلے چند سالوں میں پاکستانی خواتین اور جنسی اقلیتوں نے محنت کش عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر میں مارچ منعقد کئے ہیں۔ بائیں بازو کی جانب سے محنت کش عورتوں کے عالمی دن پر اس سے پہلے بھی پروگرام اور مارچ منقعد کرائے جاتے تھے۔ مگر “عورت مارچ” نے ان خواتین میں بھی مقبولیت پائی جو درمیانے اور اونچے طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختلف طبقات کی شمولیت کے باعث ان طبقات کے جنسی و صنفی مسائل بھی ابھر کر سامنے آئے۔ “کھانا خود گرم کر لو” اور “مجھے کیا پتا تمہارے موزے کہاں ہیں” جیسے پیغامات کے سبب عورت مارچ کو دائیں اور بائیں بازو کی رجعتی پدرشاہانہ تنقید و حملوں کا سامنا رہا۔ مگر اس کے باوجود عورت مارچ منقعد کرانے کا اور اس کے ذریعہ خواتین کی تحریک تعمیر کرنے کا حوصلہ بلند رہا جو قابل دید امر ہے۔ اسی دوران تحریکوں کی تعمیر کے متعلق وسیع تر موومنٹ میں مختلف رجحانات نے جنم لیا ہے۔ یہ مضمون ایک ایسے ہی رجحان کے متعلق تحریر کیا گیا ہے۔ یہ رجحان تحریک کی چند مخلص پرتوں میں مقبول ہے اور اس کے مطابق خواتین کی تحریک کو کثیرالطبقاتی یا کراس کلاس (cross class)ہونا چاہئے۔
یورپ کی ماحولیاتی تحریک کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک بنیادی کمزوری نظر آتی ہے: ایک کثیرالطبقاتی تحریک میں محنت کش قیادت کا بحران۔ اس تحریک کی موجودہ پیٹی بورژوا (petty-bourgeois) قیادت اپنے ریڈیکل (radical) پروگرام کے ساتھ حکمرانوں پر تنقید تو کرتی ہے مگر پھر انہی سے اس نظام میں بہتری لانے کی التجا بھی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حکمران طبقہ سے اس انداز میں یہ آس لگانا کہ وہ ماحولیاتی بحران کا حل فراہم کرے گا آخری تجزیہ میں ایک ایسی “سبز سرمایہ داری” یعنی “green capitalism” سے امیدیں وابستہ کرنا ہے، جو دنیا کی بیشتر استحصال زدہ اور زیر جبر اکثریت کے لئے نہ سماجی ہوتی ہے نہ امن پسند۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک سرمایہ داری مخالف یا اینٹی کیپٹلسٹ پروگرام، یعنی ایک ایسا پروگرام جو نظام کو سرمایہ داری سے آگے لے کر جائے، کسی بھی ایسے شخص کا پروگرام ہو جو سرمایہ داری کی مخصوص علامات یا پھر تمام تر سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید رکھتا ہو۔ مگر موجودہ پاکستانی خواتین کی تحریک کی اکثریت موضوعی سطح (subjective level) پر بھی سرمایہ داری مخالف نہیں ہے۔ اور جو پرتیں سرمایہ داری مخالف ہیں بھی، ان کے پاس کوئی مخصوص سرمایہ داری مخالف پروگرام موجود نہیں۔ پچھلے سال کے عورت مارچ منشور نے مخصوص مسائل کے لئے سرمایہ داری کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا مگر وہ منشور پھر بھی ایک نئے نظام کو یقینی بنانے کا لائحہ عمل بتانا تو درکنار، ایک ایسے نظام کا مطالبہ تک کرنے سے قاصر رہا۔ اسی طرح منشور عورت پر جبر کی تاریخی بنیادی جڑ کو بیان کرنے میں بھی ناکام رہا۔ یہ جڑ سرمایہ دارانہ نظام میں اس مخصوص تقسیم محنت میں پائی جاتی ہے جس کے تحت تولیدی محنت یعنی کھانا پکانا، صفائی کرنا، اطفال کی دیکھ بھال وغیرہ کا بوجھ گھر اور خاندان کی نجی حدود میں دھکیل دیا جاتا ہے اورعورت، بالخصوص محنت کش اور نچلے درمیانے طبقہ کی عورت، پر لادا جاتا ہے۔
عالمی ماحولیاتی تحریک کی طرح پاکستان کی تحریکِ نسواں کو بھی اس نظام کا ادراک کرنا ہوگا جس کے خلاف یہ تحریکیں درحقیقت ابھر رہی ہیں۔ صرف چند ایسے مطالبات کو پروگرام میں شامل کر لینا کافی نہیں ہے کہ جو سرمایہ داری مخالف تنقید پر مبنی ہوں۔ ہمیں بالخصوص درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کو اس سے آگے جانا ہوگا اور تحریک کی قیادت کا ذمہ انقلابی مزدور طبقہ تک جانے دینے کی راہ میں حائل ہونے سے خود کو روکنا ہوگا۔ اس سمت میں پہلا قدم محنت کشوں کی سوشلسٹ تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کو عورت مارچ میں اپنے بینر تلے شرکت کرنے سے روکنے کی روش کو معطل کرنا ہو سکتا ہے۔ اگر مقصد بورژوا پارٹیوں اور این جی او کو اپنے بینر لانے سے روکنا ہے، تب بھی سوشلسٹ تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کو اس حوالے سے خصوصی رعایت دینی پڑے گی کیونکہ یہ کہیں کا انصاف نہیں کہ مزدور تنظیموں اور این جی او اور بورژوا پارٹیوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جائے۔
مگر عین ممکن ہے کہ ایسا تب تک نہ ہو پائے جب تک پاکستان کی خواتین کی تحریک کثیرالطبقاتی ہونے کی دعویٰدار رہتی ہے ۔ اس کی ایک بہت سادہ سی وجہ ہے۔ ایک کثیرالطبقاتی تحریک کا عموماً یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ تمام طبقات کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ لازم ہے کہ ایسی تحریک کا پروگرام کچھ بھی ہو، ایک محنت کش پروگرام قتعاً نہیں ہو سکتا۔ اور محنت کش تنظیموں کو رعایت دینے کا لازمی مطلب ہوتا ہے دیگر طبقات کو اس رعایت سے محروم رکھنا کیونکہ محنت کشوں کے مفادات اور ان کو دی گئی مراعات کبھی بھی دیگر طبقات کے مفادات اور ان کی مراعات کے شانہ بشانہ پوری نہیں کی جا سکتیں۔ مارکسزم کا بنیادی شعور اسی نکتہ پر کھڑا ہے کہ دیگر طبقات کو سماج میں جو مراعات میسر ہیں وہ محنت کشوں کے استحصال کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر بھی ہم میں سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طبقات کے تصادم کو پس پشت رکھتے ہوئے کثیرالطبقاتی تحریک چلائی جا سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کو خود سے سوال کرنا چاہئے کہ ظلم پر غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا اور یہ سمجھنا کہ طبقات کے تصادم کو پس پشت رکھا جا سکتا ہے، کہیں ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف تو نہیں؟
مختلف طبقات کے لازمی طور پر مختلف مفادات ہوتے ہیں۔محنت کش طبقہ زرائع پیداوار کی کسی قسم کی نجی ملکیت نہیں رکھتا۔ موضوعی سطح (subjective level) پر یہ طبقہ ابھی اس حوالہ سے شعور رکھتا ہو یا نہیں، اس کا معروضی مفاد (objective interest)ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے خاتمہ اور اس کی جگہ اشتراکی ملکیت کے نفاذ میں ہے۔ یہ مفاد کبھی بھی ان طبقات کے مفادات کے ساتھ جوڑا نہیں جا سکتا جن کی دولت اور سماجی اثر و رسوخ کا ذریعہ نجی ملکیت ہے۔
یہ ایک یا دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی انفرادی شمولیت کا سوال نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کس طبقہ کا پروگرام کسی تحریک کا پروگرام ہوگا۔ کیا ایک کثیرالطبقاتی تحریک کا پروگرام بھی “کثیرالطبقاتی” ہو سکتا ہے؟ یہ بات یا تو ناقابل عمل ہے کیونکہ ایسا کرناتحریک میں سب کو ذواضعافِ اقل یعنی لوئسٹ کامن ڈینامینیٹر (lowest common denominator) تک محدود کر دے گا یا پھر آخری تجزیہ میں ناممکن ہے کیونکہ کوئی نہ کوئی طبقہ ہمیشہ تحریک کی سیاست یعنی اس کے پروگرام کا تعین کرتا رہتا ہے۔ بورژوا سماج میں کثیرالطبقاتی تحریک کا مطلب ہے مزدور عورت کے طبقاتی مفاد کو (جو پیداواری و تولیدی کی جبری تقسیم محنت کے خاتمہ سے جڑا ہے) بورژوا فیمنسٹوں کے محدود اہداف کے ماتحت لانا۔
ایک کثیرالطبقاتی تحریک کا بہترین ممکنہ نتیجہ یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان رسمی مساوات کے محدود مطالبات پورے ہوجائیں۔ اس صورت میں محنت کش عورتوں کو اپنی بورژوا فیمنسٹ ساتھیوں کی جیسی رسمی برابری تو مل جائے گی مگر ان عورتوں کی حقیقت پھر بھی یہی رہے گی کہ وہ دن میں 12 گھنٹے کام کریں گی اور صحت اور فلاح و بہبود سے بھی محروم رکھی جائیں گی۔ رسمی طور پر ان کو سماجی زندگی کے تمام شعبہ جات تک رسائی حاصل ہوگی مگر اتنی ہی جتنی ان کے محنت کش مرد ساتھیوں کو ہوتی ہے، جو انہی عورتوں کی طرح نہ اتنا پیسہ نہ وقت رکھتے ہیں کہ ان شعبوں میں حقیقتاً داخل ہو سکیں اور ان سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یوں یہ محنت کش عورتیں بورژوا فیمنسٹوں کے انفرادی حقوق اور آزادیوں کے لئے اس نام نہاد کثیرالطبقاتی تحریک میں جدوجہد کریں گی۔ مگر یہی کثیرالطبقاتی تحریک محنت کش عورت کی مکمل آزادی کے لئے تب تک نہ لڑ سکتی ہے اور نہ لڑے گی جب تک کہ یہ تحریک تمام طبقات کے مفادات کی نمائندگی کرتی رہے گی جو محنت کش اکثریت کے مفادات سے براہ راست تصادم میں ہیں۔ بورژوا فیمنسٹوں کے ساتھ مخصوص جدوجہد کے لئے ٹیکٹیکل (tactical) معاہدے کئے جا سکتے ہیں، مثلاً حدود آرڈننس کے خلاف۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ، محنت کش عورت کو حقیقی آزادی کے لئے اپنی تنظیمیں، ملاقاتیں، کمپینیں اور پروگرام، غرض یہ کہ اپنی تحریک درکار ہیں جو اس تمام محدودیت سے آزاد ہو جو بورژوا اور پیٹی بورژوا فیمنسٹ اتحادی اس پر ایک کثیرالطبقاتی تحریک کے نام پر عائد کرنا پسند کریں گی۔
اکثر ریڈیکل اور لبرل جن کا تعلق عموماً درمیانے اور اونچے درمیانے پس منظر سے ہوتا ہے، اس سوال کو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی بحیثیت شہری انفرادی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد اور تحریک میں شمولیت کے سوال کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، سوشلسٹ اس سوال کو سماجی رشتوں کے طور پر دیکھتے ہیں جن کی مادی بنیاد ہی عورت پر جبر کی بنیاد ہے۔ ہم رجعتی قوانین کے خلاف اور ترقی پسند قوانین کے حق میں جدوجہد کرتے ہیں اور ساتھ افراد کے شعور کو تبدیل کرنے کی جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ مگر ہم یہ سب کچھ یہ جانتے ہوئے کرتے ہیں کہ یہ تمام مسائل بالآخر اس مادی بنیاد کے ہی اظہار ہیں۔ صنفی جبر محض انفرادی سطح پر غلط شعور کا سوال نہیں ہے۔ یہ سماج کے غلط حالات کا سوال ہے۔
انقلابی مارکسزم اس عہد کے طبقاتی سماج میں صنفی جبر کی جڑ کو سماجی-نجی تقسیم (public-private divide) میں دیکھتا ہے کہ جہاں مرد سماجی پیداواری شعبہ میں گھر سے باہر جا کر محنت کرتا ہے جبکہ تولیدی محنت، یعنی اولاد کی پرورش، گھریلو کام وغیرہ خاندان اور گھر کی نجی حدود میں عورت کا ذمہ ہوتے ہیں۔ اس تقسیم کے تحت محنت کش عورتیں نجی گھریلو انتظام کے لئے ذمہ دار ہوتی ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ اپنے ہی طبقہ کی دیگر عورتوں کے ساتھ رابطہ اور میل جول سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اس طرح محنت کش طبقہ کا ایک بڑا حصہ جو محنت کش عورتوں پر مشتمل ہے خود کومتحرک کرنے سے باقاعدہ محروم رکھا جاتا ہے۔ اس حوالہ سے ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کا ایک انقلابی مطالبہ ہے: گھریلو محنت کی سوشلائزیشن (socialisation)، یعنی اس محنت کو گھر کی نجی حدود سے باہر سماجی شعبہِ حیات میں لانا۔ ہم اس صنفی تقسیمِ محنت کو برقرار رکھنے کے حق میں نہیں۔ ہمیں اس امر کا شعور ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے صنفی جبر ختم نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ محنت کش طبقہ ہی وہ واحد قوت ہے جو ان حالات کو تبدیل کر سکتا ہے۔
درمیانے طبقات بےساختہ طور پر حکمران طبقہ اور محنت کش طبقہ کے درمیان ڈولتے رہیں گے۔ اور بالخصوص ایک ایسے ملک میں کہ جہاں کوئی متحرک محنت کش قوت موجود نہیں ہے، ایسے لوگ آخری تجزیہ میں (اور اس انداز میں بھی جس میں درمیانے طبقات سے تعلق رکھنے والے ریڈیکل ایکٹوسٹ برتاؤ کرتے ہیں) زیادہ سے زیادہ ایک ریڈیکل، جمہوری بورژوا پروگرام کی جانب مائل ہوں گے۔ یہ عین ممکن ہے کہ درمیانے طبقات کی پرتوں کو ایک محنت کش پروگرام اور انقلاب کے لئے جیتا جا سکے۔ مگر انہیں جیتا جانا لازم ہے۔ اور ایسے لوگ تب ہی جیتے جا سکتے ہیں جب محنت کش طبقہ اپنے طور پر ایک عنصر، ایک قوت کے طور پر ابھرے۔ اس قوت کے سوال کو بڑی تعداد کے مطابق پرکھنا پڑے گا، نہ کہ صرف چند ریڈیکل لوگوں پر انحصار کر کے کہ جو کبھی کبھار غور و فکر اور چند سو افراد کے ساتھ احتجاج منعقد کرانے کی غرض سے اکٹھے ہوتے ہیں۔
اس وقت سوشلسٹ نہ یہ کہہ سکتے ہیں اور نہ انہیں کہنا چاہئے کہ “نہیں، آپ محنت کش طبقہ سے نہیں لہٰذا آپ ہمارے ساتھ شامل نہیں ہو سکتے”۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ یہ وضاحت کی جائے۔ ہم ہر ریڈیکل کو جیتنا چاہتے ہیں مگر ہر وہ ریڈیکل جو اپنی طبقاتی مراعات کو خداحافظ کہے اور ایک ایسے پروگرام کو قبول کرے جو ایک سوشلسٹ محنت کش عورتوں کی تحریک اور تنظیم کو تعمیر کرے، نہ صرف الفاظ میں بلکہ عمل میں بھی۔ مختصراً اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلسٹ دوسرے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے پدرشاہی اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں شامل ہونے کا حق چھینتے نہیں ہیں۔ مگر ہم یہ کرتے ہوئے پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کہ کس طبقہ کے مفادات کا دفاع کیا جائے گا۔ اس کی سادہ وجہ ہے۔ محنت کش طبقہ کے علاوہ کسی بھی اور طبقہ کے مفادات کے دفاع کا مطلب آخری تجزیہ میں پدرشاہی اور سرمایہ داری کا دفاع ہے۔
ہم عورتیں اور جنسی و صنفی اقلیتیں جو پاکستان میں عورت مارچ منعقد کرتی ہیں، ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ یا تو ہم ایک دفاعی انداز اپنا کر اپنی تحریک کے طبقاتی کردار پر کسی بھی تنقید پر کان دھرے بغیر اس کو رد سکتے ہیں۔ یا پھر ہم تنقیدی اور اندرونی جائزہ کے ذریعہ اپنی مہمات، تحریکوں اور جدوجہد کو بہتر بنا سکتے ہیں اور محنت کش طبقہ کے پروگرام کی قیادت میں پدرشاہی اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے فتح یاب ہو سکتے ہیں۔