سوشلسٹ مزاحمت رپورٹ
گرینڈہیلتھ الائنس کے چیئرمین سلمان حسیب کا کہنا ہے کہ سرکار احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں اور دیگر ہیلتھ ورکروں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ ”ہم ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف 29 دن سے احتجاج پر بیٹھے ہیں جس کے نتیجہ میں نوکریوں اور رہائش سے ہاتھ دھوئے ہیں۔ مگر ہمارے ساتھی آج بھی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔”
گرینڈہیلتھ الائنس کے ورکرزپچھلے 14دنوں سے اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پر احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور ینگ نرسز ایسوسی ایشن کے ممبران اور لیڈران نیولبرل حکومت کے حملوں کے خلاف شاندار جدوجہد کررہے ہیں۔ 27 اپریل کو انہوں نے پریس کانفرنس کی جس میں الائنس کے چیئرمین سلمان حسیب نے کہا کہ یہ جتنے ڈاکٹر کورونا وبا سے آج مر رہے ہیں یہ کوئی شہید ہونے نہیں آئے تھے درحقیقت ان کا یہ قتل حکومت کر رہی ہے۔ ہیلتھ ورکروں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا تو ملک بھر میں احتجاج کئے جائیں گے۔
اس پریس کانفرنس سے پہلے ہیلتھ ورکروں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے ساتھیوں نے لارنس روڈ پر ریلی نکالی اور حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔کورونا وبا کے نتیجہ میں ہیلتھ ورکروں کی صورت حال نہایت گھمبیر شکل اختیار کر گئی ہے۔ یہ ڈاکٹر، نرسیں، ایمبولینس ڈرائیوروں، فارمسسٹ، پیرامیڈیکس اور صفائی کرنے والے اسٹاف ہی ہیں جو کورونا وبا کے خلاف لڑائی میں پہلی صف میں کھڑے ہیں۔ اس کے باوجود یہی وہ افراد ہیں جو حفاظتی کٹوں کی عدم فراہمی کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے اس وقت چار بنیادی مطالبات ہیں
۔1 تمام ہیلتھ ورکروں کو حفاظتی کٹوں کی فراہمی، 2۔ تمام ہیلتھ ورکروں اور ان کے خاندانوں کے لئے مفت کورونا ٹیسٹ، 3- کورونا سے جاں بحق ہونے والے ہیلتھ ورکروں کے خاندانوں کے لئے حکومت کی طرف سے معاوضہ، 4- انسانیت کے تقاضوں کے مطابق قرنطینہ کی سہولیات۔
حکومت نے ایکسپو میں قرنطینہ بنا کر خوب مذاق کیا ہے، اس کے بارے میں سلمان حسیب نے بتایا کہ نہ وہاں کوئی ڈاکٹر ہیں جو باقاعدگی سے مریض دیکھنے آ رہے ہیں اور نہ مریضوں کو کھانا فراہم کئے جانے کی کوئی سہولت ہے۔ ”پچھلے دن مریضوں نے باسی کھانے پر احتجاج کیا تھا۔”
ہیلتھ ورکروں کی صورت حال کورونا لاک ڈاؤن سے پہلے بھی خاصی اچھی نہ تھی بالخصوص پنجاب میں 10 مارچ کو ہی گرینڈ ہیلتھ الائنس نے پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کیا تھا کیونکہ آیم ٹی آئی ایکٹ کو صوبائی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیا جا رہا تھا۔ ایم ٹی آئی پاکستان تحریک انصاف کی نیولبرل حکومت کا ایک پراجیکٹ ہے جسے سب سے پہلے 2016 میں خیبر پختونخواہ میں متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ قانون صحت کے شعبہ کی نجکاری کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے بعد اس پراجیکٹ کا اگلا نشانہ پنجاب ہے جس کے بعد اسے ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں بھی نافذ کیا جائے گا۔ اب چونکہ پنجاب اس نیولبرل پراجیکٹ کا اگلا ہدف تھا تو اس وجہ سے پنجاب میں صحت کے شعبہ سے منسلک ورکرز کی جدوجہد میں اضافہ ہوا۔ ہیلتھ ورکروں کا کہنا ہے کہ عدالت کے احکامات کے برخلاف ایم ٹی آئی ایکٹ کو پنجاب اسمبلی نے بھی منظور کر دیا ہے۔
کورونا وبا نے اب پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک اور موقع دے دیا ہے کہ وہ اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرسکے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ حکومت ہمیشہ احتجاج کرنے والے ہیلتھ ورکروں کو مریضوں کی جانب بے حسی کے لئے مورد الزام ٹھہراتی ہے درحقیقت مریضوں کی تکلیف کا باعث خود اس حکومت کی بے حسی ہے کہ جس کے پاس سرمایہ دار طبقہ کے لیے تو نت نئے ریلیف پیکج دینے کا پیسہ ہے مگر جن کے اوپر اس وقت خود انسانیت کی بقا منحصر ہے ان کو حفاظتی آلات فراہم کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔
عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجہ میں سامراج کے پھینکے ہوئے ٹکڑے اٹھانے کے بعد اپنی نیولبرل پالیسیوں میں بھی تیزی اختیار کر لی ہے۔ مگر حکمران طبقہ کی توقعات و خواہشات کے برعکس آئی ایم ایف ڈیل کے بعد بھی معاشی بحران کسی صورت کم نہ ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سماجی بحران بد سے بدتر ہوا کیونکہ حکومت نے تمام تر معاشی بحران کا بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈال دیا ہے۔ اب جب کورونا وبا کی وجہ سے ایک نئی صورت حال سامنے کھڑی ہے تو یہ حکومت اس مصیبت سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اس ناکامی کی وجہ غلط پالیسیاں اور پاکستان کی نیم نوآبادیتی حیثیت کا امتزاج ہے۔ اس حکومت کے پاس آئے روز کسی نہ کسی صنعت کو دینے کے لئے تو نت نئے ریلیف پیکج ہوتے ہیں مگر وہ ہیلتھ ورکروں کی حفاظتی آلات جیسی بنیادی ضرورت تک کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔ دنیا بھر کی نیولبرل حکومتوں نے آج یہ واضح کر دیا ہے کہ ہیلتھ ورکروں کی جانوں کے تحفظ سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اس سے سرمایہ دارانہ نظام کی منطق کھل کر سامنے آجاتی ہے اس میں سماج کی بقا بنیادی نہیں ہے کیونکہ بنیادی سوال منافع کی ریل پیل ہے۔
ان مشکل ترین حالات میں ہم ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈیکل اسٹاف، ایمبولنس ڈرائیوروں، فارماسسٹوں، ریسیپشنسٹوں، اسپتالوں میں صفائی کرنے والوں، جن کو ہم آج کے دور میں محنت کش طبقہ کے عظیم ہیرو مانتے ہیں، ان سب کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کا ردعمل، خواہ وہ کوئٹہ میں حفاظتی آلات کا مطالبہ کرنے والے ہیلتھ ورکروں کی گرفتاریوں میں ہو یا حکومت کی لاہور کے ہیلتھ ورکرزکے مطالبات کی جانب ہو، انتہائی شرمناک ہے۔ ہمارے محنت کش بھائیوں اور بہنوں کو ریاست کی جانب سے مزید حملوں کے لئے تیار رہنا ہوگا کیونکہ ان کے جائز مطالبات پر مبنی جدوجہد کو کچلنے کے لئے یہ ریاست آئندہ دنوں میں مزید بربریت اختیارکرے گی۔ صرف ایک انٹرنیشنلسٹ سوشلسٹ حکمت عملی ہی انسانیت کو عمران خان، بورس جانسن اور ٹرمپ جیسے حکمرانوں کی سرمایہ دار حکومتوں کی بربریت سے بچا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا قدم اسپتالوں اور دیگر صحت کی سہولیات پر ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل ہوگی۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو مختلف اسپتالوں میں پہلے ہی اٹھا لیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ ان کمیٹیوں کو صرف ان ورکروں پر مبنی ہونا چاہئے جو لڑائی کے میدان میں اتر رہے ہوں۔ اپنی قوت و طاقت کا تعین کر کے ملک گیر ایکشن منظم کرنے کے لئے ہر ڈسٹرکٹ لیول کی کمیٹی کو پھر نیشنل کمیٹی کے لئے ایک نمائندہ بھیجنا چاہئے۔ مزید یہ کہ ہم دیگر ٹریڈ یونینوں اور بائیں بازو کی تنظیموں جیسے عوامی ورکرز پارٹی، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ، پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو کال دیتے ہیں کہ وہ بنیادی مطالبات پر مبنی محنت کشوں کے ایکشن کے متحدہ محاذ کی تشکیل کے عمل میں شامل ہوں۔ یقیناً ان تنظیموں کے مابین حکمت عملی اور پروگرام کو لے کر اختلافات ہوں گے اور ہم سب اپنی اپنی تنظیموں کی حکمت عملی کو پیش بھی کریں گے مگر اس متحدہ محاذ کے ذریعہ اگر ہم کچھ حاصل کر سکتے ہیں تو وہ ہے متحدہ ایکشن جو حکمران طبقہ کے حملوں کے خلاف منظم کیا جائے۔