رپورٹ(انقلابی سوشلسٹ موومنٹ)
خیبر پختوان خواہ اوربنوں کے عوام طالبان اور ریاستی آپریشن سے تنگ ہیں اس کا ظہار چند دن پہلے گیلہ من وزیر کی میت کو ان کے آبائی علاقے میں لے کرجاتے ہوئے نظر آیا۔جب ہر شہر میں ان کی میت کو کندھا دینے کے لیے لاکھوں ٍلوگ باہر آئے۔پشتون قوم کی بڑی اکثریت طالبان اور آپریشنوں کے خلاف ہیں اور وہ اس کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کو دہشت گردی اور جبر نہیں امن چاہیے ہے۔آپریشن کی مخالفت اتنی شدید ہے کہ پختون خواہ اسمبلی میں آپریشن عزم استحکام پاکستان کے خلاف قرارداد منظور ہوئی ہے۔
بنوں میں گڈ طالبان کی واپسی کے بعدپولیس کو حکم تھا کہ ان کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے جس وجہ سے اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں اضافہ کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ بھی ہورہی تھی۔گڈ طالبان کی آمد ساتھ بیڈ طالبان بھی آنا شروع ہوگے تھے جس نے صورتحال کو پیچیدہ کردیا۔جس سے بنوں کے عوام شدید تنگ تھے اور اس سب کو بھگت رہے تھے کہ بنوں میں خودکش حملہ ہوا جس کے ردعمل میں سیکورٹی فورسزنے عام لوگوں پر بھی فائرنگ کردی تاکہ ان کا کنٹرول برقرار رہے۔اس سب کے خلاف بنوں کے تاجروں نے ہڑتال کی کال دی اس کے لیےعوام منظم ہوئے اور دسیوں ہزاروں لوگ احتجاج کے لیے جمع ہوگے۔یہ دہشت گردی اور ریاستی جبر کے خلاف امن کی آواز بن کرسامنے آئے۔یہ ریاست اور اس کے اداروں سے امن کا مطالبہ اور دہشت گردی اور ریاستی جبر کی مخالفت کررہے تھے جب ان پربراہ راست فائرنگ کی گئی۔جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور سیکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔حکومت کے مطابق ایک ہلاکت ہوئی ہے جبکہ ایچ آر سی پی اور مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق 5ہلاکتیں اور 20زخمی ہوئے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹوں کے مطابق فائرنگ رات دیر تک جاری رہی اور ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
پشتون عوام ریاست کی ان پالیسیوں سے تنگ ہیں اور وہ امن چاہتے ہیں لیکن ریاست ہر بار دہشت گردی کے نام پر فوجی آپریشن کرتی ہے اور پھر مذاکرات کے ذریعے طالبان کو واپس لاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر طرح سے پشتون عوام ہی کچلے جاتے ہیں۔ریاست نے اس خطے کو جنگ اور دہشت گردی کے ذریعے برباد کردیا ہے
ان آپریشنوں کی وجہ سے40لاکھ سے زائد پشتون اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ پشتون مارے گے۔
بنوں میں 19جولائی کو ہونے والے عوامی مظاہرے نے ریاست اور طالبان دونوں کو عوامی طاقت دکھا دی ہے اور واضح کیاہے کہ وہ ریاست کی طالبان کے حوالے سے پالیسیوں کو نہیں مانتے ہیں جہاں ایک طرف ان کو خود ہی علاقوں میں لایا جاتا ہے اور پھر ان کے نام پر ہی ریاستی جبر اور آپریشن مسلط کیئے جاتے ہیں۔یہی صورتحال ایک دفعہ پھر بن رہی ہے جیسے عوام قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ یہ سب کچھ پچھلی دو دہائیوں میں برداشت کررہے ہیں۔پشتون عوام ان آپریشنوں کے نتیجے میں برباد ہوئے ہیں لیکن ریاست اس بنیاد پر ڈالر حاصل کرکے سرمایہ کا نظام چلا رہی ہے جس سے عالمی اور مقامی سرمایہ کا راستہ ہموار ہونے کے ساتھ فوجی و سول اشرافیہ بھی مستفید ہوتی ہے اور ہر آپریشن ان کے لیے لوٹ مار کے مزیدمواقع لے کرآتاہے۔
پشتون عوام کو ریاست سے کوئی امید نہیں ہے اور انہوں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ ان کی پالیسیاں عوام کے لیے تباہی وبربادی لاتی ہیں اور آخر کاریہ طالبان کو اپنے مفاد میں مسلط کردیتی ہے۔اسی طرح ان کو سیاسی جماعتوں سے بھی کوئی امید نہیں ہے ان کا ماضی بھی ان پر عیاں ہے کہ کس طرح انہوں نے سرمایہ کے مفاد میں پشتون عوام کو برباد کیا حالانکہ تحریک ا نصاف نے بھی آپریشن کی حمایت نہیں کی ہے اور اسمبلی سے اس کے خلاف قرار داد بھی منظور کروائی لیکن عوام ان پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عوام نے خود کو اولسی پاسون میں منظم کیا ہے اور سوات،وزیرستان اور دیگر علاقوں میں اس کے تحت مظاہرے ہوئے ہیں یہ عوامی جدوجہد کا اظہارہے اس کے مطالبات درست ہیں اس کو جمہوری طور پر علاقوں میں منظم کرنا چاہیے ہے اور اس کا ایک واضح مرکزی ڈھانچہ ہونا چاہیے جہاں قیادت جمہوری طور پر منتخب اور عوام کو جواب دئے ہو۔پشتون تحفظ موومنٹ کا اس ساری صورتحال میں اہم اور ریڈیکل کردار ہے اور انہوں نے جبر وتشدد کے خلاف عوام کو منظم کیا ہے اور پچھلے عرصے میں امن کے لیے ایک بڑی جدوجہد کی ہے۔وہ اس صورتحال میں پشتون عوام کو اولسی پاسون میں جمہوری طور پر منظم کرنے میں بنیادی کردارادا کرسکتی ہے۔
پاکستانی سرمایہ داری کے بحران اور عالمی و قومی سرمایہ کے مفاد کو برقرار رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے حاشیہ پر موجود علاقوں میں قومی تحریکیں تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہے اور یہ کافی طاقتور ہیں ان کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے ان کی جدوجہد سیاسی اور جمہوری ہے جس کی وجہ سے ریاست کے لیے ان پر قابو پانا مشکل ہورہاہے۔بنوں میں ریاستی دہشت گردی ایک پیغام ہے کہ اگر کوئی ریاست کے خلاف کھڑا ہو تو کچلا جائے گا لیکن جو عوامی غم و غصے نظر آرہا ہے اس میں ریاست کے لیے یہ سب کرنا بہت آسان نظر نہیں آرہا ہے۔جس کی وجہ سے ریاست کا بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
اس صورتحال میں لیفٹ،ٹریڈ یونینز،پشتون تحفظ موومنٹ، بلوچ یکجہتی کمیٹی،کشمیر عوامی کمیٹی اور گلگت بلتستان کی عوامی کمیٹی کو مل کرریاستی جبر و دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کی تشکیل کے لیے ایک کانفرنس کرنی چاہیے ہے تاکہ فوجی آپریشن،طالبان،جبری گمشدگیوں کے سوال کو عوام کے معاشی سوال کے ساتھ جوڑتے ہوئے جدوجہد کو وسیع کیا جاسکے۔