تحریر:شہزاد ارشد
اسلام آباد میں 7جولائی کی شام گیلہ من وزیرپر 10 سے زیادہ ڈنڈا بردارافراد نے حملہ کیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے اور انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ تین دن تک موت اور زندگی کی کشمکش میں رہنے کے بعد ہمیشہ کے لیے جدا ہوگے۔گیلہ من وزیر کے قتل کو ذاتی رنجش بنا کرپیش کیا جارہا ہے کا جس سے عید پر اس کا جھگڑا ہوا تھا وہ اس پر حملہ آور ہوا ہے۔
گیلہ من وزیر کی داستان بھی ایک پشتون کی دکھ اور درد کی کہا نی ہے جہاں وہ فوجی آپریشنوں کی وجہ سے خاندان سمیت گھر سے بے گھر ہوا اور لاہور اور بحرین میں مزدوری کرتا رہاتھا۔جب پشتون تحفظ موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی تو یہ بحرین میں مزدوری کرتاتھا۔ اس نے سوشل میڈیا پرپشتون دیہی غریب کے دکھ اور اس پر جبر اور بے گھری کو اپنے شعروں میں بیان کرنا شروع کیا۔اس کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے ریاست نے بحرین سے نکلنے کے لیے بحرین حکومت سے رابطہ کیا اور اسے پاکستان آنے پر ائرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا گیا،اس کے بعد یہ بارہا گرفتار ہوا۔اس پر شدید جسمانی تشدد کی کیا گیا اور اس پرپشتون تحفظ موومنٹ کو چھوڑنے کے دباؤ ڈالا گیا اور جب اس نے تمام تر تشدد اور دھمکیوں کے باوجود اس سے انکار کیا تو اسے ای سی ایل پر ڈالا دیا گیا تاکہ یہ مزدوری کے لیے باہر نا جاسکے اور یوں اسے اور اس کے خاندان کو سزا دی گئی۔اس نے یہ سب برداشت کرلیا لیکن وہ مظلوم پشتون کے دکھ و درد کو بیان کرتا رہا۔اس نے اپنی شاعری کا مقصد ظلم و جبر کے خلاف لڑائی بنا لیا۔اس کی نظمیں پشتون قوم کا غم بیان کرتی ہیں کہ کیسے ان کو بے گھر،کچلا اور روزگار سے محروم کیا جارہا ہے۔
گیلہ من وزیر پشتون تحفظ موومنٹ کا اہم راہنما اورریاست کی پالیسیوں کے نتیجے میں جنگ،طالبان،بے گھری،جبری گمشدگیوں کے خلاف اہم آواز بن کرابھرا۔اس نے درد کو شاعری میں بیان کیا اس کی جو نظمیں پشتو سے ترجمہ ہوئی ہیں وہ پشتون قوم کے دکھ اور درد کو سامنا لاتی ہیں اس نے جبر کے خلاف لڑنے اور عام لوگوں کو اس لڑائی میں شامل کیا اور یہی اس کا جرم تھا جس کی اسے سزا دی گی۔
گیلہ من وزیر کومسلسل دھمکی آمیز فون آرہے تھے اور اس کے خاندان کو بھی ہراساں کیا جارہا تھا اور ایسے میں یہ حملہ واضح طور پر ریاستی اداروں کی ایما پر ہوا اور اس کے لیے آزاد داوڑ کا نام لیا جارہا ہے اور اسے قبائیلی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن حقیقت میں یہ قتل ایک تسلسل ہے جس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ورکرز کو گرفتار،تشدد کا نشانہ کابنایا جاتا ہے اور قتل کیا جاتا ہے جس کا گیلہ من وزیر کو مسلسل سامنا تھا۔اس سے پہلے عثمان کاکڑ کو قتل کیا گیا پھر ارمان لونی اور اب گیلہ من وزیر کا قتل کیا گیا ہے لیکن یہ امن کے ایک طاقتور عوامی تحریک ہے جو پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے اس کی ایک جھلک گیلہ من وزیر کی میت کو آبائی علاقے میں لے جاتے ہوئے دیکھی جاسکتی ہے جس میں لاکھوں پشتون اُمڈ آئے اور انہوں نے جنگ،آپریشنوں،جبری گمشدگیوں،گرفتاریوں اور بے دخلیوں کی ریاستی پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ امن کے لیے وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ امن کی جدوجہد کررہی ہے اور مظلوم پشتون اس کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور اس جدوجہد کی وجہ سے آج بڑی تعداد میں اس کے ورکرز جیل میں ہیں اور سینکڑوں قتل ہوچکے ہیں لیکن یہ تحریک اتنی طاقت رکھتی ہے کہ یہ ریاست کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتی ہے جس طرح عام پشتون نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی ہے یہ واضح ہے کہ وہ اب مزید اس بربریت اور وحشت کو بھگتنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو طالبان کے نام پر ان پر مسلط کردی جاتی ہے۔
پاکستان میں قومی جبر کے خلاف ردعمل تیز تر ہے کہیں یہ زندہ رہنے کے حق کا سوال ہے جیسے پشتون اور بلوچ اور کہیں یہ وسائل پر کنٹرول کا سوال ہے لیکن یہ علیحدہ بھی نہیں ہیں اور جڑئے ہوئے ہیں کہیں ایک پہلو حاوی ہے تو کہیں دوسرا حاوی ہے۔ ریاست جبر کے حربے میں شدت لارہی ہے لیکن یہ سب اس سے کنٹرول نہیں ہورہا ہے۔ بلوچستان سے لے کر پشتون خواہ اور کشمیر و گلگت بلتستان میں تحریکیں موجود ہیں جو اپنے مطالبات کے لیے جدوجہد کررہی ہیں یا تو یہ جیت رہی ہیں جیسے کشمیر یا گلگت بلتستان یا ریاست کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کررہی ہیں جیسے پشتون خواہ اور بلوچستان ہے۔
معاشی بحران شدید تر ہے اس میں ریاست کی پالیسیاں عدم استحکام کو بڑھا رہی ہیں اور پنجاب،سندھ میں بھی محنت کش اور غریب عوام کے لیے جینا دوبھر ہوگیا ہے اور عوام کا ردعمل بھی مختلف شکلوں میں نظر آرہا ہے حالانکہ یہ ابھی ایک تحریک کی شکل اختیار نہیں کرسکا لیکن اس اگلے عرصے میں اس بات کا امکان ہے کہ عوام ان حالات کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے اس لیے ریاست فوجی آپریشن اور جنگ کو پھیلا کر صورتحال کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
لیفٹ اور ٹریڈ یونینز کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فوجی آپریشن،جبری گمشدگیوں اور بے دخلیوں کی مخالفت کریں اور مظلوم اقوام کی تحریکیوں کی حمایت کرئیں اور ایک متحدہ محاذ کی طرف بڑھیں۔ جس کے تحت ریاستی آپریشن ،جبری گمشدگیوں کے خاتمے سمیت عوام کے اپنے وسائل پر کنٹرول کے ساتھ حکومت کے معاشی حملوں کے خلاف بھی جدوجہد کو منظم کریں۔