روسی حملے کے دو سال بعد یوکرئین میں جنگ

Posted by:

|

On:

|

انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ، انٹرنیشنل ٹراٹسکیسٹ اپوزیشن ، اور لیگ فار ففتھ انٹرنیشنل کا مشترکہ بیان

24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کی دوسری برسی منائی گئی، جس میں ہزاروں اموات، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور بنیادی ڈھانچے اور مکانات کی تباہی تباہ کن سطح پر ہے۔
پوٹن کا یوکرین کے بڑے حصوں کو فتح کرنے اور ماسکو نواز کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کا مقصد ناکام ہو گیا۔ جنگ کے پہلے سال کے دوران روسی فوجیوں کو پیچھے دھکیل دیا گیااوراسے یوکرین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
جنگ وار آف پوزیشن میں بدل گئی۔ روسی فوج نے ڈونباس اور لوہانسک میں اپنی لائنیں مضبوط کیں ہیں جہاں حملہ آوروں نے عظیم روسی قوم پرست ملیشیا کے ساتھ مل کر یوکرین کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو بے دخل کر دیا اور ان علاقوں کو روسی فیڈریشن میں شامل کر لیا۔ روس نے خیرسون اور زاپروژیا کے علاقوں کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
بڑے پیمانے پر مغربی پابندیوں اور نیٹو ممالک کے ایک حصے کی طرف سے یوکرین کے لیے فوجی اور اقتصادی مدد کے باوجود، روس چین کی حمایت سے نہ صرف اپنی معیشت کو دوبارہ منظم کرنے میں کامیاب رہا بلکہ عسکری طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں بھی کامیاب رہاہے۔
نیٹو نے مشرق کی طرف توسیع کی ہے اور تمام طاقتوں نے اپنے فوجی اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیااور سامراجی طاقتوں کے درمیان اس قسم کی نئی سرد جنگ کاتصادم ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اسی وقت مغربی کیمپ میں اندرونی تقسیم مزید سامنے آگئی اور ابتدائی حکمت عملی کہ یوکرین کو اس حد تک مسلح کیا جائے کہ وہ روسی حملے کا مقابلہ کر سکے لیکن نیٹو اور روس کے درمیان کھلے عام تصادم سے بچانے کی حکمت عملی اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔
دو سال کے بعدجنگ تین ممکنہ پیشرفت کا باعث بن سکتی ہے۔ اول لیکن امکان نہیں کہ نیٹو اور مغرب اپنی مداخلت میں اضافہ کریں گے اور یوکرین میں کھلم کھلا مداخلت کریں گے یہ ایک ایسا تصادم ہوگاجو پوری جنگ کا کردار بدل دے گابلکہ عالمی جنگ کا خطرہ بھی پیدا کر دے گا۔ دوم جنگ وار آف پوزیشن کے طور پر جاری رکھی جائے، ایک بڑی مادی لاگت کے ساتھ لیکن محاذ پر زبردست نقل و حرکت نہ کی جائے۔ سوم سامراج کی طرف سے مسلط کردہ امن چاہے جنگ بندی کی صورت میں ہویاعارضی سمجھوتے یا مذاکرات کی صورت میں ہو جس کا مقصد تنازعہ کو منجمد کرنا ہو۔ یہ تینوں پیشرفت یوکرین بلکہ روس اور مغرب میں بھی محنت کش طبقے اور عوام کی قیمت پر ہوں گئیں۔
اس کے خلاف انقلابیوں کو جنگ کے منصفانہ اور جمہوری حل کی وکالت کرنے کی ضرورت ہے۔روس یوکرائین سے نکلے، مشرقی یورپ سے نیٹونکلے اور کریمیا اور ڈونباس علاقوں کے لیے حق خود ارادیت اور اسے ایک آزاد سوشلسٹ یوکرین کے طویل المدتی تناظر سے جوڑنا چاہیے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور چیز منصفانہ اور دیرپا امن نہیں لائے گی۔
جنگ کا کردار
جنگ دو عمل کو یکجا کرتی ہے ایک طرف ایک سامراجی طاقت کی طرف سے ایک نیم نوآبادیاتی یا انٹرمیڈیٹ ملک پر حملہ جس پراس نے تاریخی طور پر ظلم کیا ہے اور دوسری طرف یوکرائنی عوام کی اپنی خودمختاری اور خودمختاری کے دفاع میں منصفانہ مزاحمت ہے۔ اس کے ساتھ نیٹو اور روس کے درمیان بین سامراجی جدوجہد کی ایک مرتکز شدت ہے جو یوکرائنی اور روسی محنت کش عوام کی جانوں کی قیمت پر اپنے متعلقہ سامراجی مفادات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
مغربی سامراج نے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مشرقی یورپ میں پیش قدمی کی ہے اور 2014 سے یہ یوکرین میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے جب امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے کھل کر قوم پرست، مغرب نواز اور انتہائی دائیں بازو کی طاقتوں کو اقتدار حاصل کرنے کی حمایت کی تھی۔ یہ تنظیمیں میڈان کی خصوصیات اور روسی اور روسی بولنے والی آبادی کی طرف سے اس کے خلاف مزاحمت پر بات چیت جاری رکھیں گی۔ دریں اثنا ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ تنازعہ یوکرین پر مغربی تسلط اور 2014 کے بعد مشرقی یوکرین پر روس کے کنٹرول کی وجہ سے بڑھ گیا۔اس کے نتیجے میں ہونے والے تنازعے میں ہزاروں اموات ہوئی ہیں
2022 میں پوٹن کے حملے کا مقصد یوکرین کو ماسکو کے سامراجی کنٹرول میں واپس لانے کی کوشش تھی۔ نیٹو اور روس کا یوکرین میں ایک ہی مقصد ہے ملک اور اس کے عوام کو اپنے اپنے سامراجی مفادات کے تابع کرناہے۔ یوکرین کی بورژوازی کی اکثریت نے نیٹو سے تعلق بنانے کو ترجیح دی اور مزدوروں اور کسانوں کا اپنے اور اپنے سامراجی حمایتیوں کے مفادات کے لیے استحصال جاری رکھاہے۔
روس کے حملے کی زیادہ تر یوکرائنی بورژوازی نے مزاحمت نہیں کی۔ جارحیت کے پہلے دنوں میں مرکزی اور علاقائی حکام کی ایک بڑی تعداد ملک سے بھاگ گئی یا روسی قابضین کے ساتھ تعاون کیا۔ نیٹو طاقتوں نے زیلنسکی کو ”جلاوطنی میں یوکرین کی حکومت“ بنانے کے لیے پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
یوکرین کے محنت کش لوگوں نے اپنے ملک کا دفاع اپنے ہاتھ میں لے لیااور بہت سے شہروں اور خطوں میں نچلی سطح پر ”علاقائی دفاعی فورسز“کو منظم کیا۔ جارحیت پسندوں کے خلاف مزاحمت کے لیے یوکرین کے محنت کش عوام کی اس بڑی حمایت کے علاوہ یوکرینی فوج کی 2014 کے مقابلے میں بہت بہتر حالت تھی۔ مغربی سامراج نے اس فوج کو اس طرح سے لیس اور منظم کیا تھا کہ یہ اثر انگیزہو۔
مغربی سامراجیوں نے اس فوج کو اس طرح سے لیس اور منظم کیا تھا کہ انتہائی حوصلہ مند سپاہیوں کے ذریعے موثر مزاحمت ممکن ہو سکے۔ زیلنسکی خود کو جنگی کوششوں کی سربراہی میں لایالیکن یہ مقامی بورژوازی کی کی بدولت نہیں تھا کہ یوکرائنی عوام نے روسی افواج کو کیف پہنچنے سے روک تھا۔
دوسری طرف یوکرین کے محنت کش طبقے نے اگرچہ اس نے عوامی مزاحمت میں حصہ لیالیکن اس نے یوکرائنی بورژوازی کے خلاف اپنی سیاسی پوزیشن تیار نہیں کی۔
2014سے مغربی سامراج یوکرین کو مغربی یورپی اور امریکی سامراج کے زیر تسلط ملک میں تبدیل کر رہا ہے جس میں بڑے پیمانے پر فوجی حمایت بھی شامل ہے۔ ایک بار جب یوکرین کی مزاحمت نے یہ ثابت کر دیا کہ پوٹن آسانی سے فتح حاصل نہیں کر سکے گا، مغربی سامراج نے اپنے امکانات کا فوری طور پر دوبارہ تجزیہ کیااور یوکرین کی پہلے سے بھی بڑی اقتصادی اور فوجی حمایت کو تیز کر دیا۔
تاہم اس کی پالیسی نے جوا س نے آج تک برقرار رکھی ہے، اس کی حمایت کو اس طرح رکھا ہے تاکہ پوٹن کو نیچے گرایا جاسکے اور وہ جنگ نہ جیت سکے لیکن یوکرین کو حملہ آور پر فیصلہ کن فتح حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی ا نہیں خدشہ ہے کہ اس حکمت عملی سے آگے بڑھنا روس اور نیٹو کے درمیان عالمی سامراجی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔
مزید برآں اس طرح کی فتح کو لاکھوں یوکرینیوں کی اپنی جیت سمجھیں گئیں اگرچہ مغرب بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن روس اور تمام مشرقی یورپ میں جو عدم استحکام پیدا ہو گا وہ مغربی سامراج کی کوشش کے بالکل مخالف سمت میں جاسکتا ہے جو محنت کشوں کو آزادانہ طور پر لڑنے کی ترغیب دیتا ہے۔
زیلنسکی اور یوکرائنی بورژوازی نے جنگ کو یوکرائنی محنت کشوں کے خلاف اپنے پورے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں حکومت نے بنیادی مزدور، ٹریڈ یونین اور جمہوری حقوق کو ختم کر دیا ہے اور ایک ظالمانہ نیولبرل کفایت شعاری کی پالیسی کو نافذ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج اور انسانی امداد تک پر ڈاکہ ڈالنے والے بورژوا طبقے اور اس کی سیاسی حیثیت کی بدعنوانی کا بھی پردہ فاش ہو اہے۔
بدقسمتی سے یوکرین کی جنگ میں دنیا کا بائیں بازو تقسیم ہو چکا تھا۔ اس کے ایک اہم حصے نے روسی حملہ کے حق میں ”کیمپسٹ“کا موقف اختیار کیا کہ کسی نہ کسی طرح اسے مغربی سامراج کے حوالے سے ایک کم برائی کے طور پر پیش کیا۔ ایک اور حصے نے جنگ کو محض ایک عالمی سامراجی تنازعہ کے طور پر بیان کیاجس نے ایک غلط ”ڈیفیٹ ازم“کو اپنایا جس نے حقیقت میں انہیں حملہ آور کے کیمپ میں رکھا۔ عالمی بائیں بازو کے ایک تیسرے حصے نے یوکرین کے اپنے دفاع کے لیے نیٹو کی پالیسیوں کی حمایت کرنے یا اپنی حکومتوں سے ایسا کرنے کے لیے کہا۔
اگر یوکرین میں مداخلت کرنے والے سامراجی بلاکوں کے درمیان کھلی جنگ چھڑ جاتی ہے تو یوکرین کے عوام کی اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد ایک اورسطح پر پہنچ جائے گی۔ مقصد ختم نہیں ہو گا بلکہ اسے سامراجی جنگ کے خلاف انقلابی جدوجہد سے حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
لیکن فی الحال ایسا نہیں ہے اور نہ ہی مختصر مدت میں ایسا ہونے کا امکان ہے۔ یوکرین کی جنگ میں،ہمیں روس اور نیٹو ممالک کے درمیان کھلی جنگ کا سامنا نہیں ہے حالانکہ مغربی طاقتیں سب سے بڑھ کر امریکہ جنگ کے طریقہ کار اور مقاصد پر بڑا اثر و رسوخ رکھتاہے۔ تاہم یوکرین اور اس کے مزدوروں اور کسانوں کے لیے جنگ اب بھی بنیادی طور پر ایک جابر ریاست کے خلاف اپنے دفاع کی جنگ ہے۔ یوکرین سے باہرروس اور نیٹو کے درمیان تنازعہ ایک رجعتی کردار کا حامل ہے جس کی سوشلسٹوں کو مخالفت کرنی پڑتی ہے۔
ہم ایک اصولی انقلابی پالیسی کو برقرار رکھتے ہیں۔ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کوئی سامراجی طاقت ترقی پسند نہیں ہے اور نہ ہی کسی دوسرے سے کم برائی ہے۔ امریکی سامراج اور اس کی قیادت کرنے والا بلاک اب بھی دنیا کی سرکردہ طاقتیں ہیں۔ لیکن روس بذات خود ایک عالمی سامراجی طاقت ہے اور یوکرین میں اصل جابر قوت ہے۔
ہم یوکرائنی عوام کی مزاحمت ان کے حق کا دفاع کرتے ہیں کہ وہ جس طریقے سے ہو سکتا ہے اس جدوجہد کو جاری رکھیں اور ان کے حق خود ارادیت اور خودمختاری کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یوکرین کے عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زیلنسکی اور نیٹو پر عدم اعتماد کریں اور سیاسی حمایت نہ دیں، جو کہ جیسا کہ ان کی پالیسی واضح ہے کہ وہ صرف ان کا استحصال اور جبر کرنا چاہتے ہیں۔
یوکرین پر روسی حملے نے نیٹو کو دوبارہ منظم ہونے اور وسعت دینے کی اجازت دی۔ اس نے امریکہ کو اس بلاک میں ایک اہم کردار دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دی جو کمزور ہو رہا تھا۔ اس نے زیلنسکی کو اپنے نیو لبرل اور رجعتی پروگرام کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ جنگ جتنی دیر تک جاری رہے گی اور یوکرین کو حملہ آور کو نکالنے میں جتنا زیادہ وقت لے گا اتنا ہی زیادہ یوکرین کی حکومت کا مغربی سامراج پر انحصار بڑھے گا اور زیلنسکی اتنا ہی زیادہ اپنے رجعتی پروگرام کو آگے بڑھا سکے گا۔
اگرچہ محنت کش طبقے کو طویل جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن اسے سامراجی طاقتوں کی طرف سے مسلط کردہ ”امن“کو بھی مسترد کرنا چاہیے۔انقلابی مارکسسٹوں کو یوکرین کی جنگ کو منصفانہ اور جمہوری بنیادوں پر ختم کرنے کی وکالت کرنی چاہیے روس یوکرین سے باہرنکلے، عالمی سامراجی سرد جنگ نامنظور اور کریمیا اور ڈونباس کی آبادیوں کے لیے خود ارادیت۔ یہ ایک آزاد سوشلسٹ یوکرین کے طویل المدتی تناظر ہے کیونکہ اس سے کم کچھ بھی ایک منصفانہ اور دیرپا امن نہیں لائے گا۔
روسی سامراجی یلغار کی شکست
یوکرین سے روسی افواج باہر جائے
یوکرین کی مزاحمت کے منصفانہ جنگی مقاصد کی حمایت اور یوکرین کی خودمختاری کو تسلیم کیا جائے۔
کریمیا اور ڈونباس کے حق خود ارادیت کو تسلیم کریں۔
مغربی جنگ کے مقاصد نامنظور
سامراجی سرمائے کے ذریعہ یوکرین کی معیشت کو لوٹنا نامنظور!
یوکرین کا قرض منسوخ کریں!
نیٹو کی توسیع نامنظور! نیٹو کو ختم کرو!
یورپ کی ملٹرائزیشن نامنظور۔
آزادسوشلسٹ یوکرین۔
روس میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے۔
سوشلسٹ یورپ۔
انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (ISL)
انٹرنیشنل ٹراٹسکیسٹ اپوزیشن (ITO)
لیگ فار ففتھ انٹرنیشنل
(L5I)

Posted by

in