سوڈان میں خانہ جنگی کا پہلا سال

Posted by:

|

On:

|

تحریر:ڈیو اسٹاکٹن
سوڈان بھر میں ایک تباہ کن جنگ سال سے جاری ہے۔ اسے مغربی میڈیا نے بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہے اور 7 اکتوبر سے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے بعد اسے سرخیوں میں رکھا گیا ہے لیکن سوڈانی لوگوں کے مصائب کا موازنہ اس تنازعے سے ان کے گھروں سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد، شہری مظالم اور قحط کے آنے والے خطرے کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت خرطوم میں بہت سی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں اور شمالی دارفور کے دارالحکومت الفشر میں 40,000 لوگوں کو اپنے گھروں سے بھاگنا پڑا کیونکہ ریپڈ سپورٹ فورسز نے شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
اقوام متحدہ کے ذرائع ”اجتماعی قبروں، اجتماعی عصمت دری، گنجان آباد علاقوں میں اندھا دھند حملوں ” اور سوڈان کی 45 ملین آبادی میں سے 8.1 ملین کے بے گھر ہونے کی بات کرتے ہیں، بشمول کم از کم 1.76 ملین جو چاڈ جیسے غریب پڑوسی ممالک میں بھاگ گئے ہیں۔ 17 فروری 2024 تک 10,700 مشتبہ کیسوں کے ساتھ ہیضے سے کم از کم 292 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دی مڈل ایسٹ آئی کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق جب سے لڑائی شروع ہوئی ہے سوڈان کی 37 فیصد کھیتی باڑی نہیں ہوئی ہے اور ملک کی گندم کی پیداوار میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔ بھوک اور قحط نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور، اگرچہ 15 اپریل کو پیرس میں ایک ڈونرز کانفرنس نے £1.7bn کی امداد کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس کی فراہمی مشکل ہو جائے گی کیونکہ متحارب کمانڈروں نے اپنے ہی فوجیوں کے لیے سامان ضبط کر لیا ہے۔
جنگ کیسے شروع ہوئی
اپریل 2023 میں سوڈانی مسلح افواج ایس اے ایف جس کی سربراہی جنرل عبدالفتاح البرہان کر رہے تھے اور ان کے نائب محمد حمدان دگالوجو ہمدتی کے نام سے مشہور ہیں اورنیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ ہیں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ انہوں نے اکتوبر 2021 میں عبداللہ حمدوک کی سویلین حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد سے فوجی حکومت کی سربراہی کی تھی۔
جنگ دارالحکومت خرطوم کے اندر شروع ہوئی لیکن یہ تیزی سے سوڈان کے دیگر حصوں بشمول دارفور،پورٹ سوڈان اور دسمبر 2023 تک پہلے سے پرامن گیزیرہ ریاست تک پھیل گئی جو ملک کا زرعی مرکز ہے نیلے اور سفید دریائے نیل کے سنگم پرہے۔

البرہان اور دگالو دونوں پہلی بار 2003 اور 2008 کے درمیان دارفور میں ہونے والی خونریز جنگ کے دوران فوجی لیڈروں کے طور پر سامنے آئے جس میں 300,000 افراد ہلاک اور 25 لاکھ مہاجر بن گے تھے۔ ڈگالو نے بدنام زمانہ جنجاوید ملیشیا کی قیادت کی جس نے دارفور کی سونے کی کانوں کی لوٹ مارہوکے ساتھ ساتھ بدترین مظالم کا ارتکاب کیاتھا۔
لیکن دونوں چور میں لڑائی ہوگئی بظاہر البرہان کی جانب سے دارفور اور خرطوم میں آر ایس ایف کو اپنی کمان میں لانے کی کوشش پر ڈاگاؤ نے محسوس کیا کہ اس کا مطلب دارفور کی دولت بشمول اس کے سونا، معدنیات، تیل اور زرعی مصنوعات تک رسائی دینا ہے۔
بیرونی افواج
ان بدعنوان رہنماؤں کے درمیان تصادم جزوی طور پر حریف سامراجی گروہوں کی حمایت کی وجہ سے تھا جو سوڈان کی دولت اور سٹریٹجک مقام تک رسائی کے خواہاں تھے۔ امریکی سامراج اور اس کے یورپی اتحادیوں کو چین اور روس کا سامنا ہے اس کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور ایران جیسی علاقائی طاقتوں نے سوڈان میں مداخلت کی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق متحدہ عرب امارات خفیہ طور پر آر ایس ایف کو ہتھیار بھیج رہا ہے۔
درحقیقت سوڈان بذات خود بحران کے اس قوس کا صرف ایک حصہ ہے جو ساحل کے پورے خطے میں مغرب کی طرف پھیلا ہوا ہے جس میں چاڈ، مالی، برکینا فاسو اور نائجر کی ریاستوں نے فوجی بغاوتیں دیکھی ہیں جس کے نتیجے میں فرانسیسی نیم نوآبادیاتی تسلط کا خاتمہ ہوا اکثر روس عسکری طور پراور چین کی مالیات اور تجارت میں مدد سے والا یہ علاقہ مشرق کی طرف سے یہ بحیرہ احمر اور ہارن آف افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔
وہاں بھی ریاستیں تنازعات اور دشمنی سے بھری پڑی ہیں۔ ایتھوپیا، اریٹیریا، صومالی لینڈ اور صومالیہ سبھی نے جزیرہ نما عرب کی انتہائی امیر کرایہ دار ریاستوں کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے یا اس کے لیے کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ یقیناً یمن کے حوثی غزہ کی جنگ میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یہ ریاستیں تزویراتی طور پر آبنائے باب المندب کے قریب یا اس پر واقع ہیں جو بحر ہند کو بحیرہ احمر سے جوڑتا ہے اور پھروہاں سے نہر سویز تک۔ دنیا کی 20 فیصد کنٹینر شپنگ اس چوک پوائنٹ سے گزرتی ہے۔
اہم اسباق
مختلف سطحوں پریہ تمام پیش رفت سوڈانی جمہوری انقلاب کی شکست کا نتیجہ ہے یا اس کی حریف سوڈانی جنگجوؤں کی طاقت کو توڑنے میں ناکامی اورمحنت کش طبقے کی طاقت کی طرف بڑھنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔
۔2018 کا آخر اور 2019 کو دنیا نے ایک عوامی بغاوت کے طور پر دیکھاجس میں طلباء، محنت کش اور خواتین شامل تھیں جنہوں نے تیس سال سے برسراقتدار رہنے والے صدر عمر البشیر کی فوجی اسلامسٹ پارٹی کی حکومت کو چیلنج کیا۔ نوجوانوں کی زیرقیادت محلہ مزاحمتی کمیٹیوں کی جانب سے گلیوں کی سطح پر احتجاج کا اہتمام کیا گیا۔ اپریل میں البشیر کو فوج نے معزول کر دیا تھا۔ 21 اپریل 2019 کویہ عبدالفتاح البرہان ہی تھے جنہوں نے ایک عبوری فوجی کونسل کا اعلان کیا اور ”بغاوت اور انقلاب کی تکمیل“کا وعدہ کیا کہ وہ ”اقتدار عوام کے حوالے کرنے کے لیے پرعزم ہیں“ یقیناً یہ ایک ڈھٹائی کا جھوٹ تھا۔
اس سال کے اختتام تک بڑے مظاہرے ہوئے اور اس کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہے۔ اکتوبر 2019 میں عبد اللہ حمدوک کی سربراہی میں ایک سویلین حکومت قائم کی گئی۔ تاہم یہ واضح تھا کہ یہ اب بھی البرہان کی سرپرستی میں تھی۔ ایک بے چین دوہری طاقت دو سال تک چلتی رہی جس کے دوران ہمدوک نے سوڈان کے غیر ملکی قرض دہندگان کی طرف سے مقرر کردہ معاشی اصلاحات نافذ کرکے اپنی عوامی حمایت ختم کردی۔ آخر کار اس نے جنوری 2022 میں استعفیٰ دے دیااور اس نے فوج کو دوبارہ اقتدار منتقل کردیا جب تک یہ آر ایس ایف اور ایس اے ایف کے درمیان تقسیم نہ ہو گئی۔
چار سال پہلے لکھے گئے ایک مضمون میں ہم نے عرب بہار کے انقلابات خاص طور پر ان سب میں سے سب سے بڑے انقلاب مصرسے نتائج اخذ کیئے تھے۔ وہاں چونکہ عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں فوجی اعلیٰ کمان نے فوج کے سپاہیوں پر اپنی طاقت برقرار رکھی اس لیے اخوان المسلمون کے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کے بعد تیزی سے فوجی آمریت مسلط ہوئی جو حسنی مبارک سے بھی بدترہے۔
ہم نے کہا: ”سوڈانی انقلابی بلاشبہ مصر، شام، یمن اور لیبیا میں 2011 کی عرب بہار کے انجام کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے جہاں نوجوان انقلابیوں کی ہمت کے باوجود پرانی حکومت کی وحشیانہ واپسی سے ان کی تحریکوں کو کچل دیا گیا تھا۔جب تک فوج کی اعلیٰ کمان، اسلام پسند جماعتیں اور ریاستی بیوروکریسی برقرار رہے گی توچاہے ان کے موجودہ رہنما سبکدوش ہو جائیں یا الگ ہو جائیں ردِ انقلاب کا خطرہ موجود رہے گا۔ اس کا واحد جواب ایک انقلاب ہے جو ہر طرح ریاست کی جابرانہ طاقت کو توڑ دیتا ہے اورکرپٹ سرمایہ دار طبقے سے معیشت کا کنٹرول چھین لیتا ہے اور اقتدار محنت کش لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہے۔
سوڈان میں وحشیانہ خانہ جنگی ایک نامکمل انقلاب کا نتیجہ ہے، جس نے ایک بار پھر فرانسیسی جیکوبن لوئس سینٹ-جسٹ کے اس قول کی تصدیق کی ہے، ”جو لوگ انقلاب کوادھور کرتے ہیں وہ صرف اپنی قبریں کھودتے ہیں“۔ خانہ جنگی کے سخت حالات میں اور غیر ملکی قوتیں متحارب فریقوں پر جو بھی رجعت پسندانہ معاہدہ مسلط کرتی ہیں۔ان سے قطع نظرسوڈانی انقلابیوں کو گزشتہ برسوں سے سبق سیکھنے اور اسے ایک پروگرام اور جماعت میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
ان اسباق میں فوج کو برقرار رکھنا کا بہت ایک بہت بڑا خطرہ ثابت ہوا یعنی لیننسٹ الفاظ میں ”بیوروکریٹک ملٹری سٹیٹ مشین کونہ توڑنا“ اس کے ساتھ بورژوا اور پیٹی بورژوا طبقے کے ساتھ اتحاد اور ان کے ماتحت ہونے کی سٹالنسٹ پاپولر فرنٹ کی حکمت عملی انتہائی مہلک ہے۔ حتیٰ کہ اس دوران بھی جس کا آغاز ”جمہوری“ انقلاب کے طور پر ہوتا ہے اپنے جمہوری اہداف کو حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے اور اس کے لیے انقلاب کو انقلاب مسلسل یعنی محنت کش طبقے کی طاقت اور سوشلسٹ فرائض کی طرف بڑھنا ہوگا۔

Posted by

in