جنگ کی حمایت،اصلاح پسندی اور انقلابی سوشلزم

Posted by:

|

On:

|

, ,

تحریر:شہزاد ارشد

کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کیمونسٹ پارٹی مارکسسٹ نے آپریشن سندور کی حمایت کی ”سی پی آئی نے کہا”کہ بھارت کے پاس ایسے دہشت گردی کے ماخذکے خلاف سختی سے جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ حملوں کی نوعیت دانستہ تھی، پاکستانی فوجی تنصیبات نہیں کیئے گے اور صرف دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے یہ ایک متوازن اور غیر اشتعال انگیزطریقہ کار کو ظاہر کرتی ہے جس کا مقصدجوابدہی کو یقینی بنانا ہے اور کسی بڑے تنازعے کو دعوت نہیں دینا ہے“۔
سی پی آئی(ایم)نے کہا کہ”سیاسی حلقوں میں بھارتی سیاحوں کے پہلگام میں بہیمانہ قتل کے جواب میں کارروائی کرنے کی ضرورت پر ایک متفقہ رائے پائی جاتی ہے۔ بھارتی حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ عوام کی یکجہتی اور ملک کی سالمیت کا تحفظ کیا جائے“۔
ان بیانات نے برصغیر میں ریڈیکل سیاست کرنے والوں کو صدمے سے دوچار ہیں۔کیمونسٹ پارٹیوں نے پہلگام میں ہونے والا حملہ کا جوازبنا کر آپریشن سندور کا دفاع کیا ہے اور انہوں نے کشمیر اور پاکستان میں مودی کی ہندوتوا سرکار کے حملوں کی حمایت کی ہے۔یہ مودی سرکارکے اسلامی جہاد اور دہشت گردی کے بیانیہ کو قبول کرتے ہیں اوریوں یہ اس جنگی جنون کی مخالفت نہیں کرتے جو مسلم دشمنی پر مبنی ہے اور کشمیر و پاکستان کو غزہ بنانے کا مطالبہ کررہا ہے۔کیونکہ ان کے مطابق مودی کی ہندوتوا کی پالیسیوں کی نسبت اسلامی جہاد زیادہ خطرناک ہے۔
۔ 2019 میں آڑیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے کشمیر کو ایک جیل خانے میں بدل دیا گیا ہے اوراس وقت وہاں 7لاکھ سے زائد فوج تعینات ہے۔ کشمیریوں کو جبری طور پرغائب کرنے، ان کے فیک انکونٹراور ان پرریاستی جبروتشدد میں بے انتہاء اضافہ ہوا ہے۔ یہ حملہ اور مزاحمت کشمیر پر بھارت کے قبضے و جبر اوراسے بنیادی حق خودارادیت سے بھی محروم کرنے کی وجہ سے ہے۔اس لیے کشمیری قوم کی مزاحمت کو پاکستان پر ڈالنا(پاکستانی ریاست کے رجعتی کردارسے انکار نہیں ہے) یا اسے اسلامی شدت پسندی قرار دینا حقیقت میں کشمیر پر بھارتی قبضہ کو جواز دینا ہے اور یہی بھارتی کیمونسٹ پارٹیوں نے کیا۔
پاکستان میں حقوق خلق پارٹی سمیت لیفٹ کی دیگر پارٹیوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں اپنی ریاست کی حمایت کے لیے مودی کے نیولبرل ہندوتوا فاشزم اور اس کے امریکہ اور اسرائیل سے گٹھ جوڑ کوجواز کے طور پر پیش کیا۔ان کے مطابق خطے میں امن اور ترقی کے لیے یہ ایک بڑا خطرہ ہے اسی لیے ان کے مطابق ہمیں اپنی ریاست کا ساتھ دینا چاہیے جو ہندوتوافاشزم کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ یہ پوزیشن اختیار کرتے ہوئے یہ پاکستانی ریاست کے کشمیر کے متعلق عزائم کو نظرانداز کرتے ہیں جو کشمیر کو شہہ رگ قرار دئے کر اسے پاکستان کا حصہ بنانا چاہتی ہے یا کم از کم پاکستانی زیرانتظام کشمیراور گلگت بلتستان کو لازمی طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے یہ کہتے ہیں کہ اس وقت ہماری پوزیشن عالمی صورتحال کے تابع ہونی چاہیے ہے۔اس لیے فی الاوقت بلوچ اور پشتون پر جبر وتشدد، جمہوری حقوق پر پابندیوں اور فوج کے حکومت پر کنٹرول اور نفرت انگیز سیاست کے خلاف جدوجہد نہیں کی جاسکتی ہے۔
حقوق خلق پارٹی اور دیگر کے مطابق ایک طرف امریکہ،مودی اوراسرائیل کا اتحاد ہے اور دوسری چین اور پاکستان کا اتحاد ہے اس لیے ہمیں موجود عالمی سیاسی صورتحال میں امریکہ اور مودی کے ہندوتوا کے عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستانی ریاست اور چین پر انحصار کرنا ہوگا۔ پاکستان میں لیفٹ کے جس حصے نے جنگ میں اپنی ریاست کی حمایت کی ہے یہ محنت کش طبقہ کی یکجہتی سے انکار کرتے ہیں اور ان کے مطابق محنت کش طبقہ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ مودی کے ہندتوا فاشزم کا مقابلہ کرسکے۔
بھارت اور پاکستان میں لیفٹ کے جن حصوں نے جنگ کی حمایت کی ہے یہ کشمیر پر اپنی ریاست کے قبضے کے خلاف نہیں ہیں یعنی ان کی قومی سوال پر پوزیشن نوآبادکارکی حمایت میں ہے۔بھارت کی صورت میں یہ بہت واضح ہے جہاں کیمونسٹ پارٹیاں کشمیر کے حق علیحدگی کے حق کو مسترد کرتی ہیں۔پاکستان کا لیفٹ کشمیرپر پاکستان کے کنٹرول کے سوال کو سامنے نہیں لاتا اور اس کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے بھارت کا کشمیریوں پر جبروتشدد کتنا شدید ہے جس سے انکار نہیں ہے لیکن پاکستانی زیر انتظام کشمیر پر یہ واضح پوزیشن نہیں لیتے ہیں اوریوں کشمیر پر ریاست کے حامی بن جاتے ہیں۔
ان کی سیاست کی تمام تر ریڈیکل نعرہ بازی کے باوجود یہ سامراج،سرمایہ داری اور ریاست کے فریم ورک میں کام کرتے ہیں۔ بھارت میں کیمونسٹ پاڑٹیاں ایک طویل عرصے سے مختلف ریاستوں میں اقتدار میں رہی ہیں اور بنگال میں تو انہوں ترقی کے نام پر کسانوں سے زمینیں چھینے کے لیے ان پر حملے بھی کیئے اوریہ سیکولرازم کے نام پر کانگرس کی حمایت کرتے ہیں جو حکمران طبقہ کی پارٹی ہے۔ پاکستان میں حقوق خلق پارٹی اور دیگر جو جنگ میں ریاست کی حمایت کررہے ہیں یہ بھی سمجھتے ہیں کہ الیکشن کی سیاست سے تبدیلی ممکن ہے یعنی اسی نظام میں بہتری لائی جاسکتی ہے اوران کی سامراج مخالفت بھی امریکی سامراج تک محدود ہے یہ چینی سامراج کی مشرق سے ابھرنے والے ملک کے طور پر حمایت کرتے ہیں جو امریکی بالادستی کو چیلنج کررہا ہے۔ یہ چین کی ترقی یا سری لنکا میں جے وی پی کے ماڈل کی حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کے عہد میں یہ ایک اہم فتح ہے یعنی یہ سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کو قبول کرتے ہیں لیکن اسے انسانی چہرہ دینا چاہتے ہیں اوریہی ان کا سوشلزم ہے۔ عام حالات میں جب یہ سرمایہ داری، امریکی سامراج یا ریاست کے کچھ پہلوں پر تنقید کرتے ہیں تو یہ کافی ریڈیکل نظرآتے ہیں البتہ جنگ کی حدت نے ان کو بے نقاب کردیا ہے کہ یہ عالمی محنت کش طبقہ کے مفاد کی مخالف سمت میں کھڑے ہیں۔
انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ فوجی تصادم اور اس کے نتیجے میں جو جنگی جنون ہے اس کے دباؤ میں سوشل شاونسٹ پوزیشن اختیار کرکے ہی محنت کش طبقے سے غداری نہیں کی ہے بلکہ یہ محنت کش طبقہ کے مفاد اور انقلاب سے پہلے ہی غداری کرچکے تھے۔یہ موجود صورتحال یا حالات کا دباو نہیں ہے جو ان کو جنگ کی حمایت میں لاتا ہے بلکہ یہ ان کی اصلاح پسند سیاست ہے جو ان کو اپنی ریاست کی جنگ کی حمایت میں لاتی ہے۔
پہلگام حملے کی لیفٹ نے عمومی طور پر مذمت کی ان میں وہ بھی شامل ہیں جو جنگ مخالف ہیں ان کے مطابق دہشت گردی کی ہمارے سماج،خطے اور دنیا بھر میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔یہ نکتہ نظر قبضے کے خلاف کشمیری قوم کی مزاحمت کی مخالفت کرتا ہے اور یہ لا شعوری طورپر بھارتی ریاست کے موقف کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ نوآبادکار کے کنٹرول اور تشدد کے حق کوتسلیم کرتاہے جبکہ مزاحمت کو مجرمانہ کاروائی قرار دیتا ہے۔ یہ اخلاقی نکتہ نظربھارت اور پاکستانی لبرل لیفٹ کے ایک بڑے حصے میں پایا جاتا ہے۔یہ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ کشمیر میں مسلح حملہ وجہ نہیں بلکہ قبضے کا نتیجہ ہے یعنی جب مظلوم اقوام کی مزاحمت کے تمام پرامن راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو وہ اکثر مسلح جدوجہد کا سہارا لیتے ہیں۔
انقلابی سوشلسٹ شہریوں پر حملوں کی مخالفت کرتے ہیں لیکن تشدد کی وجہ کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بھارتی فوجی قبضے اور جبروتشدد کا نتیجہ ہے اور اس کی مذمت کی بجائے ریاست کے جبر وتشدد کو سامنے لایا جائے۔اسی طرح بھارتی قبضے کے تحت ”امن”اور ”مذاکرات”کی اپیلیں دراصل نوآبادکارکو فائدہ دیتی ہیں کیونکہ یہ کشمیریوں سے مذاکرات کے آغاز سے پہلے ہی ان کے مزاحمت کے حق کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ یہ ایک ناقابل مصالحت تضاد کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو نوآبادکار اور نوآبادی کے درمیان ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *