تحریر:عمران جاوید
پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیرمیں ایک سال سے جاری تحریک نے تمام تر بربریت،جبر،تشدد اور گرفتاریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مستقل مزاجی سے جدوجہد کو جاری رکھا اور حکمران طبقہ کو جھکنے پر مجبور کردیا۔عوامی جدوجہد نے ریاست کو مفلوج کردیا اور حکمران مظفرآباد سے فرار ہوگے۔لاکھوں عوام کی تحریک کے سامنے تمام تر حربے ناکام ہوگے،پولیس تشدد اور گرفتاریاں عوامی طاقت نے ناکام بنا دئیں۔سرکاری افسران نجی گاڑیوں میں سفر کررہے تھے طاقت کا مرکزریاست سے عوام کی طرف منتقل ہوگیا۔رینجرز کی بربریت ناکام ہوگی جس میں تین نوجوانوں کی شہادتیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔یہ تحریک کو پرتشدد طریقہ سے ختم کرنے کے لیے آخری حملہ تھا لیکن عوامی کی مزاحمت نے رینجرز کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
عوامی جدوجہد
ایک سال سے جاری اس تحریک نے احتجاجی دھرنوں،ہڑتالوں اور عوامی ریلیوں کے ذریعے جدوجہد کو جاری رکھا اور یہ کشمیر کے طول عرض میں پھیل گئی۔مذاکرات کے عمل کو طول دئے کر تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی اور قیادت کی کمزور حکمت عملی کے باوجود تحریک طاقت ور ہوتی گئی۔قیادت کی مصالحت کی کوششیں اور مطالبات کی ادھوری منظوری بھی تحریک کو ختم نہ کرسکی اور تحریک مزید مظبوط ہوگی اور قیادت پر عوامی دباؤ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔معروف ترقی پسند اور قوم پرست راہنما توقیر گیلانی کے مطابق عوامی تحریک کی کامیابی کا کریڈٹ کسی قیادت یا پارٹی کی بجائے عوامی جدوجہد اور جذبے کو جاتا ہے۔
ان حالات میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 11مئی کو مظفرآبادکی طرف لانگ مارچ کی کال دی تھی۔پچھلے سال مئی میں بجلی کے بلوں کے خلاف تحریک کا آغازپونچھ سے ہوا،پونچھ حالیہ برسوں میں سستے آٹے اور سستی بجلی کے لیے شروع ہونے والی تحریکوں کا مرکز رہا ہے جبکہ مظفر آباد اور میرپور میں ان تحریکوں کا اثر محدود ہی رہا ہے۔اس دفعہ بجلی کے بلوں میں اضافہ کے خلاف احتجاجی تحریک کااثر مظفرآباد اور میر پور میں بھی محسوس کیا جارہا تھا اور سال بھر میں جوئنٹ ایکشن کمیٹی نام نہاد آزاد کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات میں منظم ہوگی اور ہر ماہ یہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے لیے احتجاج کرتے رہے ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو بھی اتنے شاندار تحرک کی امید نہیں تھی لانگ مارچ کے فیصلہ اور اس کی تیاری میں عوامی جوش وجذبہ کو محسوس کرتے ہوئے نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران خوف ذدہ ہوگے اور انہوں نے حکومت پاکستان سے ایف سی اور پی سی کے جتھے بھیجنے کی درخواست کی۔اس خبر نے عوام کو مشتعل کردیا اور 6مئی کواس کے خلاف کشمیر بھر میں احتجاجات ہوئے۔
تشدد اور گرفتاریاں
جمعرات 9مئی کی صبح 3بجے کے بعد پولیس نے میرپور ڈویژن کے تینوں اضلاع اور تحصیلوں میں چھاپے مارے اور سرگرم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ان گرفتاریوں کے خلاف ڈڈیال، نکیال، تتہ پانی اور دیگر شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاج شروع ہوگیا۔ڈڈیال میں مظاہرین پر پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شدید شیلنگ کی۔جس کی وجہ سے متعدد مظاہرین زخمی ہوئے اور گورنمنٹ ہائی سکول کی درجن سے زائد طالبات آنسو گیس کی شیلنگ کے باعث بے ہوش ہو گئیں۔احتجاجی مظاہرین نے اس بربریت کے خلاف اسسٹنٹ کمشنر سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ڈڈیال شہرمیں دن بھر احتجاجی مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔گرفتاریوں کا یہ سلسلہ پورے کشمیر میں پھیل گیا اوربڑی تعداد میں طالب علم راہنماؤں،تاجروں اور سیاسی ورکرز کو گرفتار کرلیا گیا۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے جمعہ والے دن رات 12بجے سے کشمیر بھر میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ ہڑتال غیر معینہ مدت تک جاری رہے گی اور اس دوران مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی منعقد کئے جائیں گے۔ رہنماؤں نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فیصلہ کن لڑائی کی تیاری کریں۔طلبہ ایکشن کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے جن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے فیصلے کے مطابق شٹر ڈؤان ہڑتال کو منظم کرنے میں ہراول کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت تمام ضلعی بار ایسوسی ایشنز نے بھی اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔یہ ہڑتال لانگ مارچ کے مظفرآباد میں پہنچنے اور مطالبات کی منظوری تک جاری رہی۔
ہڑتال اور لانگ مارچ
جمعہ کے روزکشمیر بھر میں تمام چھوٹے بڑے شہروں میں نظام زندگی مکمل طور پر معطل رہااور جموں کشمیر کو پاکستان سے ملانے والی تمام سڑکوں پر ٹریفک بند رہی۔ ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور ریاستی جبر کے خلاف احتجاج اور نعرہ بازی کرتے رہے۔11مئی کو شیڈول کے مطابق لانگ مارچ شروع ہوگیاجب یہ لانگ مارچ راولاکوٹ پہنچ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق بھی اس میں لاکھوں مظاہرین موجود تھے دیگر اضلاع سے شامل ہونے والے شرکاء نے لانگ مارچ کی کیفیت ہی بدل دی یہ نام نہاد آزاد کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی بغاوت ہے اور وزیر اعظم نے 13مئی کی شام کو ہی دو اہم مطالبات کی منظوری دئے دی۔
کشمیر حکومت نے ایف سی اور پی سی کے بعد ینجرز سے بھی مدد مانگی جس کے بعد تین کمپنیاں جموں کشمیر میں داخل ہوئیں۔حکمران ہر حربہ استعمال کررہا تھا تاکہ تحریک کو ختم کیا جاسکے۔لیکن تحریک کی طاقت اور حمایت کی وجہ سے یہ لانگ مارچ کو مظفر آباد میں داخلے سے نہیں روک پائے حالانکہ کہ رینجرز عوام پر آنسو گیس کے شیل اور براہ راست فائرنگ بھی جس میں تین سے زیادہ لوگ شہید ہوئے۔
کامیابی
یہ تحریک منگلا ڈیم کی پیداواری لاگت پر ٹیکس فری بجلی کی فراہمی، آٹے کی گلگت بلتستان کے ریٹس کے مطابق فراہمی اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی تھی۔اس تحریک کے عظم اور جدوجہد کی وجہ سے بجلی کی قیمت گھریلو صارفین کیلئے 3 سے 6 روپے فی یونٹ اور کمرشل صارفین کیلئے 10 سے 15 روپے فی یونٹ مقرر ہوئی اور آٹے کی قیمتوں میں 1100 روپے فی 40 کلو کمی کا فیصلہ ہوا۔ 10 ماہ سے بائیکاٹ شدہ بلوں پر ریلیف کے ساتھ آسان اقساط میں وصول کرنے کا فیصلہ ہوا اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کیلئے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔
اسباق
پیپلزپارٹی سمیت تمام دیگر الحاق نواز پارٹیاں اس جدوجہدکو بیرونی ایجنڈا قرار دئے رہیں ہیں اور حکمران طبقہ نے اسے انڈیا کی سازش بھی قرار دیا اور مختلف طریقوں سے تحریک کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کی کہ عوام اس کٹ جائے لیکن عوامی جدوجہد نے حکمران طبقہ کے بیانئے کو ختم کردیا اور عوام جوق درجوق تحریک میں شامل ہوتے گئے۔
اس تحریک نے نام نہادآزادکشمیرکے خودمختاری کی حقیقت واضح کردی کہ کس پاکستان کی حکومت ہر معاملے میں فیصلہ کن کردار کی حامل رہی اور کشمیر کے قومی جبر کو واضح کردیا۔اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہوا کہ عوامی جدوجہد سے حکومت کو شکست دی جاسکتی ہے اور مطالبات کو منظور کروایا جاسکتاہے چاہیے آئی ایم ایف کا کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ہوجدوجہد اور انقلاب کی آہٹ ہی سب کچھ بدل کررکھ دیتی ہے۔
یہ بھی واضح ہوا کہ ریاست کے ادارے کس طرح عوام کے مفادات کی بجائے سرمایہ اور سامراجی مفادات کے نگبہان ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ بھی عوام کی ترجمان نہیں ہوتی ہے اور وہ سرمایہ کے مفاد کو اولیت دیتی ہے۔یہ سب کشمیر کے عوام نے پچھلے ایک سال کی جدوجہد میں سیکھا اور انہوں ایسا ادارہ تخلیق کیا جس نے انہیں فتح دلائی۔اس فتح نے عوام کو بے پناہ اعتماد دیا ہے۔اس جدوجہد کی روایت کو پاکستان بھر میں پھیلنے کی ضرورت ہے کیوں یہاں بھی عوام مہنگائی اور مہنگی بجلی سے تنگ ہیں اور بار بار اس کے خلاف جدوجہد میں بھی آرہے ہیں۔
کیا کیا جائے؟
اس تحریک کی کامیابی نے سیاسی جمود کو توڑا ہے سیاسی کارکنان کی ایک بڑی تعداد جدوجہد میں سامنے آئی ہے۔تاہم اس کامیابی کے باوجود حکومت اور ریاست موجود ہے جو پلٹ کر وار کرنے کے لیے مواقع کی تلاش میں ہے ابھی سے کشمیر کے لوگوں اور پاکستان کے محنت کش طبقہ میں اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ان حالات میں جہاں اس سب سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے وہاں خود میں عوامی کمیٹیوں کووسیع اور جمہوری طور پر منظم کرنے کی ضرورت ہے جو اس نام نہاد اسمبلی کو مسترد کرتے ہوئے نئی آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کرئے جس میں کشمیر کے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں یعنی معاشی جدوجہد کو قومی آزادی اورسرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں بدلنا ہوگا۔
تحریک کی شاندار جدوجہد اور اس میں ترقی پسند اور قوم پرست کارکنان اور پارٹیوں کی موجودگی کے باوجود ایک انقلابی پارٹی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔اس کو دور کرنے کے عوامی ایکشن کمیٹی اور جدوجہد میں موجود ترقی پسندسیاسی کارکنوں اور پارٹیوں کو ایک کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت ہے جس میں جموں کشمیر کی عوامی جدوجہد کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا کے ساتھ انقلابی پروگرام پیش کرنا ہوگا جو سرمایہ کی بالادستی سے انکار اور ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کا ہولیکن اس کے لیے ایک انقلابی پارٹی میں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔