لیگ فار دی ففتھ انٹرنیشنل
خواتین کی محنت کش طبقے اور جمہوری جدوجہد میں ہراول کردار
ایران میں انہوں نے جبر اور علما کی آمریت کے خلاف ایک عوامی بغاوت کی قیادت کی ہے۔
امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک میں انہوں نے اسقاط حمل کے حقوق پر حملوں کے خلاف جدوجہد کو منظم کیا ہے۔
یوکرین اور روس میں وہ پوٹن کے سامراجی حملے کے خلاف جدوجہد میں ہراول ہیں۔
برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتالوں کے مرکز پر ہیں اور صحت کی خدمات اور پنشن کے حقوق کے دفاع میں بڑے پیمانے پر متحرک ہیں۔
خواتین انتہائی دائیں بازو اور رجعت پسند پاپولسٹ بوناپارٹسٹ حکومتوں جیسے بولسونارو اور مودی کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
نیم نوآبادیاتی دنیا میں وہ غربت، بھوک،ماحولیاتی کی تباہی، رجعتی جنگوں اور اپنے بنیادی حقوق سے انکار کے خلاف متحرک ہوئے ہیں۔
اکثر یہ نوجوان خواتین، طالب علم، محنت کش طبقے کی خواتین اور غریب ہی ہوتے ہیں جو اجتماعی طور پر سامنے آتے ہیں اور ان تحریکوں کا مرکز بنتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خواتین اس طرح کی جدوجہد میں سب سے آگے ہیں۔ اکثر وہ متعدد بحرانوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں ہماری زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔
بہت سے معاملات میں پچھلے سال میں صورتحال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یوکرین میں جنگ نے عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم کو تیز کر دیا ہے جس سے دنیا کی ارسرنوتقسیم کی جدوجہد میں ایک نیا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ جنگ اور دونوں طرف سے لگائی گئی پابندیوں نے عالمی سطح پر ایک نئے معاشی اور سماجی بحران کا آغاز کر دیا ہے جس پیمانے پر مہنگائی ہوئی ہے یہ پچھلے 50 سال سے سامراجی مراکز میں نہیں دیکھی گئی اور انتہائی مہنگائی سونامی کی طرح گلوبل ساوتھ کو متاثر کررہی ہے۔
جنم لیتی تباہی
کویڈ19 اب بھی خواتین کو درپیش چیلنجوں کے ہر پہلو پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے اثرات کا مطلب دنیا بھر میں لوگوں کے لیے بیماری اور اموات کی شرح میں اضافہ ہے۔ خواتین کے لیے اس کا مطلب ہے بہتر طور پردیکھ بھال کے لیے بڑھتے ہوئیبوجھ کا اضافہ اور بدتریہ ہے کہ ان کا وجود ہی کچل کارہا ہے۔ وہ اکثر اپنی ملازمتوں اور ابتدائی تحفظ سے محروم ہو چکی ہیں جو نوکری کی وجہ سے انہیں حاصل تھا۔ لاک ڈاؤن، متحرک سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کی عدم موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ وہ خواتین جو اپنے خاندانوں کی دیکھ بھال کرنے پر مجبور تھیں اور اپنے کام کی جگہوں سے بے دخل ہو گئیں۔ سامراجی ممالک میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے خاص طور پر محنت کش طبقے کی غریب پرتوں میں اور ان کو زندہ رہنے کے لیے اپنی معمولی بچت کا استعمال کرنا پڑا ہے۔
نیم نوآبادیاتی ممالک میں یہ اور بھی سنگین نتائج کا باعث بنا ہے۔ ہیلتھ کے نظام تک لوگوں کی رسائی مشکل تر ہوگئی، نیز سامراجی ممالک کی جانب سے ویکسین اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد سامراجی مراکز کی نسبت بہت زیادہ تھی۔
ایک ہی وقت میں بیماری اور جنگ کے براہ راست اثرات کے علاوہ وسیع پیمانے پر ممالک میں خواتین کے حقوق پر مسلسل حملے ہوتے رہے ہیں۔ امریکہ میں تولیدی حقوق پر حملہ اور ترکی کا خواتین پر تشدد کے استنبول کنونشن سے دستبرداری اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں پولیس افسران کے قتل، عصمت دری اور بدسلوکی جیسے جرائم بھی سامنے آئے۔
یہ سب 2022 میں مہنگائی میں زبردست اضافے اور ایک اور معاشی بدحالی کے آغاز کے ساتھ شدت اختیار کر گیا۔ یہ نہ صرف کویڈ19 کے بعد پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا نتیجہ ہے، جس میں سپلائی چین اور وسائل کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ یوکرین کے خلاف روسی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کا بھی نتیجہ ہے۔ یہ تمام چیزیں خواتین کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں لیکن یہ یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کے لیے پیش رفت نہ تو ناگزیر ہے اور نہ ہی یہ ناقابل واپسی نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی فتوحات کا دفاع کرنے کے لیے نہ صرف دائیں بازو کی طرف سے ہونے والے کھلم کھلا حملوں کے خلاف بلکہ مجموعی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے موروثی رجحانات کے خلاف لڑنا ہے۔
دنیا بھر میں جدوجہد
ستمبر میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں جینا مہسا امینی کی موت کے بعد سے ایران انتشار کا شکار ہے۔ خواتین کو ظالمانہ پابندیوں سے نجات دلانے اور ملاؤں کی حکومت کے خلاف لاکھوں لوگ احتجاج میں سڑکوں پر آئے ہیں۔ جو عورت کی آزادی کے لیے ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں اس طرح یہ تحریک ملاء کی حکومت کے خلاف ہے۔ اس میں 20,000 سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے ہیں اور 500 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ حکومت نے احتجاج کو پھیلنے سے روکنے اور تحریک کو مکمل طور پر دبانے کے لیے لوگوں کو پھانسی دینا شروع کر دی ہے تاہم اس بڑے جبر کے باوجود، ایران میں جدوجہد نے حکومت کو کمزور کرنے اور پوری دنیا میں خواتین کی جدوجہد کو تحریک دینے کی طرف ایک بڑا قدم آگے بڑھایا ہے۔
یوکرین میں روس کی جنگ کی مخالفت میں بھی خواتین کا خاص کردار ہے۔ روس میں حقوق نسواں کی جنگ مخالف مزاحمت پوٹن کے حملے کے خلاف حمایت کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور انتہائی جابرانہ حالات میں ایسا کر رہی ہے۔ یوکرین میں اس وقت خواتین مسلح افواج میں 20 فیصد کے لگ بھگ ہیں اور مہاجرین کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور بنیادی انفرسٹرکچر کو برقرار رکھے ہوئی ہیں۔
خواتین کا عالمی دن
اس سال 8 مارچ کو خواتین کے بنیادی جمہوری حقوق کے لیے عالمی جدوجہد کی حمایت کرنا اور تمام مختلف جدوجہد کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور بھی اہم ہے۔ احتجاج ہو، فلیش موبس ہو یا خواتین کی ہڑتالیں، ہمیں سرمایہ داری کو ختم کرنے کے اپنے مقصد کے لیے انہیں متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں کامیاب ہونے کے لیے عالمی محنت کش طبقے، مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی یا نسلی طور پر مظلوم لوگوں کے ساتھ لڑائی کو جوڑنا بھی ضروری ہے۔خواتین کے عالمی دن پر یہ ضروری ہے کہ ہم جنسی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو رد کریں اور ان کے حقوق کی جدوجہد کا حصہ بنیں کیونکہ ان کی جدوجہد ہماری جدوجہد کا حصہ ہے۔ اگر ہم سیکس ازم پر قابو پانا چاہتے ہیں اور ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر کوئی امن سے رہ سکے اور جس طرح لوگ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور ایک سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ بہت سے ممالک میں انتہائی دائیں بازو خواتین،خواجہ سرا اور دیگر مظلوموں کے حقوق کے خلاف ہے۔
تاہم جب ہم مشترکہ مربوط کارروائی کے لیے اتحاد سے لڑنے کی ضرورت پر زور دینے چاہیے ہے۔ہمیں اس حقیقت کا بھی سامنا کرنا ہوگا کہ کئی سالوں سے عالمی خواتین کی متحرک تنظیموں کو حکمت عملی اور سمت کے بحران کا سامنا ہے۔ لاطینی امریکہ میں گھریلو اور ادارہ جاتی تشدد کے خلاف تحریکوں سے متاثر خواتین کی بڑے پیمانے پر ہڑتالیں، امریکی خواتین کی تحریک اور اسپین جیسے ممالک میں لاکھوں ورکرز کی ہڑتالیں،یہ ایک نئی عالمی تحریک کا آغازہے۔ اب تک سب سے جفاکش جدوجہد ایران میں انقلابی جدوجہد ہے۔
پروگرام اور حکمت عملی
ہر وہ جدوجہد جو سرمایہ داری کے تحت خواتین کے جبر کی بنیادوں کو چیلنج کرتی ہے اس کو اس سوال کا بھی سامنا ہے کہ جدوجہد کو آگے کیسے بڑھایا جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کے جبر کے خلاف جدوجہد، پدرشاہی کے ڈھانچے اور سیکس ازم کے خلاف، طبقاتی جدوجہد سے الگ جدوجہد نہیں ہو سکتی۔ اس کا لازمی حصہ بننے کی ضرورت ہے۔
ایران کے معاملے میں خواتین کی جدوجہد نے یہ ظاہر کیا کہ اسلامی حکومت کو محنت کش طبقے کی بڑے پیمانے پر شمولیت سے ہی کامیابی سے گرایا جا سکتا ہے – مختصر یہ کہ ایک عام ہڑتال اور جس میں محنت کش خواتین کے لیے بڑے پیمانے پر ترقی پسند نتائج شامل ہوں۔ اس طرح جبر اور ملاؤں کے خلاف جدوجہد سوشلسٹ انقلاب اور اس کے پورے خطے میں جدوجہد کے پھیلنے سے جڑی ہوئی ہے۔
یہی بات نہ صرف معاشی اور سماجی لڑائی پر لاگو ہوتی ہے بلکہ قومی جبر کے خلاف، سامراج کے خلاف، ماحولیاتی تباہی کے خلاف، جنگ اور بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی، نسل پرستی، فاشزم اور آمریت کے خلاف جدوجہد پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
لہذا ہمیں دو، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے کاموں کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں ایک عالمی تحریک کے لیے لڑنے کی ضرورت ہے جس میں سلگتے ہوئے مطالبات اور مسائل کے مجموعے کے لیے مربوط جدوجہدکی جائے، جن کا سامنا خواتین کی بڑی اکثریت کا ہے۔ اسی طرح خواتین کی تمام تنظیموں کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونینوں اور محنت کش طبقے کی جماعتوں سے بھی اس طرح کے متحدہ اقدام میں شامل ہونے کی ضرورت ہے اور ہمیں خواتین کے عالمی دن پر اس ضرورت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کے مساوی حقوق! تمام خواتین مخالف قانون سازی کا خاتمہ، تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ! عوامی اور سیاسی زندگی میں حصہ لینے کی مکمل آزادی۔
– خواتین اور مظلوم اقلیتوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ۔ ہمیں خواتین کے لیے مفت گھروں، امدادی اور خود دفاعی کمیٹیوں کو ریپ اور عورتوں کے قتل، جنسی ہراسگی، گھریلو تشدد اور ان حملوں کی دیگر شکلوں کے خلاف جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
مکمل تولیدی حقوق اور جسم پر اختیارہر ایک کے لیے ہر جگہ۔ تمام خواتین کو مفت مانع حمل اور مطالبہ پر اسقاط حمل تک رسائی ہونی چاہیے۔
خواتین کے لئے مساوی تنخواہ! کم از کم اجرت اور پنشن تاکہ خواتین غربت سے آزاد زندگی گزار سکیں،! رہائش، توانائی اور اجناس کے لیے قیمتوں میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے اجرتوں، پنشن میں اضافہ اور بے روزگاری کا الاونس دیا جائے۔
تعلیم، صحت اور سماجی خدمات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے اور یہ مفت اور معیاری ہو تاکہ عورتوں پر گھر کے کام کے بوجھ کو ختم کیا جاسکے۔
سرمایہ دار اور امیر وں کومساوی حقوق اور مناسب تنخواہ کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہوگا۔
سرمایہ داروں اور امیروں کو مجبور کیا جائے کہ وہ مساوی حقوق اور تنخواہ کو یقینی بنانے کے لیے تنخواہ دیں!
یہ صرف چند مطالبات ہیں جو عالمی سطح پر خواتین کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ اس لیے محنت کش طبقے، کسانوں، غریبوں، جوانوں اور بزرگ خواتین کو عالمی سطح پر متحد کرنے اہم ہے۔ جدوجہد جیتنے کے لیے محنت کش طبقے کی خواتین کو آگے ہونا ضروری ہے، لیکن انھیں تمام محنت کشوں کو اس جدوجہد کے لیے اکھٹا کرنا ہوگا۔
ہمیں سمت، حکمت عملی اور خواتین کی تحریک کے ہدف کے سوال کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ صرف ایک نیٹ ورک اور ایک ڈھیلا اتحاد ہونا چاہئے یا یہ ایک متحدہ محاذ ہونا چاہئے، جو متفقہ مشترکہ مقاصد کو پورا کرنے کے معاہدے اور عزم پر مبنی ہو؟ کیا یہ ایک کثیر طبقاتی تحریک ہونی چاہیے جس کی مؤثر طریقے سے قیادت متوسط طبقے کی خواتین، دانشوروں کے علاوہ کے علاوہ چند فلاحی بورژوا خواتین کر رہی ہوں یا یہ محنت کش طبقے کی خواتین کی تحریک ہونی چاہیے؟
خواتین کی عالمی تحریک کو قیادت دینے کے لیے محنت کش طبقے کی خواتین کو اپنے پروگرام اپنی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ایک محنت کش طبقے کا پروگرام، جو خواتین کی جبر سے آزادی کی جدوجہد کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد سے جوڑتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں محنت کش طبقے کی خواتین کی ایک عالمی تحریک اور ایک نئی، انقلابی، پانچویں انٹرنیشنل کی ضرورت ہے جو ان حقوق کے لیے نہ صرف آج کے لیے بلکہ ایک ایسے مستقبل کی جانب ایک قدم کے طور پر لڑے جہاں وہ ہمیشہسرمایہ دارانہ نظام کی منافع بخش منطق کے رحم و کرم پر نہ رہیں۔