چین میں کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار کے 75 سال

Posted by:

|

On:

|

تحریر:پیٹرمین

یکم اکتوبر کو چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے زیر اقتدار عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ ان 75 سالوں میں بلاشبہ چین کے اندر اور باقی دنیا کے ساتھ تعلقات میں حیرات انگیز تبدیلیاں آئیں ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سی سی پی کی فتح نے ایک صدی اور اس سے زیادہ غیر ملکی مداخلتوں اور جنگوں کا خاتمہ کر دیا جنہوں نے ملک کو ٹوٹ پھوٹ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ مزید فوری طور پراس نے واشنگٹن کی پسندیدہ کٹھ پتلی چیانگ کائی شیک کی حکومت کے ذریعے ملک کی لوٹ مار کو بھی ختم کر دیا تھا۔
سی سی پی کی حکمرانی کے پہلے 40 سالوں میں پالیسی میں بار بار اچانک تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں کیونکہ کے ایک ملک میں سوشلزم کے پروگرام کے تحت متوازن معاشی ترقی ممکن نہیں تھی۔ 1976میں جب ماؤ کا انتقال ہوا اقتصادی ترقی آبادی میں اضافے کے برابر بھی نہیں تھی۔چند مہینوں کے اندرسی سی پی کے اندر اس دھڑے نے جو طویل عرصے سے کسی حد تک ”مارکیٹ ریفارم“کا حامی تھا اس نے ڈینگ ژیاؤپنگ کی قیادت میں اقتدار سنبھال لیاتھا۔
ان کی پہلی اصلاحات کا اثر سب سے زیادہ زراعت پر پڑا۔ کسانوں کو ”پیپلز کمیون“ سے آزاد کرنے اور فوری طور پر پیداوار کی فروخت کی اجازت دینے سے پیداوار میں سالانہ 15% تک اضافہ ہوا۔ ایک ہی وقت میں کمیون ورکشاپس اور ہلکی صنعت جو کبھی بھی مرکزی منصوبہ بندی کے تابع نہیں تھے ان کومنافع پر مبنی کاروبار میں تبدیل کردیا گیا۔
ریاست کی ملکیت اور منصوبہ بند صنعت کے وجود کی وجہ سے اس نے قیمتوں کے دو نظام بنائے ایک فری مارکیٹ اوردوسرا منصوبہ بند تھا۔ لامحالہ اس نے بدعنوان تجارت کی بلیک مارکیٹ کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے نتیجے میں افراط زر میں اضافہ ہوا اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پھیلا۔ اسی وقت صنعت سمیت مزید مارکیٹائزیشن کے مطالبات میں اضافہ ہوا اور اس امتزاج نے ڈیموکریسی موومنٹ کو تیز کیا۔ اس کا اختتام تیانان مین اسکوائر پر قبضے پر ہوا جسے 4 جون 1989 کو قتل عام کے ذریعے ختم کیاگیا۔
اس کے تین سالوں کے اندرسی سی پی کی قیادت نے مرکزی منصوبہ بندی کو ختم کردیا اورریاستی صنعت کی چھوٹی اکائیوں کی نجکاری کی اور بڑی صنعت کو ریاستی ملکیتی کارپوریشنوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ انہیں تجارتی خطوط پر چلایا جاسکے۔ سوویت یونین کے برعکس، کوئی ”بگ بینگ“نہیں ہوا لیکن سرمایہ داری کی استواری کو مکمل کرنے میں کئی سال لگے۔ بہر حال یہ منصوبہ بندی ختم کرنے کا فیصلہ تھا جس نے حیرات انگیز اقتصادی ترقی کا آغاز کیا جس نے چین کو 21ویں صدی میں ”دنیا کی ورکشاپ“میں تبدیل کر دیا۔
ہنگامہ آرائی اور تبدیلی کی ان دہائیوں کے دوران ایک خصوصیت یعنی سی سی پی کی حکمرانی مستقل تھی۔ اس کی طاقت کا سرچشمہ چینی سماج میں انتظامی آپریٹس پر کنٹرول میں ہے۔ 1949 میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے اس نے 100 ملین کی آبادی والے علاقے پر حکومت کی تھی۔ ”آزاد علاقوں“میں یہ پارٹی تھی جو شہری زندگی کی نگرانی کرتی تھی جبکہ اس کا مسلح ونگ پیپلز لبریشن آرمی نے پہلے جاپانیوں کے خلاف اور پھر چیانگ کے گوومندانگ کے خلاف اپنی فورسز کو متحرک کیاتھا۔
۔1949کے بعد چیانگ کی انتظامیہ کا زیادہ تر حصہ سی سی پی کے طرز حکومت میں ضم ہو گیا یقیناًیہ پارٹی کی سیکیورٹی سروس کی منظوری سے مشروط تھا۔ سوویت طرز کی مرکزی منصوبہ بندی متعارف کروانے کے فیصلے سے پورے نظام کو تقویت ملی جس نے لازمی طور پر پارٹی کے کنٹرول اور نگرانی کے نیٹ ورک کو بہت وسیع کردیا۔
چیانگ کے وائٹ ٹیرر(-28-1927)کے قتل عام میں محنت کش طبقے میں اپنی اصل بنیاد کے نقصان اور لانگ مارچ کے دوران اس کے زیادہ تر باقی ممبرز کو نقصان کے بعد سی سی پی کو ایک سخت درجہ بندی والی سٹالنسٹ پارٹی کے طور پر دوبارہ بنایا گیاجس کا جنگی ڈسپلن تھا۔
اگرچہ اس کے طرز عمل کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن پارٹی میں اہم تبدیلی آئی۔ 1949 میں جب وہ اقتدار میں آئی تو پارٹی کے 40 لاکھ ارکان میں سے بڑی اکثریت دیہی پس منظر سے تعلق رکھتی تھی۔قیادت سے باہرچند ایک نے تو پرائمری تک تعلیم ہی مکمل کی تھی لیکن بلاشبہ سب کو جنگ کی دہائی میں پارٹی کی تعلیم اور قیادت کا تجربہ تھا۔
رکنیت کی توسیع ضروری تھی لیکن بھرتی انتہائی کنٹرول میں رہی۔ خواہش مند ممبرز کو پارٹی پالیسی کے بارے میں سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہوتا اور قیادت کے ساتھ مکمل وفاداری کی پیش رفت کی احتیاط سے نگرانی کی جاتی تھی۔ 1980 کی دہائی کے وسط تک تقریباً 45 ملین ارکان تھے لیکن آدھے سے زیادہ نے صرف پرائمری اسکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ منصوبہ بندی کو ختم کرنے کے فیصلے کے دس سال بعد 52فیصد نے ثانوی تعلیم مکمل کر لی تھی اور23فیصد کے پاس یونیورسٹی کی ڈگریاں تھیں۔
واضح طور پرپارٹی خود اصلاحات سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ تاہم اس نے اس کے کردار اس کے طرز عمل یا اس کے آئینی طور پر بیان کردہ ”اہم کردار“ تبدیل نہیں ہوا۔ آج اس کے 98 ملین ممبرز ہیں اور وہ چینی زندگی کے تقریباً ہر پہلو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں بھی کسی ادارے یا انٹرپرائز میں صرف تین ارکان ہوں توانہیں پارٹی کا ایک سیل بنانا ہوتا ہے اور اعلیٰ قیادت ان میں سے ایک کو سیل لیڈر مقرر کرتی ہے۔اس سے کمانڈ اور رپورٹنگ کا ایک سلسلہ پیدا ہوتا ہے جو بیجنگ سے لے کر تقریباً ہر گاؤں اور محلے، ہر بڑے کاروبار، یونیورسٹی کے ہر شعبہ، زمین پر موجود ہر اسکول تک پھیلا ہوا ہے۔
بہر حال پارٹی کی ساخت میں تبدیلی آتی رہی ہے۔نصف سے زائد اراکین کے پاس اب ڈگری ہے اور 35 ملین کو ”مینیجر، پروفیشنل، منتظم یا پارٹی عہدیدار“کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ 26 ملین کسان یا ماہی گیر ہیں، صرف 6.7 ملین مزدور ہیں۔
اتنی بڑی رکنیت بلاشبہ پارٹی کے لیے تقویت کا باعث ہے لیکن یہ ایک مہلک کمزوری بھی بن سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں لامحالہ گروتھ میں مختلف سطحیں، مختلف شعبوں، مختلف شہروں، مختلف صوبوں میں مختلف ترجیحات او مختلف مسائل ہوتے ہیں۔ اس سب پریقینی طور پر پارٹی کے اندر اظہار خیال ہوتاہے اور اس سے پیدا ہونے والاتناؤ ہی ژی جن پنگ کی بڑھتی ہوئی آمرانہ حکمرانی کی وجہ ہے۔
اگرچہ پارٹی نے چین کی تیز سرمایہ دارانہ ترقی کی نگرانی کی ہے اور اب یہ ایک عالمی سامراجی طاقت ہے۔ اس کی جڑیں اس کے بنائے ہوئے انتظامی اور سیکورٹی آپریٹس میں موجود ہیں۔ سرمایہ دار پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں اس سے کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک اور بورژوا پارٹی ہے جو نئے ارب پتیوں کے مفادات کی پیروی کرتی ہے لیکن یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ چین میں 98 ملین سرمایہ دار نہیں ہیں اور ارب پتی تو چند سو ہی ہیں۔
اس لیے چین کے سرمایہ دار اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی کی پالیسیاں ان کے معاشی مفادات کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ تعمیراتی شعبے کے حوالے سے یہ سب سے زیادہ واضح ہے جہاں زمین کی فروخت کے ذریعے مقامی حکومت کو مالی امداد دینے کی پالیسی نے نہ صرف ایورگرینڈ اور کنٹری گارڈن جیسی بڑی کمپنیوں بلکہ بہت سی صوبائی اور مقامی حکومتوں کو بھی مقروض کیا ہے۔
معیشت کے باقی حصوں پر اس کے نتائج بہت واضح ہیں، مینوفیکچرنگ کی پیداوار پچھلے پانچ مہینوں میں مسلسل گر رہی ہے اور ریسرچ کمپنی Caixin نے گھریلو اور برآمد دونوں کے نئے آرڈرز میں مزید کمی کے امکانات کو واضح کیا ہے۔ حکومتی ردعمل قومی دن کی تعطیلات سے ایک ہفتے پہلے بینکوں کے لیے ریزرو تناسب کو کم کرنا اور شرح سود کو کم کرنا تھا۔ فنڈز کے اس اجراء کا فوری اثر ہوا کہ شنگھائی اور شینزین اسٹاک مارکیٹوں میں تقریباً 15 فیصد کا اضافہ ہوا لیکن مجموعی طور پر اس سے معیشت پر بہت کم فر ق مرتب ہو گا۔
قومی دن سے پہلے چھ مہینوں میں چائنا لیبر بلیٹن کے مطابق چین بھرمیں 700 سے زیادہ ہڑتالیں ہوئیں جن کی اکثریت اجرتوں کی عدم ادائیگی کے خلاف تھی اور اکثر مالکان کی طرف سے کام کو بند کرنے اور بھاگنے کے خلاف تھیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ہڑتالیں بھی کوئی ظاہری تنظیمی اظہار پیدا نہیں پائیں کیونکہ سی سی پی کی نوکرشاہانہ آمریت کے تحت محنت کش طبقے کی کوئی بھی آزاد تنظیم غیر قانونی ہے اور اس کی خلاف ورزی خطرناک ہے۔
بہر حال اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ محنت کش طبقہ اس فرمابرداری سے بہت دور ہے جو پیداواری لائنوں کی لمبی قطاروں کی تصویریں ظاہر کرتی ہیں۔ درحقیقت ایک طبقے کے طور پریہ اب تقریباً 800 ملین کے طورپر ایک مضبوط فورس ہیں جن میں ان پرانحصار کرنے والے بھی شامل ہیں۔اس کے پاس جدوجہد کا وسیع تجربہ ہے اور انہوں نے اہم قانونی رعایتوں پر مجبور کیا اور اجرت بڑھانے میں بھی کامیاب ہوے ہیں۔ معیشت میں مسلسل مندی کا امکان ہے جس کی وجہ سے دفاعی جدوجہد کی حوصلہ برقرار رہے گا۔
سرمایہ دارانہ سماج کے دواہم طبقے مالکان اور مزدوروں کے مفادات میں سی سی پی کی نوکرشاہانہ آمریت ایک رکاوٹ ہے۔ یقینی طور پرجب تک زیادہ تر بورژوازی محنت کشوں کے استحصال سے فائدہ اٹھاتی رہے گی جسے پارٹی کی حکومت یقینی بناتی ہے وہ اس کے خلاف منظم نہیں ہوں گے بلکہ اسے اندر سے متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم کسی بھی مسلسل معاشی زوال سے پارٹی کے اندر تقسیم بڑھے گی اور محنت کش طبقے کی جفاکشی میں اضافے سے یہ مزید گہرے ہو سکتے ہیں
ایسے حالات میں، نہ صرف معاشی بلکہ جمہوری مطالبات لاکھوں کو متحرک کر سکتے ہیں اور انقلابی اپنے کام کی جگہوں اور اپنے اضلاع دونوں میں محنت کشوں کی جمہوری تنظیم کے لیے جدوجہد کریں جو بورژوا پارٹی سے مکمل طور پر آزاد ہو۔ محنت کشوں کی جدوجہد کو مربوط کرنے اور ان کی قیادت کرنے کے لیے ایک نئی ورکرز پارٹی ضروری ہے ایسی پارٹی جو نہ صرف سی سی پی کی نوکرشاہانہ آمریت کے خاتمے بلکہ اس کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جفاکش جدوجہد کرے جیسے سی سی پی نے بحال کیا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کی 75 سالہ تاریخ طوفانی رہی ہے، اس نے ایک نئی سامراجی طاقت اور دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ دونوں پیدا کیے ہیں۔ یہ مزید طوفانوں کی خبر دیتا ہے جو پوری دنیا پر واقعی تاریخی اثرات مرتب کریں گے۔ ان طوفانوں سے گزرنے اور ایک نئے سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لیے نہ صرف چین میں ایک نئی کمیونسٹ پارٹی بلکہ ایک نئی پانچویں انٹرنیشنل کی ضرورت ہے۔

Posted by

in

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *