تحریر:دلارا لورین،ترجمہ:راضون جاوید
19 مارچ کو استنبول کے میئر اکرم امام اوغلوکی حراست کے بعد سے ملک میں بچی کھچی جمہوریت کے دفاع میں لاکھوں افراد نے ترکی بھر میں احتجاج کیا۔ مظاہروں پر ملک گیر پابندی کے باوجوداورپولیس کے وحشیانہ تشدد، واٹر کینن کے استعمال، کالی مرچ کے اسپرے اور من مانی گرفتاریوں سے بے خوف ہر روز اگر لاکھوں نہیں توہزاروں لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر احتجاج کی تصاویر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی پی ایچ) کے صدارتی امیدوار امام اوغلو کی گرفتاری ایک ایسی چنگاری بن سکتی ہے جو ایک عوامی تحریک کو بھڑکا سکتی ہے جو صدر رجب طیب ایردوان اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی حکمرانی کو ہلا کر رکھ سکتی ہے اور اس کے اقتدار کا بھی خاتمہ کرسکتی ہے۔ یہ پیش رفت ایک گہرے سیاسی بحران کو ظاہرکرتی ہے جو بڑے پیمانے پر معاشی بحران کی وجہ سے ہے۔
کیا ہوا ہے؟
اکرم امام اوغلو 2028کے صدارتی انتخابات میں ایردوان کے سب سے زیادہ خطرناک حریف سمجھے جاتے ہیں۔ اسے دو الگ الگ تحقیقات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر اور 99 دیگر مشتبہ افراد پر دیگر چیزوں کے علاوہ، ”مجرمانہ تنظیم کی قیادت“، ”مجرمانہ تنظیم کی رکنیت“، ”بھتہ خوری“، ”رشوت“، ”قابل فراڈ“، ”ذاتی ڈیٹا کا غیر قانونی حصول“اور ”ٹینڈر میں ہیرا پھیری“کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیراتی کمپنی بھی ضبط کر لی گئی۔ منگل 18 مارچ کو اس کی گرفتاری سے ایک دن پہلے اس کی یونیورسٹی کی ڈگری بھی سرکاری طور پر ایک طریقہ کار کی غلطی کی وجہ سے چھین لی گئی۔ چونکہ ترکی میں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے یونیورسٹی کی ڈگری لازمی ہے اس وجہ سے اس کے لیے انتخابات میں حصہ لینا ناممکن ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ استنبول سٹی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ماہیر پولات، ضلع فتح کے میئر ریسل امرا شہان، اور پانچ دیگر مشتبہ افراد (کردستان ورکرز پارٹی/یونین آف کرد کمیونٹیز) کی حمایت کرنے کے الزام میں زیر تفتیش ہیں۔ یہ الزامات غالباً 2023 کے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے ہیں جس میں کچھ خطوں میں سی پی ایچ نے پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی ڈی ای ایم کے ساتھ امیدوار کھڑے کیے تھے (دسمبر 2023 سے پیپلز ایمنسپیشن اینڈ ڈیموکریسی پارٹی کی جانشین)۔
ان پیشرفتوں کے باوجودصدارتی امیدوارکے انتخاب لیے سی پی ایچ کا ووٹ اتوار کو ہواجس کے لیے اس نے مختصر نوٹس پر غیر اراکین کو بھی ووٹ کا حق دیا تھا۔ 15 ملین لوگوں نے اس میں ووٹ کاسٹ کیاجس میں سی پی ایچ کے تقریباً 1.7 ملین ارکان تھے۔ ٹرن آؤٹ نہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی کی بڑی تعداد میں حمایت موجودہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ لاکھوں افراد نے ان کھلے انتخابات کو ایردوان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کے طور پر استعمال کیا۔
کوئی غیر متوقع پیش رفت نہیں
اماموغلو کے علاوہ استنبول کے اضلاع کیسی پی ایچ میئرزریسول عمرہ شہان اور مہمت مرات کالک کو بھی وزارت داخلہ نے برطرف کر دیا۔ انقرہ میں حکومت پہلے ہی اے کے پی کے ایک اہلکار کو شہان کے ضلع کا منتظم مقرر کر چکی اور میئر کالک کی جگہ آنے والے دنوں میں ایک ریاستی نمائندہ بھی مقرر کیا جائے گا۔
استنبول کے پبلک پراسیکیوٹر کا دفتر امام اوغلو کے خلاف تحقیقات کی قیادت کر رہا ہے۔ اس کے چیئرمین چیف پراسیکیوٹر اکن گورلیک متعدد سیاسی محرکات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ مخالفین کے خلاف ان کے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے حزب اختلاف اسے ”موبائل گیلوٹین” کے نام سے تعبیر کرتی ہے۔ کالک دیگر چیزوں کے علاوہ وہ جج تھا جس نے کرد نواز ایچ ڈی پی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) کے سابق رہنما کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تنقید کی اورجیل کی سزا سنائی تھی۔
یہ سب گرفتاریاں اور سزائیں سیاسی بنیادوں پر ہیں اور ترکی میں یہ سب نیا نہیں ہے اس کی جیلوں میں جس طرح قیدیوں کوٹھونسا گیا ہے اس پر ایک نظرہی کافی ہے۔ حالیہ برسوں میں کرد، کرد نواز اور بائیں بازو کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو نشانہ بنایا گیاہے۔ میئر امام اوغلو کی برطرفی بہت سے کردوں کے لیے کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ ترکی میں متعدد سٹی ہالز جبری انتظامیہ کے تحت ہیں۔ گزشتہ سال مارچ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد سے اب تک 17 میئرز کو برطرف کیا جا چکا ہے جن میں سے کئی پہلے ہی حراست میں ہیں۔ وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ افسران جنہیں ٹرسٹیز کہا جاتا ہے انہوں نے سرکاری فرائض سنبھال رکھے ہیں۔
ڈی ای ایم پارٹی کی جیتی ہوئی بلدیات خاص طور پر متاثر ہوئی ہیں۔جبری انتظامیہ کے تحت 12 میونسپلٹی اصل میں ان کی قیادت میں تھیں اورچار سی پی ایچ کے تحت تھیں۔ یہ واضح کرتا ہے کہ برسوں سے اردوان حکومت کس طرح سے سیاسی مخالفین کو ہراساں کررہی ہے اور ان پر جھوٹے مقدمات بنا رہی ہے۔
گیزی پارک کے احتجاج سے لے کر آج تک
امام اوغلو کی گرفتاری کے فوراً بعداستنبول، ازمیر اور انقرہ سمیت مغربی ترکی کے بڑے شہروں میں مظاہروں اور اجتماعات پر پابندی کے باوجود احتجاج جاری ہے جسے پولیس کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ متعدد ویڈیوز میں مظاہرین کو پولیس کی رکاوٹوں کے خلاف لڑتے ہوئے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے دیکھ جاسکتا ہے جہاں پولیس ان پروحشیانہ طاقت کے ساتھ حملہ کر رہی ہے۔ آنسو گیس کا براہ راست قریب سے مظاہرین کے چہروں پر چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، ٹھنڈے پانی کی توپیں اور مسلح پولیس مظاہرین کو لاٹھیوں سے بے دردی سے مارتے ہوئے ربڑ کی گولیاں چلاتی ہے۔
مظاہروں کے آغاز سے لے کر اب تک 1100 سے زائد افراد کو ”غیر قانونی سرگرمی“کے بہانے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ایکس پر وزیر داخلہ کے مطابق وہ ”سڑکوں کو دہشت زدہ نہیں ہونے دیں گے“ یہ واضح کرتاہیں کہ ریاست کی جابرانہ مشینری کو ٹارگٹ طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ صرف گزشتہ ہفتے میں 40 سے زیادہ افراد کو صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا حالانکہ ان کی پوسٹوں کو بلاک بھی کردیا گیاتھا۔ یہ ریاستی سنسرشپ کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ آزادی صحافت پر بھی سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں، اتوار کی رات دس صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا – یہ آزادی اظہار اور پریس کے لیے ایک اور سنگین دھچکا ہے۔
تاہم یہ سب بھی عوام کو شہر کے مرکزی چوکوں پر لڑنے اور جمع ہونے سے نہیں روک سکا۔ خاص طور پر یونیورسٹیوں کے طلبہ اس تحریک میں سب سے آگے ہیں۔سب سے پہلے اور سب سے اہم مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی انقرہ جس میں روایتی طور پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیم الیکشن جیتی ہوئی ہے اس نے پیر24 مارچ سے شروع ہونے والی اور اس کے بعد بھی جاری رہنے والی ہڑتال کی کال دی ہے۔ دوسری یونیورسٹیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں ہے۔ اس کے علاوہ کیمپس میں پروفیسرز کے ساتھ مل کر آزادانہ لیکچرز کا اہتمام کیئے جارہے ہیں۔ تاہم عام ہڑتال کی کال نہ صرف طلباء بلکہ مزدوروں اور خاص طور پر ٹریڈ یونینوں کو بھی کو دی گئی تھی۔ یہ بنیادی طور پر طلباء ہیں جو سڑکوں پر زیادہ ریڈیکل اور نظام پرزیادہ تنقیدی مطالبات کررہے ہیں۔ بہت سے شہروں میں مختلف تقاریر اور پوسٹرز اور بینرز یہ واضح طور پر کہ رہے ہیں کہ لڑائی سڑکوں پر لڑی جانی چاہیے یہ بیلٹ باکس کو مسترد کررہے ہیں۔
یہ شاید ہی حیرت کی بات ہے کہ طلباء ان مظاہروں میں سب سے آگے ہیں۔ یہ نوجوان نسل ہے جو بے روزگاری،تاریک مستقبل اور تیزی سے بگڑتے ہوئے تعلیمی نظام کا شکار ہے۔ اس کی مثال سرکاری بے روزگاری کی شرح سے بھی ملتی ہے جو پچھلے سال 15سے24 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے 16.5 فیصد تھی۔ تاہم محنت کش طبقے کی وسیع پرتیں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج میں آرہی ہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں ان کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہوئی ہے۔ اس سے مڈل کلاس پر بھی اثر پڑاہے جو تیزی سے سماجی سطح سے نیچے گرے ہیں۔ ترکی میں دس میں سے دو افراد غریب ہیں اور صرف ایک سال میں غریبوں کی تعداد میں 190,000 کا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ ترکی میں دو میں سے ایک شخص مقروض ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ جو اس وقت 42.7 فیصد پر ہے یہ غریبی کو تیزی سے بڑھ رہی ہے
احتجاج میں ہرگزرتے دن شدت آرہی ہے اور اب ان کے مطالبات اکرام امامو اوغلو کی رہائی سے زیادہ ہیں۔ آج حکومت کے استعفیٰ،ایردوان کے استعفیٰ اور زیادہ جمہوری شرکت کے مطالبات کے ساتھ لوگوں کو سڑکوں پر آرہے ہیں اوریہ سب پوسٹروں اور نعروں سے واضح ہے۔ بہت سے مظاہرین اسے مئی 2013 کے گیزی پارک میں ہونے والے مظاہروں سے جوڑ رہے ہیں۔اس کی طاقت اورصلاحیت بہت سے طریقوں سے اس وقت کی تحریک سے ملتی جلتی ہے۔ گیزی پارک میں درختوں کی کٹائی کے خلاف مزاحمت کے طور پر شروع ہونے والی تحریک نے جمہوریت اور شمولیت کی تحریک کو تیزکر دیاتھا۔ اسی طرح سماجی مطالبات اٹھائے جا رہے ہیں اور سیاسی نظام کو بنیادی طور پر چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ تحریک امام او غلو کی گرفتاری سے شروع ہوئی تھی لیکن ایردوان کی معزولی کے مطالبات اب شدت پکڑگئے ہیں۔
اسی طرح سی پی ایچ قیادت کے خلاف خاص طور پر نوجوانوں میں عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پربہت سے لوگ مظاہرین کے حوالے سے پارٹی کے رویے پر تنقید کرتے ہیں۔ الزام لگاتے ہیں کہ سی پی ایچ مظاہرین کو تنہا چھوڑ رہی ہے۔ پارٹی کے نمائندے اشتعال انگیز تقاریر کے بعد سڑکوں پر عوام کے ساتھ لڑائی میں کھڑے ہونے اور پولیس کو روکنے کی بجائے ریلیوں سے غائب ہوجاتے ہیں۔
تحریک تعمیر کرو۔سی ایچ پی پر کوئی بھروسہ نہیں
اکرم اوغلوکی گرفتاری نے عوامی جمہوری تحریک کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اگر ہم تحریک کو آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں سی ایچ پی کی کمزوریوں پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ ایک مرکزی مسئلہ کردوں کی شرکت کا سوال ہے۔ تحریک کے اندر کردوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے جو احتجاج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں – ان کو اشتعال انگیز اور تقسیم کرنے والا کہا جاتا ہے۔ یہ رویہ سی ایچ پی میں بالادست ہے اوراس کی ترک شاونزم کی ایک طویل روایت ہے۔
23 مارچ کو انقرہ کے سی ایچ پی کے میئر منصور یاوانے مظاہرین سے ایک تقریرکرتے ہوئے انہوں نے کردوں کے جھنڈوں کو ”چیتھڑے“قرار دیا جو جمعہ کو کردوں کے نئے سال اور موسم بہار کے تہوار نوروز کے دوران لہرائے گئے تھے اور جان بوجھ کر ترک اور کردوں کے درمیان تقسیم ڈالنے کی کوشش کی اس نے تحریک میں شدید غصے کو جنم دیا۔ایسا کرتے ہوئے اس نے بالکل غیر اہم بات کی طرف اشارہ کیا جس میں ایک پولیس افسر نے جشن نوروز میں کینڈی فلاس تقسیم کیا جبکہ اسی وقت احتجاج کے دوران ترک نوجوانوں کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا تھا۔یہ ایک ایسا موازنہ جو تقریبات کے دوران متعدد حراستوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ اس بیان نے خاص طور پر کردوں میں شدید ناراضگی کو جنم دیاہے۔ اتوار کے روز استنبول میں جشن نوروز کے موقع پر جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اس وقت زوردار مظاہرے ہوئے جب سی ایچ پی کے رہنما اوزیل جانب سے مبارکباد کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔منتخب میئرز کی برطرفی اور گرفتاری کا مسئلہ درحقیقت دونوں تحریکوں کو متحد کرتا ہے – خاص طور پر کردجو تقریباً ایک دہائی سے اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ جمہوریت کی لڑائی کردوں کی شمولیت کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی ہے۔ اس لیے تحریک میں ترک شاونزم کے خلاف لڑنا اور اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ سب سے بڑھ کر محنت کشوں کی تنظیموں اور تمام بائیں بازو کے لیے ضروری ہے جنہیں اس میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہیں کرد ایکٹوسٹوں کو اپنی زبان، اپنے جھنڈوں اور علامتوں کے ساتھ شرکت کرنے اور ان پرکسی بھی حملے کے خلاف ان کا دفاع کرنے چاہیے ہے۔ ترک محنت کش طبقے اور اپوزیشن کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ سڑکوں پر کردوں کے مفادات کا دفاع کرتے ہوئے سنجیدہ ہیں۔
حالیہ دنوں میں کردوں کی طرف سے دباؤ اتنا بڑا تھا کہ سی ایچ پی کے رہنما اوزیل بالآخر ایک پریس کانفرنس میں جواز پیش کرنے پر مجبور ہو گئے اگرچہ معافی مبہم تھی اور اوزیل نے زور دیا جو کہ سی ایچ پی میں نایاب ہے کہ ایک متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف ان کی نوروز کی مبارکباد میں واضح ہوا بلکہ 24 مارچ 2025 کو استنبول میں ڈی ای ایم پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی واضح ہوا۔
تاہم ہمیں بورژوا سی ایچ پی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جو ریاستی اقتدار کی جدوجہد میں ہمیشہ بنیادی طور پر ریاست نواز، ترک قوم پرست اور سرمایہ دار انہ پوزیشن رکھتی ہے۔ حالانکہ بہت سارے لوگ ایردوان سے جان چھڑانے کے لیے امام اوغلو کی حمایت کررہے ہیں لیکن وہ عوام کے صدر نہیں ہو گا بلکہ ترکی کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر مضبوط کرنے اور عوام کی قیمت پر بحران کو حل کرنے کی کوشش کرئیگا۔ یہ سی ایچ پی ہی ہے جس نے 2016 میں اپنے ووٹوں سے ایچ ڈی پی کے متعدد ایم پی ایز کے استثنیٰ کو ختم کرنے کی حمایت کی تھی اس سے اردوان حکومت ان کو گرفتار کرسکی۔انہوں نے میونسپل اور صدارتی انتخابات سے قبل مہاجرین کے خلاف ایک بدبودار مہم چلائی اور یہ سی ایچ پی کی تاریخ ہے جس نے بار ہا محنت کشوں کی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
انقلابیوں کو جبری انتظامیہ اور میئرز کی برطرفی کے خلاف سڑکوں پر نکلنا چاہیے – لیکن سی ایچ پی کے حوالے سے کسی قسم کی امید کو پیدا نہیں کرنا چاہیے ہے۔ سی ایچ پی بورژوازی کے ایک مختلف حصہ کے مفادات کا دفاع کرتا ہے جن کا مفادمحنت کش اور آبادی کے مظلوم طبقوں کے مفادات کے برعکس ہے لیکن ہمیں ڈی ای ایم پارٹی میں بھی کوئی امید نہیں ہونی چاہیے جو خود عبداللہ اوکلان اور PKK کی ”جمہوریت پسند“ایردوان کے ساتھ مکمل طور پر فریب خوردہ ”مفاہمتی پالیسی“کی حمایت کرتی ہے۔
جمہوری حقوق پر حملوں کے خلاف عام ہڑتال
امام اوغلو کی گرفتاری اور مظاہروں پر جبر اور میڈیا کوریج پر پابندی ترکی میں جمہوری حقوق پر ایک بڑے حملے کو ظاہر کرتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ عدلیہ کی ملی بھگت سے اپوزیشن کے امیدوار کو روک رہے ہیں۔ ایردوان اے کے پی اور حکومتی اتحاد ظاہر ہے کہ بورژوا پارلیمانی نظام میں ووٹنگ کے ذریعے اپنے اقتدار کا خٓاتمہ نہیں چاہتے ہیں۔ ابھی تک جبر کی اس شکل کا رخ بنیادی طور پر کرد اور بائیں بازو کی جماعتوں پر تھا لیکن اب ریاستی نظام واضح طور پر اشارہ دے رہا ہے کہ وہ بورژوا قوم پرست مخالفت کو بھی ختم کر دئے گا اگر یہ اس کے لیے انتخابی چیلنج بنئے گا۔
ترکی کی جمہوریت حقیقت میں ایک بدترین آمریت ہے اور لاکھوں عوام اس آمریت کے خلاف ہیں اور اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں – ایردوان کی بوناپارٹسٹ حکمرانی کو جمہوری قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک رائے شماری ضروری ہے اوریہ اس کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے بھی مضبوط کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے اے کے پی کو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت کی ضرورت ہے تاکہ وہ 2028 میں دوبارہ صدر کا انتخاب لڑ سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے سب سے اہم حریف کو کچلنے کے بعد وہ اپنی آمرانہ حکمرانی کو جواز دینے کے لیے انتخابات کا انعقاد کردئے۔
لیکن یہ حقیقت کہ اے کے پی حکومت کو تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے وحشیانہ ریاستی جبرپر انحصار کرنا پڑئے گا۔یہ حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی حمایت میں تیزی سے کمی آئی ہے اوراس کی سماجی بنیادہل گئی ہے کیونکہ یہ علاقائی طاقت کے عزائم اور نئے ”عثمانی سلطنت“کے خوابوں کے باوجودیہ معیشت کو نہیں سنبھل سکی۔
اس وجہ سے محنت کشوں کی غربت میں اضافہ، مڈل کلاس اور پیٹی بورژوازی زوال پذیر ہیں اور بورژوازی میں بھی عدم اطمینان پیدا ہورہاہے۔ اس کا اظہار تحریک اور احتجاج کے ملٹی کلاس کردار سے بھی ہوتا ہے، جسے یقیناًسی ایچ پی کے کردار سے تقویت ملتی ہے۔ اسی لیے زیادہ ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ اور نوجوان متحرک رہیں اور اس تحریک کو طبقاتی شکل دینے کے لیے لڑیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ وہ تحریک کی قیادت سی ایچ پی یا پیٹی بورژوا قوتوں پر نہ چھوڑیں۔ اس میں سڑکوں پر متحرک ہونا یقینی طور پر اہم ہے لیکن حکومت کے آمرانہ حملے کو صرف مظاہروں یا پولیس کے ساتھ سڑکوں پر لڑائی سے نہیں روکا جاسکتا۔ریاستی تشدد کے ذریعے حکومت کی اپوزیشن کو ختم کرنے کی کوشش کو روکنے کے لیے، امام اغلو اور دیگر تمام قیدیوں کی رہائی اور حزب اختلاف کے خلاف تمام الزامات کو ختم کرنے کے لیے، دوسرے لفظوں میں تمام اپوزیشن کے خلاف حملوں کوروکنے کے لیے ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جس کی بنیاد کام کی جگہ پر ہو جو ایک عام ہڑتال اور جامعات اور دیگر اداروں میں بڑے پیمانے پر قبضے کرئے۔
یہاں پر ٹریڈ یونینوں کا اہم کردار ہے۔ انہیں ملک گیر عام ہڑتال کی کال دینی اور اسے منظم کرنا چاہیے۔ اسے وسیع کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے یا اسے ٹریڈ یونین نوکرشاہی کی مزاحمت کے خلاف تمام کام کی جگہوں پر اسمبلیوں کی ضرورت ہے اور اس جدوجہد کی قیادت کے لیے ہڑتالی کمیٹیوں کو منتخب کرنا چاہیے۔ ترکی میں محنت کش طبقے کا بڑا حصہ بالکل بھی منظم نہیں ہے۔ان اسمبلوں کو منعقد کرکے تحریک میں غیر منظم محنت کشوں کو فعال طور پر شامل کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح کی ہڑتال کی کمیٹیوں کو ملک بھر میں مربوط ہونا چاہیے اورمقامی ایکشن کمیٹیوں کے ساتھ مل کرجدوجہد کی قیادت کرنے کے لیے اسے مرکوز کرنا چاہیے ہے۔ خاص طور پر جبر کے صورتحال میں عام ہڑتال کے دفاع کے لیے دفاعی کمیٹیاں بنانے کی ضرورت ہے، جومحنت کشوں کی ملیشیا تشکیل دئے۔
اس طرح کی تحریک نہ صرف ریاستی طاقت کے سوال کا جواب دے گی جو اردوان نے اپوزیشن کو گرفتار کر کے اٹھایا ہے بلکہ یہ اس سوال کو جنم دئے گی اصل طاقت کہاں ہے۔ لہٰذا تحریک کو جمہوری مسائل تک محدود نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ایساہونا چاہیے بلکہ ایک عام ہڑتال کو مظلوم قوموں کے حق خودارادیت کا سوال اٹھانا چاہیے۔سب سے پہلے کردوں کے سوال کو اس کے علاوہ سماجی اور معاشی مطالبات اور محنت کشوں کے کنٹرول کی جدوجہد کو بھی سامنے لانا چاہیے۔
ایک عام ہڑتال انقلاب کے سوال کو جنم دیتی ہے اور یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ کس طبقے کو اپنے مفادات کے لیے سماج پر حکمرانی اور تنظیم نو کرنی چاہیے۔ اس لیے اسے نہ صرف اردوان کی معزولی بلکہ محنت کشوں کی حکومت کے لیے جدوجہد سے بھی جوڑا جانا چاہیے کیونکہ اگر تحریک پھیلتی اور گہری ہوتی ہے تو ترکی میں انقلاب سے پہلے والی یا انقلابی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔ تاہم یہ انقلابی لیفٹ اور مزدوروں کی پوری تحریک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے۔اسے سوشلسٹ انقلاب کی طرف لے جانے کے لیے تحریک کے اندار انقلابی پروگرام کے لیے لڑنا چاہیے اور اسے ایک ایسی سیاسی قوت کو تعمیر کرنا ہوگا جو اس کے لیے لڑئے یعنی انقلابی پارٹی کی تعمیر جو سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرئے۔
Leave a Reply