C

طلباء یونین بحال کرو! نوجوانوں کا ملک گیر احتجاج

Posted by:

|

On:

|

انقلابی سوشلسٹ رپورٹ

کورونا وبا و دیگر مسئلے مسائل کو مات دیتے ہوئے پاکستان کے 29 چھوٹے بڑے شہروں میں 27 نومبر کو طلباء یکجہتی مارچ منعقد کئے گئے۔ کراچی،لاہور اور دیگر شہروں میں بھی طلباء مناسب تعداد میں ان میں شامل ہوئے حالانکہ یہ تعداد پچھلے سال سے کم تھی مگر اس کے باوجود یہ طلباء پر جبر کے خلاف ایک اظہار تھا کہ کم تعداد میں ہی سہی مگر لوگ ظلم و جبر کے خلاف نکلے۔
لاہور میں طلباء یکجہتی مارچ میں طلباء، محنت کش خواتین و مرداور لیفٹ کی زیادہ تر تنظیموں نے شرکت کی۔ کووڈ 19اور تمام تر تنظیمی مسائل اور حکومت کی طرف سے چھٹیوں کے اعلان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو ایک مناسب مارچ کہا جاسکتاہے۔ یہ طلباء اور مزدوروں پر بڑے حملوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار ہے کہ تمام مسائل کے باوجود لوگوں نے مارچ میں شرکت کی۔ البتہ لاہور کے مظاہرہ سے مسلم لیگ کے رانا مشہود نے بھی پی ڈی ایم کی طرف سے خطاب کیا اور منتظمین میں سے کچھ کو ان سےامیدیں بھی تھیں حالانکہ ان کی امیدیں بھی تنقید کے بغیر نہیں تھیں۔ بہر صورت اس کے بعد اسٹیج سے بورژوا اپوزیشن کے خلاف نعرہ بازی بھی ہوئی اورلیفٹ کی تنظیموں کی قیادت کی طرف سے ان کی طبقاتی بنیادوں کو بھی بیان کیا گیا اور آزاد تنظیم سازی کی بات بھی ہوئی۔ یہ مظلوم اور جبر کے شکار طلباء کے لیے ایک موقع بھی بنا کہ وہ اپنے مسائل اور حکمران طبقہ کے حملوں کے خلاف احتجاج کرسکیں۔

انقلابی سوشلسٹ موومنٹ حقوق خلق موومنٹ کے رہنما عمار علی جان کے خلاف مقدمہ اور ان کی گرفتاری کی کوشش کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ریاست سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ بےبنیاد مقدمات فوری طور پر ختم کئے جائیں۔
کراچی کے احتجاج میں بھی شرکاء کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔ اپنے مسائل کے گرد طلباء نے بھرپور آواز اٹھائی اور ریاست کے حملوں کی کھل کر مذمت کی۔ مگر قیادت کے پروگرام اور تنظیمی امور کی محدودیت یہاں بھی عیاں تھی۔ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے نام سے جاری کردہ فلائر میں بڑھتی ہوئی فیسوں، جبری آنلائن کلاسز، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل آلات کے فقدان، تعلیمی اداروں کی نجکاری، جبری گمشدگیوں اور طلباء کے دیگر مسائل کی درست نشاندہی کی گئی۔ مگر اس اتحاد کی پروگرام کی کمزوری وہاں واضح ہو جاتی ہے جہاں یہ اتحاد خود کو مسائل کی نشاندہی اور سرکار پر مطالبات تک خود کو محدود کر لیتا ہے اور عمل کا ایسا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کرتا جس کے ذریعہ ان حقیقی مسائل کا حقیقی حل تلاش کیا جا سکے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک طلباء کی خود تنظیم سازی اور ایکشن کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جاتیں، تب تک طلباء کے مطالبات، جو عین جائز مطالبات ہیں، وہ پورے نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ طلباء کے اتحاد میں بورژوا جماعتوں کے شاگرد ونگوں کی شمولیت اس اتحاد کے طبقاتی کردار پر بھی سوالیہ نشان ہے جس پر قیادت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تنظیمی امور کی آڑ میں بائیں بازو کی تنظیموں کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے اور انہیں اپنا بینر لانے سے بھی روکا جاتا ہے۔ اگر طلباء اتحاد کو گنتی کی چند تنظیموں تک محدود کر لیا جائے گا اور دیگر تنظیموں کو اس لئے شمولیت کا اختیار نہیں دیا جائے گا کہ موجودہ قیادت کو خوف ہے کہ “ہم اتنی ساری تنظیموں کو سنبھال نہیں سکتے” تو طلباء تحریک ایک علامتی سالانہ احتجاج کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ ایک حقیقی متحدہ محاذ میں شاید 100 سے زائد طلباء تنظیمیں بھی شامل ہو جائیں۔ ان پر اپنی نظریاتی برتری ثابت کرنے کے لئے آپ کو اتحاد میں اپنے نظریات کے پرچار سے کام لینا ہوگا تب ہی معاملہ آگے بڑھے گا ورنہ قیادت اگر صرف چیزیں اپنے ہاتھ سے کھو دینے کے خوف سے دوسری تنظیموں کو اتحاد میں شامل بھی نہ ہونے دے تو اس کے اثرات مارچ کی شرکت کی تعداد پر دیکھنے کو ملیں گے اور ساتھ تحریک کی زندگی پر بھی۔ اس کے علاوہ تقریر کرنے، نعرے لگانے اور بینر لانے سے تنظیموں کو روکنے جیسے فرقہ پرور اقدامات کی ہم مذمت کرتے ہیں کیونکہ تمام تنظیموں کو اپنے نظریات کا پرچار کرنے کا حق ہونا چاہئے اور دوسری تنظیموں کے نظریات سے خوفزدہ ہونے کے بجائے موجودہ قیادت کو بحث مباحثہ اور نظریات کے پرچار کے ذریعہ اپنی قیادت کا جواز پیش کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ قیادت کے دوہرے معیارات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک طرف ایک قوم پرست تنظیم کو اپنا پرچم لانے سے منع کر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی کی شاگرد تنظیم پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا پرچم مارچ پر لایا جاتا ہے اور کوئی انہیں منع نہیں کرتا۔ اسی طرح پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا پرچم بھی مارچ پر نظر آتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان دوہرے معیارات کو ختم کیا جائے اور تمام تنظیموں کو اپنی شناخت، بشمول پرچم، بینر، پلے کارڈ و دیگر، کے ساتھ آنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے فلائر میں لکھا ہے کہ مارچ کا مقصد “تمام طلباء کو متحد کر کے ایک ایسی مضبوط آواز میں تبدیل کرنا ہے جو کہ ان کے مسائل کی ترجمان اور ان کے حقوق کی ضامن ہو”۔ لہٰذا ہم موجودہ قیادت سے یہ پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اتحاد کے دروازے ان تمام بائیں بازو کی تنظیموں پر کھولیں جو اس اتحاد کا حصہ بننا چاہتی ہوں کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی مسئلہ پر الگ تھلگ احتجاج کرنے کے بجائے موجودہ اتحاد کی تنظیم سازی طبقاتی بنیادوں پر از سرِ نو کی جائے تاکہ نظام کے حملوں کا مقابلہ ہم مل کر کر سکیں۔ متحدہ محاذ تشکیل دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہماری آپس میں کسی قسم کی کوئی نظریاتی ہم آہنگی ہے۔ نظریاتی ہم آہنگی ہو جائے تو الگ الگ تنظیمیں ہی کیوں ہوں۔ عمل کا متحدہ محاذ ایک طریقہ کار ہے جس کے ذریعہ محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرتے ہوئے ریاست و نظام کے حملوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ طلباء کے عمل کے لیے متحدہ محاذ میں بورژوا جماعتوں کی شاگرد تنظیموں کو کوئی جگہ نہیں دی جانی چاہئے تاکہ تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر حقیقی معنوں میں منظم کیا جا سکے اور اسے مزدور تحریک کی تعمیر و معاونت کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ کوئٹہ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے زیرِ اہتمام طلباء طاقت مارچ منعقد کیا گیا ۔ بی ایس او چیئرمین ظریف رند نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گیٹ پر سیکورٹی پر مامور چوکیدار سے لے کر وائس چانسلر تک طلباء کو دبانے کا کردار ادا کرتے ہیں باوجود اس کے کہ طلباء کی ہی وجہ سے تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں یہ حیران کن نہیں کہ جنسی طورپر ہراساں کا اسکینڈل سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک طلباء کو یونین بنانے کی اور متحد ہونے کی اجازت نہیں تب تک ان کا استحصال ہوتا رہے گا اور تعلیم کا حق بھی چھینا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو واپس چھیننے کی ضرورت ہے ان سے جو ہم سے ہمارا شعور حاصل کرنے کا حق چھینتے ہیں۔
انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کے ممبران اور ہمدردوں نے کراچی، لاہور و دیگر شہروں میں طلباء یکجہتی مارچوں میں شرکت کی اور ہمارے فلائر تقسیم کئے جس میں ہمارے مطالبات بھی درج ہیں۔

یہ انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کے فلائر کا لنک ہے۔

نوجوانوں کے مستقبل کی ضمانت سرمایہ دارانہ نظام کی موت ہے