رپورٹ(سوشلسٹ رزیسٹنس)
پنجاب گروپ آف کالجزلاہور کے طلباء 14نے اکتوبر کو کالج میں ریپ کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ان کا موقف ہے کہ ریپ کا یہ واقع چند دن پہلے پنجاب گروپ آف کالجز کے گلبرگ کیمپس 10میں ہوا جہاں سیکورٹی گارڈ نے گیارہیوں کلاس کی طالبہ کا ریپ کیا اور جب اس کالج کے طلباء اس واقعہ پر اکھٹے ہوئے تو پرنسپل سمیت دیگر ٹیچرز کی طرف سے ان کو دھمکایا گیا۔اس کے ردعمل میں طلباء نے سوشل میڈیا پر احتجاج کی اپیل کی جس کے نتیجے 14اکتوبر کو گلبرگ اور دیگر کمپیسزپر احتجاج شروع ہوگیا۔اس ریپ کے خلاف اور احتجاجی طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دیگر نجی اور سرکاری کالجز اور یونینورسٹیز کے طلباء نے بھی احتجاج شروع کردیا۔
پنجاب گروپ آف کالجز ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔اس کا مالک میاں عامر ہے جو نہ صرف دُنیا ٹی وی کا مالک ہے بلکہ اس کے اثاثوں میں دو چارٹرڈ یونیورسٹیاں اور 56 کیمپس بھی شامل ہیں۔ جہاں تقریباً 70,000 طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ گروپ تقریبا 132.6 ملین ڈالر (37 ارب روپے) کا مالک ہے اور اس میں ہزاروں ملازمین کام کر رہے ہیں۔تعلیم ایک بہت بڑا کاروبار ہے اور میاں عامر کا اس کاروبار میں بڑا حصہ ہے اور اس کا حکمران طبقہ کے اہم افراد سے گہرا تعلق ہے۔
کالج انتظامیہ ریپ کے واقع کو رد کررہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ کسی طالبہ کا ریپ ہوا ہی نہیں ہے اور طلباء کا یہ احتجاج افواہوں کی وجہ سے ہے۔اس احتجاج کو روکنے کے لیے 14اکتوبر کوپولیس کی بڑی تعداد موجود تھی۔یہ پولیس ریپ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے لیے بلائی گئی تھی۔
سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں ایک پولیس آفیسر طالبات کو دھمکی دئے رہا تھاکہ ”یہاں سے چلے جاؤ کوئی اور واقعہ نہ ہوجائے۔پولیس نے کم عمر طلباء جو اپنی ساتھی کے ریپ کے خلاف احتجاج کررہے تھے ان پرانتہائی بہیمانہ تشدد کیا جس کی وجہ سے 28سے زائد طلباء زخمی ہوگے۔
پولیس یہ کہہ رہی ہے کہ اس واقع کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی اور ان کی تفتیش کے مطابق ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے البتہ سیکورٹی گارڈ کو سرگودھا سے گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
ایک مشہور اور طاقت ور خاندان سے تعلق رکھنے والی پولیس آفیسرشہر بانو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی جو قرآنی آیات پڑھ کریہ ثابت کرنا چاہ رہی تھی کہ یہ ایک افواہ ہے اور حقیقت میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔اس کودیگر اکاونٹس کی طرح پنجاب گروپ کے فیس بک پیج پر بھی شیئر کیا گیا تاکہ خود کو سچا ثابت کیا جاسکے۔
یہ خاتون افسر ایک اور ویڈیو میں فی میل سٹوڈنٹ کے والد اور چچا ساتھ سامنے آتی ہے۔ اس وڈیو میں اس لڑکی کے چچا نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہماری بیٹی کا نام لیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہ 10 دن پہلے سیڑھیوں سے گری تھی اور ہمارے پاس اس کے ایکسرے اور ڈاکٹر کی رپورٹس بھی ہیں۔ پولیس بھی یہی کہہ رہی ہے لیکن پنجاب کا وزیر تعلیم کہتا ہے کہ ریپ ہوا ہے اور سی سی ٹی وی کی فوٹیج پرنسپل اور انتظامیہ نے ڈیلیٹ کردی ہے۔اس پر پولیس خاموش ہے اور اب یہ وزیر بھی خاموش ہے۔
جبکہ طلباء جو احتجاج کررہے ہیں ان کا واضح موقف ہے کہ ریپ ہوا ہے اور پرنسپل نے انہیں احتجاج سے روکنے کے دھمکیاں بھی دئیں تھیں۔گلبرگ کیمپس 10 کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ”اسے بیسمنٹ میں بلایاگیا اور سکیورٹی گارڈ نے اس کے ساتھ ریپ کیا۔ اس کے چیخنے کی آوازیں کلاس روم میں سنی گئیں جس پر کچھ طلباء نے نے دروازہ کھول کر طالبہ کو باہر نکالا اس وقت لڑکی کی حالت بہت ہی خراب تھی تو ٹیچرز نے ریسکیو کو بلا کر اسے ہسپتال منتقل کیا“۔
یہ توواضح ہے کہ اس سارے معاملے کو چھپایا جارہا ہے تاکہ تعلیم کے نام پر جو بزنس ایمپائر قائم ہے اس کوئی نقصان نہ پہنچ اور اس کے علاوہ نجی تعلیم جس طرح منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اس کے خلاف کوئی مزاحمت نہ بن سکے۔اس وقت ہزاروں نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں بڑے گروپس بھی ہیں اور یہ کھربوں کا کاروبار ہے۔ان سب کا مفاد اسی میں ہے کہ طلباء مزاحمت نہ کرئیں۔کیونکہ پھر یہ اس انسانیت سوز انفرادی واقعہ تک شائد نہ رکے اور طلباء جنسی ہراسانی اور دیگر معاملات جیسے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ اور مالکان کے کنٹرول کے خلاف منظم نہ ہوجائیں۔
اس سب میں سیاسی جماعتوں کا کردار بری طرح بے نقاب ہوا ہے جو طلباء کے ساتھ دینے کی بجائے اس وقت نظام کی دلالی کررہی ہیں اور پی ٹی اآئی کا نام استعمال کرکے اسے واقعہ کو سازش کا روپ دئے رہی ہیں اوراس ظالمانہ ریپ پر ایک ایسے نجی ادارے کی حمایت کررہی ہیں جس کے بارے میں بہت پریشان کن اطلاعات سامنے آرہی ہیں اور ان نجی اداروں میں جنسی ہراسانی عروج پر ہے حالانکہ پنجاب میں ایک عورت وزیراعلیٰ ہے۔
طلباء کی یہ جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ 15اکتوبر کو بھی طلباء اس پر سراپا احتجاج رہے اور یہ احتجاج پنجاب کے دیگر شہروں جیسے گجرانوالہ،گجرات،فیصل آباد،جڑانوالہ اورکاموکی کے علاوہ پشاور میں بھی ہوئے۔لاہور میں ترقی پسند طلباء اور خاص کر پروگریسو سٹوڈنٹ کلیکٹو کے طلباء اس ایشواء پر کافی متحرک رہے اورطلباء کے ساتھ پولیس تشدد کا سامنا کرتے رہے انہوں نے 15اکتوبر کو بھی گورنمنٹ کالج لاہور سے پنجاب اسمبلی تک احتجاج کیا اور درجہ ذیل مطالبات کےحق میں چیرانگ کراس پر دھرنا دیا۔
پنجاب کالج ریپ واقعے، لاہور کالج فار ویمن میں ہراسگی واقعے اور گزشتہ روز طلبہ پر ہونے والے تشدد پر ہیومن رائٹس کے آزاد اداروں، طلبہ نمائندوں اور ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے۔
تمام کیمپسز پر اینٹی ہراسگی کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس میں طلبہ بالخصوص ایک فی میل سٹوڈنٹ کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
ہراسگی سے متعلق قوانین اور طریقہ کار پر آگاہی مہم شروع کی جائے اور یہ آگاہی ہدایات نصاب میں شامل کی جائیں۔
اس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر ایسے واقعات سکولوں،کالجز، یونیورسٹیز اور کام کی جگہوں پر ہوتے ہیں لیکن زیادہ واقعات میں طالبات اور خواتین اس کو چپ چاپ برداشت کرلیتی ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ ان کی بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا اور اکثر خاندان بھی دباؤ پر یا عزت کے نام پر اپنی عورتوں کو خاموش کردیتے ہیں اور الٹا ان پر ہی الزامات لگادیئے جاتے ہیں۔اس لیے یہ تحریک بہت اہم ہے اوراس کو جنسی ہرسانی اور پدرشاہی نظام کے خلاف تنقید کو سامنے لانا چاہیے ہے اور تمام اداروں میں اینٹی ہراسانی کمیٹیاں بنانی چاہیے ہیں اس سلسلے میں حکومت یا کالج انتظامیہ کا انتظار کرنے کی بجائے طلباء کو خود ان سکول،کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر منتخب کرنا چاہیے اور جنسی ہراسانی کے خلاف ان کمیٹیوں میں جمہوری فیصلے کرنے چاہیے ہیں تاکہ کالج کی انتظامیہ کو معلوم ہو کہ اگر انہوں نے ایسے کسی واقعہ میں مجرم کی مدد کی تو طلباء اس کے خلاف اجتماعی طور پر مزاحمت کریں گے۔اسی طرح کمپس پر سیکورٹی حقیقت میں طلباء کو کنٹرول کرنے کے لیے ہوتی ہے لہذا طلباء جمہوری طور پر فیصلہ کریں کہ اداروں کی سیکورٹی کیسے منظم کی جائے اور اس میں کالج انتظامیہ طلباء کے مطالبات کے مطابق اسے منظم کرئے جس پر طلباء کا اختیار ہو۔
جنسی ہراسانی کے خلاف یہ تحریک بہت اہم ہے۔یہ احتجاج طلباء کے غصے کو ظاہر کررہا ہے جس کی وجہ کالجز کی صورتحال اور بڑھتا ہوا سرمایہ دارانہ بحران ہے جس میں ان کی زندگی تلخ ہوگی اور وہ جانتے ہیں کہ تعلیم کے بعد بھی شاید ان کو ایک بہتر روزگار نہ مل سکے۔اس وقت پنجاب بھر میں سرکاری سکولوں کے ٹیچرز اور دیگر محکموں کے محنت کش احتجاج کررہے ہیں۔جس کی وجہ سے عوامی احتجاج کی سپیس وسیع ہورہی ہے جب حکومت اور سیاست ناکام ہوگی ہے۔ایسے میں ترقی پسندطلباء کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ طلباء تحریک کو محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ رابطہ میں لائے اور جوڑئے یوں ایک ایسی تحریک بن سکتی ہے جہاں طلباء اپنے مطالبات کو منوا سکتے ہیں اور آئی ایم ایف کے پروگرام پر نج کاری اور کٹوتیوں کے پروگرام کو بھی شکست دی جاسکتی ہے۔اس کے لیے ملک بھر میں جاری تحریکوں کو متحدہ محاذ میں اکھٹا کرناہوگا اور ترقی پسند طلباء کے علاوہ لیفٹ اورٹریڈ یونینز بھی اس کا حصہ بنیں تاکہ اس نظام کے حملوں کے خلاف عوامی مطالبات کے حق میں وسیع تر جدوجہد منظم کی جاسکے۔