تحریر:شہزاد ارشد
انقلابی سوشلسٹ سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ایسے میں ”قومی جنگ نہ مذہبی جنگ۔۔ طبقاتی جنگ۔۔طبقاتی جنگ “کا نعرہ سوشلسٹ اور ریڈیکل نظرآتاہے اور طبقاتی جدوجہد اور ریڈورکرز فرنٹ کے کامریڈز اس نعرے کو لگتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی لیفٹ میں بہت سارے قومی جدوجہد اور مذہبی جبر کے خلاف جدوجہد کو طبقاتی سوال میں محدود کردیتے ہیں۔ان کے مطابق سرمایہ داری نظام میں طبقاتی استحصال ہی سب کچھ ہے یعنی یہ طبقاتی جدوجہد کی معیشت پسند تشریح کرتے ہیں اورسرمایہ دارانہ نظام کی حرکیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
یہ درست ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں طبقاتی استحصال بنیادی ہے لیکن سرمایہ داری نظام میں استحصال کے ساتھ مختلف طرح کے جبر بھی ہیں اور یہ جبر ہی طبقہ کو قوم،نسل،عورت اور مذہب کے نام پرتقسیم کرتا ہے یعنی جبر کوئی سازش نہیں ہے بلکہ سرمایہ کی منطق اسے جنم دیتی ہے اور اس کے خلاف ردعمل بھی جنم لیتا ہے۔یہ ردعمل کہیں قومی جنگ میں سامنے آتا ہے تو کہیں مذہبی جبر کے خلاف احتجاج بن جاتاہے۔ اسے سرمایہ داری نظام کے تضادات اور بحران ہی جنم دیتے ہیں اور حکمران طبقہ اس کی بنیاد پر طبقہ کوتقسیم کرتا ہے تاکہ اس پر بالادستی قائم رہے۔
اس لیے ہمارے سماج میں پشتونوں،بلوچوں،سندھی یا دیگر اقوام کی جدوجہد حقیقی ہے البتہ اس کی صورت قومی ہے۔ابھی برمش بلوچ اور آن لائن کلاسز پر بلوچ سماج میں جو ابھار جنم لے رہا ہے یہ بھی قومی شکل اختیار کررہاہے اسی طرح پشتونوں میں اس وقت ایک طاقتور تحریک موجود ہے اس لیے بعض دفعہ لیفٹ میں کچھ یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ اس جدوجہد کا نام پشتون تحفظ موومنٹ کیوں ہے اور یہ محنت کش طبقہ کی انقلابی پارٹی کیوں نہیں بن جاتی درحقیقت یہ نکتہ نظرسرمایہ داری نظام میں مشترکہ اور غیر ہموار ترقی کے قانون کو نہیں سمجھتاہے کہ کیسے سرمایہ داری ہر جگہ استحصال کرتی ہے لیکن کچھ علاقوں اور اقوام پر جبر کی شدت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہاں تحریک نوعیت مختلف ہوتی ہے یہ سرمایہ کے جبر کے خلاف کھڑی ہوتی ہے اور جبر کے خلاف جدوجہدبھی کرتی ہے جو سرمایہ کے شکنجے کے خلاف ہے لیکن یہ طبقاتی استحصال کے خلاف نہیں ہوتی اور یہی اس کی محدودیت ہے یعنی جنگ اور فوجی آپریشن کی طبقاتی بنیادوں کو سامنے نہیں لاتی اور اسے بالادست قوم تک محدود کرتی ہے اور دوسری طرف قومی جبر کی بنیاد پرقوم کے مفاد کو کُل کے طور پر پیش کرتی ہے اور طبقاتی تضادات اور مفادات کو نظرانداز کردیتی ہے،اسی لیے اشرف غنی بھی تحریک کا ہیرو ہوتا ہے اور اسفندیار ولی بھی قوم کا فردہے۔انقلابی سوشلسٹوں کو اس تضاد کو سامنے لانے کی ضرورت ہے لیکن یہ تحریک کے قومی کردار کے انکار سے نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تحریک بہرحال ایک قومی تحریک ہی ہے ویسے بھی انقلابی سوشلسٹ قومی جبر کی تحریک کے خلاف نعرہ نہیں لگاتا اور نہ ہی اسے قیادت اور اس کے قوم پرست نظریہ کی وجہ سے رد کرتا ہے بلکہ قومی جبر کو سرمایہ داری نظام کی منطق سمجھتا ہے اور قومی جدوجہد کی حمایت کرتاہے اور یہاں وہ مظلوم اقوام کے ساتھ طبقاتی یکجہتی اور قومی تحریک میں بھی طبقہ کی آزادانہ تنظیم سازی کے سوال کو سامنے لاتا ہے۔
اسی طرح مذہب کی بنیاد پر بھی جبر ہوتاہے اور پاکستان جیسے ملک میں رہنے والوں سے بہتر اس کوکون سمجھ سکتا ہے جہاں اہل تشیع، قادیانیوں،ہندووں اور مسیحوں کو مذہبی امتیاز کے سامنا ہے اور محنت کش طبقہ میں بھی اکثر اس امتیاز کو تسلیم کرتے ہیں۔اس لیے اگر مذہبی جبر کے خلاف کوئی تحریک بنتی ہے اور اس کی قیادت یا تحریک کا رنگ مذہبی ہوگا توبھی ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گئیں بلکہ ہم مذہب کی بنیاد پر جبر کی مخالفت کو سامنے لاکر ہی حقیقت میں ایسی تحریک کو نظام کے خلاف جدوجہد میں جیت سکتے ہیں۔اس وقت ہندوستان میں جو تحریک جاری ہے یہ مسلمانوں پر جبر کے خلاف ہے اگر ہم اس عنصر کو نظرانداز کردیں اور اس کو تسلیم نہ کریں کہ نہیں طبقاتی نظام کا خاتمہ ہی تمام مسائل حل کرئے گا تو یہ حقیقت میں ہندوستانی مزدور تحریک میں موجودتعصبات کے خلاف جدوجہد نہ کرنا ہے اورحقیقت میں ہندتواکے ساتھ کھڑے ہونے کے مترداف ہے۔
اس طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب سامراج کسی ملک پر حملہ کرتاہے تو اس کی مخالفت کا اظہارزیادہ تر قومی یا مذہبی صورت میں ہوتا ہے۔لیکن سامراج کے خلاف جدوجہد کی حمایت انقلابی سوشلسٹ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک مظلوم کا اظہار ہے اور سامراجی جنگ کہ خلاف قومی جدوجہد جنم لیتی ہے لیکن یہ نعرہ اسے رد کرتا ہے اور یہ ایک بہت ہی خوفناک صورتحال ہے کہ آپ سامراجی جنگ کے مواقع پر اس طرح کی نعرہ بازی کریں۔یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ جب امریکی سامراج نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو لبرل اور لیفٹ میں بہت سارے تو مذہبی رجعت کے خلاف سامراج کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے جبکہ جنگ نہیں امن کا نعرہ لگا نے والے بھی سامراجی حملے کے خلاف مزاحمت کی بجائے نیوٹرل ہونے کا کہہ رہے تھے۔ ایسے ہی قومی جنگ نہ مذہبی جنگ کا نعرہ ایک بظاہر ریڈیکل انداز میں سامراج کو گنجائش دئے رہا تھا کیونکہ افغانستان پرامریکہ کے حملہ کے وقت مزاحمت کی شکل کسی بھی طرح طبقاتی نہیں تھی اور یہ ایک نیم نوآبادی کی مزاحمت تھی جس پر مذہبی رنگ غالب تھا۔اس طرح یہ لڑائی کی شکل ہماری پسندیدہ یا ہمارے کنٹرول میں نہیں تھی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انقلابی سوشلسٹ قوم پرست نظریہ یا مذہبی رجعت کی حمایت کرتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ ان بنیادوں پر لڑائی جیتی جاسکتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں سماج میں موجود تقسیموں کی سمجھ ہونی چاہیے کہ کیسے سرمایہ داری اسے جنم دیتی ہے اور کس طرح ان لڑائیوں کو سرمایہ داری کے خلاف لڑائی پر جیتا جاسکتاہے۔