اسرائیلی نسل کشی کا ایک سال

Posted by:

|

On:

|

ترجمہ:شہزاد ارشد

انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ،انٹرنیشنل ٹراٹسکئیٹ اپوزیشن اورلیگ فاردی ففتھ انٹرنیشنل کا مشترکہ موقف

فلسطین میں صہیونی ریاست نامنظور

لبنان پر حملہ بند کرو

امریکہ مشرق وسطیٰ سے نکال جاؤ

 سنگل جمہوری، سیکولر اور سوشلسٹ فلسطین

۔1۔7اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل میں سرحدی دفاع کو روندتے ہوئے فوجی اہداف پر حملہ کیااورزیادہ ترعام شہریوں کو یرغمال بنایا اوراپنے اڈوں پر واپس لوٹ گئے۔ اس آپریشن نے اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو ختم کردیا اورامریکی سامراج کی سرپرستی میں عرب ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات کو ”معمول“لانے کی کوششوں کو مفلوج کر دیا۔ نہتے شہریوں کی ہلاکت اور ان کے ساتھ بدسلوکی کا درد کے باوجو یہ حقیقت ہے کہ تشدد کی ذمہ دار بنیادی طور پر صہیونی اور کلونیل ریاست ہے جو پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے فلسطینی عوام کی نسل کشی اور قتل عام کررہی ہے۔ برطانوی سامراج کے تحفظ میں 76 سال پہلے 1948میں انتہائی تیزی کے ساتھ اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔

۔2حماس کے اقدامات کے جواب میں اسرائیل کی دفاعی افواج نے فلسطین کے خلاف خاص طور پر غزہ کی پٹی میں ایک وحشیانہ جنگ دوبارہ شروع کردی۔ گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، بیکریوں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں پر مسلسل بمباری؛ پانی، بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش اور بین الاقوامی انسانی اور صحت کی امداد کو روکنے کی وجہ سے اب تک 200,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی موت ہو چکی ہے جن میں سے 41,000 گولیوں اور بموں سے اوردسیوں ہزار مزید غذائی قلت اور دوائیوں کی کمی کی وجہ سے  زندگی کی بازی ہار گے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں – تقریباً 10,000 ملبے تلے دبے کرموت کے منہ میں چلے گے، 95,000 زخمی ہوئے اورتقریباً 20 لاکھ بے گھر اور تمام بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوگیا۔ اس قتل عام کے ساتھ صہیونی فوجی اور آباد کار مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی باشندوں پر حملے کررہے ہیں۔

۔3۔گزشتہ ہفتے سے اسرائیلی ریاست نے لبنان پر اپنے حملوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے اس نے ہزاروں پیجرز کو دھماکے سے اڑا دیا اور پھر اس نے جنوب میں شہریوں کے خلاف بمباری شروع کردی اس وجہ سے پورے مشرق وسطی میں جنگ کے پھیلنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اب تک اس کی جارحیت میں سینکڑوں ہلاکتیں، ہزاروں زخمی اور جنوبی لبنان اور بعلبک، بیکا اور ہرمل کے علاقوں سے دارالحکومت بیروت کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو چکی ہے۔ یہ 1982 میں صیہونی قبضے کے بعد اس ملک پر سب سے بڑا حملہ ہے، اسرائیل ایسی جارحیت اب دہرانا چاہتا ہے۔ نصراللہ کا قتل اور جنوبی لبنان پر حملہ حزب اللہ اور پوری لبنانی عوام کے خلاف ایک ہمہ گیر جنگ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لبنان کی اقتصادی تباہی کے نتیجے میں ہسپتالوں اور انسانی امداد کے اداروں کی کام کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔

۔4۔گذشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل کے حملے اور مسلح کارروائیاں شام، یمن اورایران تک پھیل گئیں ہیں جس میں اسے ہمیشہ امریکہ، مغربی سامراج اور ان کی حکومتوں کی اقتصادی، سیاسی اور فوجی حمایت رہی ہے۔ روس اور چین کانیا سامراج اور عرب ممالک کی اکثریتی سرمایہ دارانہ حکومتیں واضح طورپر یا پس پردہ اسرائیل کی حمایت کررہی ہیں ۔ اسرائیل مخالف بیانات سے ہٹ کر رجعت پسند اور تھیوکریٹک ایرانی حکومت نے عملی طور پر فلسطینی مزاحمت کی توقعات سے بہت کم مدد کی ہے لیکن خطے میں حقیقی امن کے امکان کے لیے سب سے بڑا خطرہ صہیونی سامراجی جبر ہے۔

.۔5۔افواج میں بے پناہ تفاوت اور قتل عام کے باوجود اسرائیل ابھی تک فلسطینی مزاحمت پر قابو پانے،حماس کو ختم کرنے یا یرغمالیوں کی بازیابی میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم سامراجی ممالک میں، عرب دنیا اور عالمی سطح پر فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور صہیونی مفادات کے بائیکاٹ کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے، کیمپ لگانے اور دیگر اقدامات میں نوجوان ہراول کا کردار ادا کررہے ہیں جو اسرائیل کے مجرمانہ کردار کو بے نقاب کررہے ہیں۔ ایکٹوسٹ حکومتوں کے جبر اور ظلم و ستم کو چیلنج کرتے ہیں اور ان کی ملی بھگت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر جنگ کو مستردکرنے کی وجہ سے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں پر اسرائیل کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کرنے کا دباؤ پر ہے جس میں جنگ بندی، انسانی امداد کی آمد اور نئے علاقوں پر قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن یہ ادارے مؤثر پابندیوں کے بغیر خود کو رسمی اعلانات تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔ فتح کا واحد فیصلہ کن کردار فلسطینی مزاحمت اور عرب عوام اور پوری دنیا کی فعال یکجہتی میں ہے۔

۔6۔نیتن یاہو، لیکود اور مذہبی جماعتوں کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت واضح طور پر منظم قتل عام کے زریعے اپنی فلسطینی مخالف جارحیت کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ اسرائیل میں احتجاجی مظاہرے حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کرے لیکن وہ صیہونی تسلط کی حمایت کرتے ہیں۔ ترقی پسندانہ قبضے  مخالف حصہ بہت چھوٹا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی عباس اور مغربی کنارے میں پی ایل او اسرائیل کے ساتھ کم و بیش کھلے تعاون کررہے ہیں۔ جہاں تک حماس، حزب اللہ اور دیگر بورژوا اور جہادی قوم پرست قیادتوں کا تعلق ہے ان کا سیاسی منصوبہ ایک سرمایہ دارانہ اور اسلامی بنیاد پرست ایران کی طرز پر فلسطینی ریاست ہے۔جسے ہم رجعت پسند اور آمرانہ تصور کرتے ہیں۔ ہم ناقابل مصالحت اختلافات کی وجہ سے اس حکمت عملی کو مسترد کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ایک نئی انقلابی سوشلسٹ اور عالمی سطح پر فلسطینی قیادت کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

۔7۔. ان بنیادی اختلافات کے باوجود ہم غیر مشروط طور پر فلسطینی عوام کی آزادی اورحق خود ارادیت اور ہر طرح سے ان کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے غصب شدہ گھروں اور زمینوں کی واپسی اور ان کی واپسی کے لیے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم نوجوانوں، ورکرز،عوام،انسانی حقوق اور عوامی تنظیموں، امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ، مغرب اور پوری دنیا میں صیہونیت مخالف عرب اور یہودی ایکٹوسٹوں کواسرائیل کی ریاست کی مخالفت اور فلسطین کی حمایت میں تحریک میں جفاکشی کی اپیل کرتے ہیں۔ انقلابی سوشلسٹوں کا پہلا کام صہیونی نسل کشی کے خلاف اور فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ممکنہ اتحاد کو فروغ دینا ہے۔ ہم لبنانی عوام کی حمایت کرتے ہیں جو آج اسرائیل کی طرف سے وحشیانہ حملے کی زد میں ہیں۔

۔8۔. جب تک صہیونی تھیوکریٹک اور دہشت گرد ریاست اسرائیل کا جبرموجود ہے مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک کوئی منصفانہ اور پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا ہے جسے سامراج نے مصنوعی طور پر عرب لوگ پر مسلط کررکھا ہے۔ اسی طرح  امن نہ ہی ناکام دو ریاستی پالیسی کے ساتھ جسے سامراج اور اس کے اتحادی دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ ہی سرمایہ دارانہ اور اسلام پسند فلسطینی ریاست کے ساتھ ممکن ہے۔ ترقی پسند کردار ادا کرنے کے لیے اسرائیلی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو صیہونیت سے ناطہ توڑنا ہوگااس کی جنگ کو مسترد کرنا ہوگا اور فلسطینی کاز کی حمایت کرنی ہوگی۔ جابر اسرائیلی ریاست کی یقینی شکست اور علاقائی سوشلسٹ انقلاب کے فریم ورک کے اندر سنگل سیکولرجمہوری اور سوشلسٹ فلسطین کے قیام سے ہی امن ممکن ہے

۔9۔زیر دستخطی تنظیمیں تجویز کرتی ہیں۔

صہیونی نسل پرستی اور نسل کشی کے خلاف فلسطینی عوام کے دفاع اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وسیع تر عالمی تحریک منظم کی جائے۔ اسرائیل کی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کے عوام کے ساتھ یکجہتی۔

فوری جنگ بندی اور غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور شام پر اسرائیلی حملوں کا خاتمہ۔ صہیونی فوجی اور آباد کار غزہ اور مغربی کنارے سے نکلو۔

مطالبہ کریں کہ حکومتیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی، اقتصادی، علمی اور فوجی تعلقات توڑ دیں۔ بی ڈی ایس مہم کی حمایت: بائیکاٹ، تقسیم، پابندیاں۔

اسرائیل میں قید تمام فلسطینیوں کی آزادی۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور ان کی زمینوں اور مکانات کی بازیابی کا حق۔تمام حقوق میں برابری۔

صہیونی ریاست کی تباہی۔ سنگل سیکولر،جمہوری اور سوشلسٹ فلسطین دریا سے سمندر تک جہاں تمام لوگ امن سے رہتے ہوں۔

عرب بادشاہتیں اور سرمایہ دارانہ حکومتیں نامنظورجو صیہونیت اور سامراج کی ساتھی ہیں۔ سوشلسٹ جمہوریہ آف مشرق وسطیٰ کی فیڈریشن

امریکہ اور تمام سامراجیوں مشرق وسطیٰ سے نکل جاؤ۔

Posted by

in