تحریر:ظریف رند
بلوچستان کے ضلع کیچ تربت شہر کے علاقے ڈنک میں گذشتہ دنوں ڈکیتی کی واردات میں ایک بلوچ خاتون کو قتل اور انکی کمسن بچی برمش بلوچ کو زخمی کر دیا گیا. ڈکیتوں میں ملوث ایک ڈاکو کو موقع واردات پر اہل خانہ اور اہل علاقہ نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا جس کے بعد پولیس نے مزید کاروائی کرتے ہوئے واردات میں ملوث دو اور ڈکیتوں کو بھی پکڑ لیا.
ڈکیتوں کی شناخت ہو جانے سے یہ کھلا راز افشاں ہوا کہ ان دہشتگرد عناصر کو بلوچستان کی موجودہ حکومتی جماعت ”بلوچستان عوامی پارٹی” اور ریاستی خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بلوچ قوم ریاست کے غنڈوں کو طویل عرصے سے بھگت رہی ہے اور اس کے ساتھ ریاستی اداروں کے جبروتشدد کی وجہ سے ہزاروں بلوچ جبری طورپر گمشدہ اور قتل وغارت گری بلوچستان میں معمول ہے۔ لیکن اس واقعہ کے رد عمل میں عوام نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور ڈکیتی میں ملوث تمام افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جبکہ برمش بلوچ اور مقتولہ خاتون کو انصاف دینے کا بھرپور مطالبہ کیا گیا صورتحال تبدیل ہوگی اور لوگ احتجاج میں نکل آئے اورانہوں نے دھرنا دیا۔یہ صورتحال بلوچستان میں ایک نئی سیاسی جدوجہد کو جنم دئے سکتی ہے۔
یکم جون 2020 کو تربت شہر میں ایک شاندار احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کی قیادت سول سوسائٹی،سیاسی رہنماؤں،طلبہ اور خواتین سیاسی و سماجی کارکنان نے کی جوکہ ڈنک سے شروع کر شہید فدا احمد چوک پہ آکر دھرنے کی شکل اختیار کر گئی جہاں شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈنک واقعہ کی شدید مذمت کی اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دینے کا مطالبہ کیا.
دھرنے کے شرکاء نے حکومت وقت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تمام دہشتگرد عناصر کی پشت پناہی کرنا فوری طور پر بند کیا جائے اور عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے.
ان کا کہنا تھا کہ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ ان دہشتگردوں کو ریاستی ادارے نام نہاد ”قیمتی اثاثہ” کے طور پر پال پوس کر رکھتے ہیں اور انہیں کھلی چوٹ دی گئی ہے کہ وہ عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیں مگر ظلم کے یہ دستور اب مزید نہیں چل سکتے اوراداروں کو اپنی پالیسی بدلنی پڑیگی۔خوف و دہشت کے سائے میں اب مزید نہیں رہا جاسکتا۔ ریلی کے شرکاء نے اس عہد کے ساتھ دھرنے کا اختتام کیا کہ اگر ان دہشتگرد عناصر کی سرکوبی نہ کی گئی تو آئندہ احتجاج میں مزید شدت لائی جائے گی۔