رپورٹ سوشلسٹ ریزسٹنس

یکے بعد دیگرے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاست اپنے حملوں میں شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پچھلے عرصہ میں سندھی ایکٹسوسٹ عاقب چاڈیو، عوامی ورکرز پارٹی گھوٹکی کے جنرل سیکرٹری شفقت حسین اور آئی ایم ٹی کے پاکستان سیکشن کے ممبر محمد امین کی جبری گمشدگیوں کے بعد اب کی بار صحافی مطیع اللہ جان کی باری آئی، جنہیں اسلام آباد سے غائب کر دیا گیا ہے۔
مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے ان کی گمشدگی کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کی اہلیہ سرکاری اسکول میں ملازمت کرتی ہیں اور مطیع اللہ جان ان کواسکول سے لینے گئے تھے۔ ان کی اہلیہ کے مطابق دو گھنٹے سےگاڑی اسکول کے باہرکھڑی ہے اور مطیع اللہ کا فون بھی گاڑی میں موجود ہے مگر مطیع اللہ کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
یوں تو کورونا وبا سے پہلے ہی آئی ایم ایف ڈیل کی بدولت پاکستانی معیشت پستی کا جانب گامزن تھی مگر وبا کے معیشت پر اثرات اس قدر گہرے ثابت ہوئے ہیں کہ عوام میں تحرک پیدا ہوا، جس کے نتیجہ میں ریاست نے بھی اپنے جبر، تشدد و جارحیت میں فوری اضافہ کیا۔ ملک بھر میں محنت کش طلبہ نے آنلائن کلاسز کے خلاف بھی زبردست تحریک چلائی، جس کی سب سے شاندار مثال ہمیں بلوچستان میں دیکھنے کو ملی۔ ریاست ان جمہوری تحریکوں کو ایک خطرہ کے طور پر دیکھ رہی ہے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہوئے بچے کچے جمہوری حقوق پر بھی بڑے ڈاکے ڈال رہی ہے۔ ہم ان ریاستی اقدامات کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام سیاسی اسیران اور دیگر گمشدہ افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اس وقت بائیں بازو کی قوت بازو بہت کمزور ہے مگر مل کر پھر بھی ایک لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔ ہم پاکستان کے بائیں بازو سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ کے ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے عمل کے ایک متحدہ محاذ کی تشکیل کی جائے تاکہ بچی کچی جمہوری آزادیوں کا دفاع کیا جا سکے اور مزید کے لئے مشترکہ لڑائی لڑی جا سکے۔