رپورٹ:انقلابی سوشلسٹ
پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے یونیورسٹی کے انرول طلباء کو غیر قانونی کہہ کر پنجاب پولیس کے ساتھ مل کر ہاسٹلوں پر کریک ڈاؤن کیا گیاان کے کمروں کے تالے زبردستی توڑے، طلبہ کے قیمتی اثاثے جیسے لیپ ٹاپ، موبائل، نقدی، اسناد اور ذاتی سامان ضبط کرلیے گئے اور کمرے مکمل طور پر سیل کر دیے گئے۔اس سب کا مقصد یونیورسٹی میں خوف کا ماحول بنانا ہے تاکہ طلباء اس نیولبرل حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں (فیسوں میں اضافے اور سہولیات میں کٹوتیوں) کے خلاف متحرک نہ ہوسکیں اور اس کے ساتھ ساتھ جو صورتحال سندھ میں نہر کی تعمیر یا بلوچستان اور پختوانخوہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔اس پربھی کوئی احتجاج نہ ہوسکے۔
بلوچ طلباء خاص طور بلوچ طلباء کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں جو پہلے ہی ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں، اور تعلیمی پسماندگی کے شکار ہیں ان کے ساتھ یہ ناروا سلوک نہ صرف تعلیمی ناانصافی ہے بلکہ تعلیم کے دروازے بھی ان پر بند کرنے کے مترداف ہے۔یہ کارروائیاں کا مقصد ان طلباء کو نشانہ بنانا ہے جو پسماندہ اور دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جس میں بلوچ، پختون، سرائیکی، گلگتی، کشمیری، سندھی اور حتیٰ کہ غریب پنجابی طلباء شامل ہیں اور ان کو یونیورسٹی انٹظامیہ کی طرف سے جبر و تشدد اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان طلباء کی اکثریت مالی مجبوریوں کے باعث عید جیسے تہوار پر بھی گھروں کو نہ جا سکی اور آج انہیں ان کے اپنے کمروں تک رسائی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کیمپس اس وقت مکمل طور پر ایک چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری، واٹر کینن، دھمکیاں اور خوف کا ماحول صرف اس لیے پیدا کیا گیا ہے تاکہ طلباء کو خاموش کیا جا سکے، ان کی آواز دبائی جا سکے، اور انہیں ان کے بنیادی تعلیمی حقوق اور جمہوری حقوق سے محروم کیا جا سکے۔
یہ معاملہ صرف ہوسٹلز کی بندش کا نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام پر حملہ ہے۔ یہ حملہ ان نوجوانوں پر ہے جو ناانصافی، پسماندگی اور معاشی مشکلات کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کا خواب لے کر یہاں آئے تھے تاکہ اپنا اور اپنے خاندان کو مستقبل بہتر بناسکیں اور سماج میں ایک مثبت کردار ادا کرسکیں لیکن تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند طلباء سے جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اس سے واضح ہے کہ حکمران طبقہ کو محنت کشوں کے بچوں کی تعلیم کی کوئی پروا نہیں ہے یہ ان کو سہولیات دینے کی بجائے ان پر طاقت کے استعمال کے جمہوری حق کو دبایا جارہا ہے تاکہ یہ طلباء یونیورسٹیز اور کالجوں میں حکومت کی نیولبرل پالیسیوں اور جمہوری حقوق پر پابندیوں کے خلاف متحرک نہ ہوں۔
پنجاب یونیورسٹی کے طلباء میں اس صورتحال میں بے چینی اور شدید غم و غصہ ہے اورمختلف طلباء یونینز اور کونسلز نے واضح کیا ہے کہ اگر یونیورسٹی انتظامیہ نے ان جابرانہ پالیسیوں پر عمل درآمد بند نہ کیا تو ہم یونیورسٹی میں احتجاج اور وائس چانسلر ہاؤس کے سامنے غیر معینہ مدت کے لیے دھرنے کا آغاز کریں گے، اور اس احتجاج کوتمام قوم پرست اور طلباء تنظیموں کے تعاون سے ملک گیر تحریک میں بدل جائے گا۔
Leave a Reply