تحریر۔جیمی کروگر،ترجمہ۔عرفان خان
جب پچھلے پیر کو آفیسر ڈریک چووین نے منیاپولس کی ایک سڑک پر جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنے ٹیک رکھے تھے تو شاید یہ اس سفید فام آدمی کے لئے معمول کی طرح کا اقدام تھاکیونکہ یہ بہیمانہ تشدد اور زیادتیاں ایک طویل عرصے سے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور ایک طرح سے امریکہ میں افریقی امریکی روزانہ کی بنیاد پر نسل پرستانہ کارروائیوں کا شکار ہیں۔ اس جرم کے شراکت دار تاؤ تھاو، تھامس لین اور جے الیگزینڈر کوینگ اس کو معمول کی کاروائی سمجھ رہے تھے اور اس بدترین تشدد کے مددگار تھے اورنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس تشدد میں کوئی راہگیر رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
جارج فلوئیڈ ہوا کی بھیک مانگ رہا تھا تاکہ سانس لینے کے قابل ہوسکے، لیکن نسل پرستانہ نظام جو غیر انسانی پولیس افسران کو جنم دیتا ہے ان آفیسرز نے اس بنیادی انسانی ضرورت کی تکمیل کی بھی اجازات نہیں دی اور اسے بے رحمانہ طریقہ سے قتل کردیا گیا۔ پچھلے کئی سالوں سے سفید فام پولیس کے ہاتھوں افریقی امریکیوں کا قتل ایک معمول بن گیا ہے اس کی چند ایک مثالیں ایرک گارنر، مائیکل براؤن، بریونا ٹیلرکی ہیں لیکن اس بار کچھ مختلف ہوااور جڑواں شہروں (منیاپولس اور سینٹ پال) میں شروع ہونے والی بغاوت نے اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے حالیہ تاریخ میں یہ ایک بے مثال بغاوت ہے۔
بغاوت کی شروعات
پیر 25 مئی کوپولیس کو مشتبہ جعل سازی کی وجہ سے ساؤتھ منیاپولس میں شکاگو ایونیو کے ایک مقامی کارنر اسٹور پر بلایا گیا۔ جب یہ چاروں پولیس اہلکار وہاں پہنچے تو انہوں نے قریب ہی کی کار میں جارج فلوئیڈ کو بیٹھا ہوا پایا۔ گرفتاری میں انہیں کس رکاوٹ کاسامنا کرنا پڑا اس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں لیکن پولیس نے بعد میں یہ دعوی کیا کہ وہ گرفتاری کی مزاحمت کر رہا تھا اسی وجہ سے انہوں نے اسے زمین پر دبا رکھا تھا، ڈیرک چووین نے فلوئیڈ کی گردن پر اپنے جسم کے پورے وزن کے ساتھ 8 منٹ سے زیادہ گھٹنے ٹیکے رکھے جبکہ دو دوسرے افسروں نے اس کوممکن بنایا کہ کوئی اس میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
فلوئیڈ کی سانس کے لئے التجاء آفیسرز پر بالکل اثرانداز نہیں ہوئی اور انہوں نے راہگیروں کی اپیل پر بھی کوئی توجہ نہ دی کہ اسے سانس لینے دیں، فلوئیڈپر مکمل قابو پانے اور نیم مردہ حالات کے باوجود چووین نے اس کے گلے کو دبائے رکھا۔ پیرامیڈیکس نے اسے اسپتال لانے کے بعد مردہ قرار دے دیا لیکن دیگرغیر سرکاری اطلاعات کے مطابق وہ پہلے ہی مر چکا تھا یا کم ازکم نیم مردہ حالت میں تھا۔ پولیس کے بیانیہ کو غلط ثابت کرنے والی خوفناک ویڈیو فوٹیج سوشل میڈیا پر آنے کے بعد لوگ اسٹور پر جمع ہونا شروع ہوگئے اور وہ انصاف کا مطالبہ کرنے لگے۔
بہت تیزی کے ساتھ میناپولس پولیس ڈیپارٹمنٹ کے چار افسران کو برطرف کردیا گیا اور تفتیش ایف بی آئی کے حوالے کردی گئی۔ بلاشبہ اس کی وجہ پولیس دہشت گردی کے اس نئے واقع کے خلاف انتہائی ریڈیکل اورلڑاکا جدوجہد کاابھرنا تھا تاہم مقامی اور ریاستی عہدیداروں کے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ اس سے بھی مظاہرین پرسکون نہیں ہوئے اور ان کی لڑاکا جدوجہد میں مزیدشدت آئی۔ جمعہ کی صبح وہ احتجاج کرتے ہوئے اس اسٹیشن کی طرف گئے جہاں یہ افسر تعینات تھے اور انہوں نے اس اسٹیشن کو جلادیا۔بعدازں چاوین کو تحویل میں لیا گیا تھا اوراس پر الزام عائد کردیاگیا۔
اگرچہ عوامی دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھالیکن اس کے باوجود 29 مئی کے دن نپین کاؤنٹی کے اٹارنی مائک فری مین نے تھرڈڈگری اور قتل کے الزامات کے ساتھ ڈیرک چاوین کی گرفتاری کا حکم دیا۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک فلوئیڈ کے قتل میں چاوین کی مدد کرنے والے تینوں افسران کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔
میناپولس میں پولیس دہشت گردی
جڑواں شہروں میں پولیس کی بربریت اور نسلی امتیاز کوئی نئی بات نہیں ہے اور امریکہ کے دیگر بڑے شہروں کی طرح ہی یہاں بھی یہ روئیے ہمیشہ سے موجود ہیں۔ میناپولس پولیس فورس تاریخی طور پر سفید بالادستی اور ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کے لئے جانی جاتی ہے۔ میناپولس پولیس ڈیپارٹمنٹ کی یونین 800 سے زائد افسران کی نمائندہ ہے،پولیس آفیسرز فیڈریشن آف مینی پولس کی سربراہی لیفٹیننٹ باب کرول کرتے ہیں جو ٹرمپ کے بہت بڑے حمایتی ہیں، جس پر ایک مقدمہ میں الزام عائد ہے جو پولیس کے موجودہ چیف میڈریا اراڈونو نے لگایا ہے کہ ماضی میں اس نے موٹرسائیکل جیکٹ پر ”وائٹ پاور” بٹن لگایا تھا۔ کرول ”ٹوٹی ہوئی کھڑکی” پالیسی کا ایک مضبوط حامی ہے جو رنگ دار ہمسائیوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔ اس گہری اور منظم نسل پرستی کی نشوونما اس لئے ممکن ہوئی کیونکہ سیاسی اور عدالتی نظام اس کی اجازت دیتا ہے اور اس سے چشم پوشی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 2012 کے بعد سے افسران کے خلاف درج ایک فیصد شکایات پر ہی تادیبی کارروائیوں عمل میں آئی ہیں۔
میناپولس میں نسلی امتیاز امریکہ بھرمیں سب سے زیادہ ہے۔ علیحدہ زندگی گزارنے کے علاوہ مینی سوٹا میں افریقی امریکیوں کو تعلیم اور صحت میں امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاہ فام اور براؤن آبادیوں میں صحت کے بحران کے زیادہ ہونے کی وجہ سے موجودہ کورونا وائرس سے یہ غیر متناسب طور پر مررہے ہیں کیونکہ بہت سے فرنٹ لائین کام کر نے والوں کو جوکم تنخواہوں پرکام کررہے ہیں انہیں نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، ان کی صحت کی صورتحال پہلے ہی اچھی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں صحت کی مناسب انشورنس حاصل ہے۔ایک غیر مسلح افریقی امریکی شخص کی اس تازہ ترین ہلاکت نے اس بغاوت کو چنگاری فراہم کی جو مینی سوٹا اور خاص طور پر میناپولس میں نسلی امتیاز کی ایک طویل تاریخ کے خلاف بغاوت ہے۔ وہ ریاست جو ”مینی سوٹا نائس” کے نظریہ کو برقرار رکھتی ہے اور اس کا خیرمقدم اور کھلے پن کا دعوی کرتی ہے اس کی پوری تاریخ میں رنگ دار لوگوں پر منظم طور پر جبر سے لتھری ہوئی ہے۔جڑواں شہروں کے سفید فام باشندے اپنے آپ کو ترقی پسند اور کھلے دل کے سمجھتے ہیں اس کے باوجود شہر کے وسط میں واقع روایتی سیاہ فام علاقوں کو سڑکوں کی تعمیر کے لئے ختم کردیاگیا ہے اور تاریخی طور پر غریب آبادیوں کو پسماندہ ہی رکھا گیا۔ مینا پولیس میں کالی اور براؤن آبادی کی اکثریت اب بھی انتہائی علیحدہ علاقوں میں رہتی ہے۔بنیادی طور پرجبر کی ان قوتوں نے اس جاری بغاوت کو ایندھن فراہم کیا۔ سڑکوں پر موجود لوگ مطالبہ کررہے ہیں کہ باقی تینوں افسران کے خلاف الزامات عائد کیئے جائیں اور انہیں گرفتار کیا جائے اور غیر مسلح افریقی امریکیوں کی قتل وغارت گری کا خاتمہ کیا جائے۔ جب احتجاج میں اضافہ ہوا اور مقامی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بڑھ گئیں تو عمارتوں کو نذر آتش کیاگیا اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی۔ گورنر ٹم والز جو ایک ڈیموکریٹ ہے وہ طاقت کے اظہا راوربغاوت کو کچلنے کے لئے نیشنل گارڈ کی ایک بڑی تعداد کوسڑکوں پرلے آئے اور اس نے ہفتے کے آخر میں شام 8 بجے سے صبح 6 بجے تک کرفیو نافذ کردیااور تمام پبلک ٹرانسپورٹ روک دی گئی تھی جس کے نتیجے میں جڑواں شہروں میں غریب اور مزدور طبقے کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
حقیقت بڑی تعداد میں شہروں میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس نسل پرست نظام کے خلاف بغاوت میں شامل ہورہے ہیں اور جس طاقت کے ساتھ سیاسی نظام اسے کچلنے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک سیاسی اور سماجی انقلاب کی اشد ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ سڑکوں پر موجود لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ نظام غیر انسانی ہے اور اس کے خلاف جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ عوام مستقبل میں اصلاحات کے بلند وعدوں سے نہیں مطمئن نہیں ہوں گئیں جو وہ باربار سن چکے ہیں۔
مزدور تحریک کی مزاحمت کے لیے حمایت
مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے منیا پولس میں یونین بس ڈرائیوروں نے پولیس افسران کی نقل و حرکت سے اور مظاہرین کو جیل منتقل کرنے سے انکارکردیا۔ نیویارک کے بس ڈرائیوروں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ جڑواں شہروں میں 2500 کارکنوں کی نمائندگی کرنے والی اجتماعی ٹرانزٹ یونین لوکل 1005ہے جس نے ایک پٹیشن تیار کی اور اس پر دستخط کیئے۔ یہ کہتی ہے”اے ٹی یو ممبران کو روزانہ نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے ممبر ایسے محلوں میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں جہاں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں اور جہاں یہ ہوا ہے اسے اب پوری دنیا میں خوف کی کیفیت سے دیکھا جارہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پولیس کے ہاتھوں ایک کالے کی زندگی کا خاتمہ ”اب مزید نہیں“، ایک اور نہیں! جارج فلوئیڈکے لئے انصاف“۔
انصاف فارجارج فلوئیڈ کے فیس بک گروپ پر یونین کے 400 سے زائد ممبران جن میں میناپولس پوسٹل ورکرز، نرسیں، اساتذہ، اور ہوٹل کے کارکنان کے دستخط ہیں جو انہوں نے پوسٹ کیئے ہیں۔
ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ (ڈی ایس اے) نے بھی ایک بیان جاری کیا
نسل پرست پولیس تشدد سرمایہ دارانہ نظام میں اتفاقی نہیں ہے یہ اس نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جب ہم ایک بہتر دنیا کے لئے لڑتے ہیں تو یہ پولیس ہی ہوتی جو ہمارے احتجاج کو دھمکی دیتی ہے اور ہمارے پکٹ لائنوں کو توڑتی ہے، پولیس جو تشدد پر اجارہ داری رکھتی ہے اور اسے سیاہ فام لوگوں اور محنت کش طبقے کے خلاف استعمال کرتی ہے تاکہ جو طاقت اور مراعات رکھتے ہیں ان کا دفاع کیا جاسکے۔یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ”ہم میناپولس کے میئر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ریاستی منظور کردہ تمام تشدد بند کرے اور ریاستی گشت کو ختم اور نیشنل گارڈ کو واپس بلائے۔کارپوریشنوں، زمین داروں اور ارب پتی افراد کی کئی سال سے لوٹ مارکا سامنا کرنے والے اب کھڑے ہوئے ہیں اور ہم ان لوگوں کے غم و غصے کی حمایت کرتے ہیں جن کو کئی سالوں سے پولیس گردی اور غربت کی وجہ سے گھٹن کا سامنا ہے اور اب وہ اس سب کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں“۔”جارج فلوئیڈ کے قتل،اس کے خلاف ملک گیر بغاوت اور یونین کے ممبران اور سوشلسٹوں کی حمایت نسلی طور پر جبر اوراستحصال کے سامناکرنے والوں کے اٹوٹ اتحادکی ضرورت کو ظاہرکرتاہے تاکہ نسل پرست پولیس اور ٹرمپ کا مقابلہ کیا جاسکے جنہوں نے اسے بھڑکایاہے۔
غصہ کو منظم کریں تاکہ نظام کو بدلا جاسکے
ہمیں غصے کو منظم کرنے کی ضرورت ہے! ہمیں یہاں اور اب ایسے ڈھانچے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو بالآخر پورے سرمایہ دارانہ نظام کو سوالیہ نشان بنادے۔ ہمیں عوامی ٹربیونل کی ضرورت ہے جوبوسیدہ عدالتی نظام کو چیلنج کرے جو بنیادی طور پر ظلم، رنگدار لوگوں پر ظلم، خواتین پر ظلم اور جنسی امتیاز وظلم، غریب اور مزدور طبقے پر ظلم پر مبنی ہے۔ ہمیں فاشسٹ اور سفید فام قوم پرست قوتوں کے ساتھ ساتھ ظالم ریاست اور اس کے حوثیوں سے بچانے کے لئے خود دفاعی جھتے بنانے کی ضرورت ہے جنہوں نے مظاہروں میں دراندازی کی کوشش کی ہے اور لائبریریوں، ڈاکخانے اور مقامی پیٹی بورژوا کے کاروبار کو نشانہ بنایا ہے۔ اگر ہم اس جدوجہد کوکامیاب کرناچاہتے ہیں تو ان ڈھانچوں کی بنیادیں محنت کش طبقے اور یونینوں میں ہونی چاہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اس مسلسل بحران میں جو کچھ ہورہا ہے یہ سب کچھ امراء کے مفاد میں ہورہا ہے اس کا حل محنت کش عوام کے پاس ہے۔ ہمیں کالے پولیس سربراہوں، ڈسٹرکٹ اٹارنیوں جو پولیس دہشت گردی کو کور فراہم کرتے ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی کے گورنروں اور میئروں یا ریپبلکن صدور سے اس بارے میں جوابات نہیں ملیں گے اور نہ ہی انتخابات سے ایسا ممکن ہے۔ یہ تمام”علاج“دہائیوں سے آزمائے جارہے ہیں اور پھر بھی ان لوگوں نے سیاہ فام شہریوں کے قتل کو روکا نہیں ہے جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ان کی خدمت اور حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سیاہ فام اور اقلیتی پولیس کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی کچھ تبدیل نہیں کر ے گاکیونکہ پولیس اہلکار ہونے کا مطلب نظام کا دفاع ہے نہ کہ محروم اور مجبور کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔
یہ ایک تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال ہے ہم توقع کرتے ہیں کہ اس پر اگلے چند ہفتے اور مہینے تجزیہ اور تبصرے کرتے رہیں گئیں لیکن جدوجہد کی ابتدائی دنوں میں ہی ایک چیز یقینی ہے کہ اس سب کو تبدیل کرنا ہوگا یا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔