تحریر:شہزاد ارشد
پشتون تحفظ موومنٹ کے زیراہتمام قومی جرگہ 11اکتوبر سے13اکتوبر تک ہوا۔اس جرگہ کے انعقاد سے پہلے ہی ریاست نے پی ٹی ایم پر پابندی عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔اس پابندی کے ساتھ ہی پی ٹی ایم سے وابستہ افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیااور سیاسی کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گے اور ان کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔
۔3اکتوبر کو پشتون تحفظ موومنٹ نے ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں خیمہ لگایا تو اس کے ساتھ ہی پشاور اور ضلع خیبر میں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند کر دیا گیا جو جرگے کے خاتمے کے بعد کھولا گیا۔8 اکتوبر کو سیکورٹی اداروں نے جرگہ پر حملہ کیا اور تمام تر انتظامات کو تباہ کردیا۔ 9اکتوبر کو پولیس اور ایف سی نے جرگہ پر ایک دفعہ پھر حملہ کیا۔ جس پر اس جرگہ کے میزبان کوکی خیل قبیلہ کے افراد نے مزاحمت کی لیکن ریاستی تشدد کے نتیجے میں 4افراد شہید ہوئے جبکہ ایک مزیدآدمی بھی بعدازں ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔اس ریاستی تشدد میں اس کے علاوہ بڑی تعداد نوجوان سیاسی کارکنان زخمی ہوئے۔
جرگے میں خیبر پختونخواہ اوربلوچستان کے پشتون علاقوں سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔شرکاء کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ یہ تعداد تمام تر جبر و تشدد اور رکاوٹ کے باوجود تھی۔
جرگہ میں سینکڑوں کیمپ تھے جن میں مختلف علاقوں کے لوگ تھے ان تمام کیمپوں میں تقریریں ہوتی اور سرگرم افراد اور سیاسی پارٹیوں کے کارکن و مشر اپنی تقریروں میں فوج کی بیرکوں میں واپسی، حکومت کے جرگہ پر حملے، معدنی وسائل کی لوٹ مار، مسنگ پرسنز کی بازیابی، پختون عوام کی بدحالی اور سیاسی آزادیوں پر ریاستی پابندیوں پر شدیدتنقید کرتے تھے۔
ریاست کے جبرو تشدد کے باوجود لوگ ڈٹے رہے تو ریاست پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی اور مذاکرات شروع ہوگے۔وزیرداخلہ جو پہلے انتہائی تکبر کا مظاہرے کررہے تھے انہیں وزیراعلیٰ اور دیگرسیاسی پارٹیوں نے واضح کردیا کہ کیوں جرگہ کرنا ضروری ہے۔یہ واضح طور پر پشتون خطے کی صورتحال کو ظاہر کررہا تھا اور اس میں حکمران طبقہ میں بھی تقسیم واضح طور پر نظر آئی جس کے بعد وزیرداخلہ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔اس کے بعد نا صرف جرگے کی اجازات دی گی بلکہ وزیراعلیٰ خود جرگے میں پہنچے اور ضلعی انتظامیہ جرگے انتظامی معاملات میں تعاون کرتی ہوئی نظرآئی اور حکمران طبقہ کی دیگر پارٹیوں کی قیادت بھی اس جرگہ میں شامل ہوئی۔
اس جرگہ میں شریک عوام اپنے مطالبات حق میں نعرے بازی بھی کرتے رہے ان کا مطالبہ تھا کہ یہ جرگہ ان کے مسائل حل کرئے کیونکہ نظام اور پارٹیاں پر ان کو کوئی امید نہیں تھی کیونکہ یہ عوام کو کچھ بھی دینے سے قاصر ہیں۔اس جرگہ میں ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ ریاست نے عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے مفاد میں اس خطے کو جنگ اور دہشت گردی میں ڈبودیا ہے جس کے نتیجے میں پشتون قوم تباہ وبرباد ہوگی ہے۔اس جرگہ میں عوام نے ناصرف اپنے مسائل پیش کیئے بلکہ اس نے پشتون قوم کو یکجابھی کرگیا۔یہ جرگہ وہ سب کرگیا جوپشتون حکمران طبقہ کی کوئی جماعت نہ کرسکی۔
پشتون قومی جرگے اعلامیہ
پشتون قومی جرگہ نے اپنے آخری دن جمہوری طور پر ایک اعلامیہ تیار کیا جسے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے پڑھ اور کہا کہ جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ جس جگہ یہ جرگہ منعقد ہوا یہاں ایک عمارت بنے گی جس میں تمام پشتون سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے دفاتر ہوں گے۔
فوج اورطالبان کی وجہ سے بدامنی اور دہشت گردی ہے۔اس لیے یہ60 دن میں خیبرپختونخوا سمیت دیگر تمام پشتون علاقوں سے نکل جائیں۔ اگر یہ نہ نکلے تو ان کے اخراج کا بندوبست جرگہ خود کرے گا۔
جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر ضلع اور ہر پارٹی سے 3 ہزار جوان لیے جائیں گے جو کل 2لاکھ 40 ہزار بنتے ہیں۔ یہ قومی تنظیم غیر مسلح اور پرامن طریقہ سے مسائل کو حل کرئے گی۔
جرگہ نے فیصلہ کیا کہ یہاں کے وسائل کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گا جوتمام وسائل کی معلومات اکھٹی کرئے گی۔ عوام کے وسائل پر جو ناجائز قبضہ ہوگا اس کو ختم کرئیگی اور ان پر ان کا حق بحال کروائے گی۔
شہیدوں اور لاپتہ افراد کے لیے اور جن کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے ان کے لیے وکلاء کی ٹیم بنائی جائے گی اور پھر یہ وکلاء عدالتوں میں ان کے کیس لڑئیں گے اور ان کیسوں کو عالمی عدالت میں بھی لے کرجایا جائے گا۔
بجلی پشتون وطن کی پیدوار ہے اس لیے قبائلی اضلاع میں مفت بجلی دی جائے گی اور صوبے کے دیگر اضلاع میں ایک یونٹ 5 روپے سے زیادہ نہیں ہوگا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ پھر بجلی ہی نہیں ملے گی اور اگر وفاقی حکومت نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی تو پھر ان تاروں کو کاٹ دیا جائے گا جو دوسرے صوبوں میں بجلی فراہم کرتی ہیں۔
افغانستان کے ساتھ تجارت کو بحال کیا جائے بغیر ویزہ کے افغانستان کے ساتھ تجارت کی اجازت دی جائے اگر یہ نہیں ہوا تو پھر ڈیورنڈ لائن پر جو چیک پوسٹ ہے اس کو بند کیا جائے گا۔چمن سے لے کر دیر تک کے راستوں پر افغانستان سے تجارت کی اجازت دی جائے۔
جن قبیلوں کی آپس میں لڑائیاں ہے ان کو حل کیا جائے اوریہ جرگہ خاص کر کرم میں جو تنازعات ہیں اس کو حل کرے گا۔
اب بھتہ کوئی نہیں دے گا جن کو بھتہ کی کال آئے گی تواس کے خلاف پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
جو آئی ڈی پیز ہے ان کو اپنے علاقوں میں جب وہ چاہیں ان کو واپس لایا جائے اور اس کا انتظام یہ جرگہ کرئے گا۔
جرگہ نے فیصلہ کیاپختونوں کے ساتھ سندھ،پنجاب اور دیگر اکائیوں میں جو نسل پرستی ہے اس کو ختم کیا جائے۔اس بات کو جرگہ کے نمائندے یقینی بنائیں گے۔
ایک نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے جو یہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہو۔
فوج کو سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے جنھوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔
پی ٹی ایم پر پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔
جو لوگ جرگہ کو منعقد کرنے میں شہید ہوئے وزیراعلی یہاں موجود ہیں اس پر کمیشن بنائے اور جو ملوث لوگ ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔
صوبے کا قدرتی وسائل میں جو حق ہے اور وفاق کے ذمے جو واجبات ہیں وہ جلد صوبے کو دیے جائیں۔
یہ جرگہ کوئی ملٹری کورٹ اور انٹرمنٹ سنٹر نہیں مانتا ہے۔
پانی پر جو حق ہے وہ صوبے کو دیا جائے۔
جن کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں ان کو کھولا جائے اگرایسا نہیں کیا گیا تو پشتون اپنے شناختی کارڈ واپس کردیں گے۔
جو بھی سیاسی قیدی ہیں ان کو رہا کیا جائے۔اگر یہاں موجود کسی ایک فرد کے خلاف کارروائی ہوئی تو پھر یہ جرگہ سخت ترین فیصلہ کرے گا۔
ایکشن اِن ایڈ سول پاور پشتونوں پر ایک سیاہ قانون ہے اس کو ختم کیا جائے۔
جرگے نے فیصلہ کیا کہ پشتون روایت کے تحت دشمنی میں کسی لڑکی کی زبردستی شادی کرنا مزید قابل قبول نہیں ہے اس رسم ختم کیا جائے گا۔
یہ جرگہ افغانستان میں خواتین کو تعلیم کی اجازت دینے کی درخواست کرتا ہے۔
اس جرگہ سے یکجہتی کے لیے آئندہ اتوار کو تمام اضلاع میں جلسے ہوں گے۔
جرگہ کے شرکا سے حلف بھی لیا گیا کہ وہ ان مطالبات کے لیے جدوجہد کریں گے۔منظور پشتین نے کہا کہ اسٹیج پر وزیراعلی ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ہم وزیر اعلی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس صوبے کے جو حقوق ہیں اس کے لئے اسمبلی سے بل پاس کرایا جائے۔
فوجی آپریشن اوردہشت گردی کے خلاف عوامی میلہ
قومی جرگہ کاریاست کے تمام تر دباؤ،تشدد،گرفتاریوں کے باوجود انعقادایک بڑی کامیابی ہے اس سے شرکاء کے اعتماد اور حوصلے میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔یہ واضح ہوا کہ ریاست کے خلاف جدوجہد اور جیتنا ممکن ہے۔اس سے ان لاکھوں پشتونوں کو حوصلہ ملا ہے جوفوجی آپریشنوں،دہشت گردی اور اس کی تباہی اور بربادی کا شکار ہیں اور یہ دیہی غریب اس جرگہ میں بڑی تعداد میں شامل ہوئے ان کی آنکھوں میں ایک امید تھی کہ یہ جرگہ ان کے مسائل حل کرسکتا ہے۔جرگہ نے جمہوری مطالبات کا جو اعلامیہ جاری کیا ہے یہ اس کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔یہ کوئی روایتی جرگہ نہیں تھا بلکہ ایک عوامی میلہ تھا جو نظام کی جنگ، دہشت گردی،لوٹ مار کے خلاف تھا۔ جرگہ نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے ان پر پشتون حکمران طبقہ عمل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ اس کے لیے لڑئے گا البتہ اسے وہ اپنے مفادات اور زیادہ حصہ کے حصول کے لیے ضرور استعمال کرئے گا۔
کیا کیا جائے؟
یہ جرگہ اورحالیہ ابھرنے والی تحریکوں کی وجہ پاکستانی ریاست کی عالمی سامراجی نظام میں پوزیشن اور سامراجی نظام کے بحران، تضادات اور کشمکش ہے جن سے نبٹنے کے لیے ریاست تیزی کے ساتھ آمرانہ شکل اختیار کررہی ہے اور ہر جمہوری و طبقاتی تحریک کو ریاست کے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور اس کو روکنے کے لیے تمام تر غیر جمہوری ہتکھنڈے استعمال کررہی ہے۔
پشتون حکمران طبقہ کا مفاد بھی اس نظام اور ریاست میں ہے اس لیے یہ باربار پشتون قوم کے مفاد کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور اسی وجہ سے پشتون قوم پر جنگ اور دہشت گردی مسلط رہی ہے جس کے نتیجے میں پشتون قوم کو تباہی اور بربادی کاسامنا ہے۔ان حالات میں پشتون قوم کی اس جدوجہد کو پی ٹی ایم کی صورت میں اپنی سیاسی اور تنظیمی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مطالبات کے حق میں سیاسی جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا۔اس طرح یہ حکمران طبقہ کی پارٹیوں کی طرف دیہی و شہری غریب اور محنت کشوں میں موجود خوش فہمیوں کو ختم کرسکتا ہیں۔ پی ٹی ایم کی جنگ و دہشت گردی مخالف تحریک قومی آزادی کی تحریک میں بدل رہی ہے لیکن یہ امکان بھی موجود ہے کہ پشتون قومی تحریک جو دہشت مخالف جنگ کی تباہی سے پیدا ہوئی ہے یہ نظام کے بحران،کٹوتیوں اور قومی جبر کے خلاف تحریکوں سے جڑکر اس نظام کے خلاف ایک وسیع تر جدوجہد کو جنم دئے۔ا س تناظر کو حقیقت بنانے کے لیے ان تمام تحریکوں کو ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا ہوگا جس میں لیفٹ اور ٹریڈ یونینیں بھی شامل ہوں۔اس طرح ہی اس نظام کی ترقی،کٹوتیوں،جنگوں اور دہشت گردی کی تباہی اور بربادی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سامراجی نظام کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔