افغان مہاجرین کی جبری بیدخلی نامنظور

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:فرید احمد

پچھلے چند ہفتوں میں 31 مارچ کی مہلت ختم ہونے کے بعد ہزاروں افغان باشندوں کو زبردستی بیدخل کیا گیا ہے۔افغان شہری کارڈ رکھنے والے 8 لاکھ افراد کو بتایا گیا ہے کہ وہ خود پاکستان سے واپس چلے جائیں یا ان کو بیدخل کردیا جائے گا۔پچھلے 18 ماہ میں 845000 سے زائد افغان مہاجرین کو واپس افغانستان جانے پر مجبور کیا گیا ہے۔
پاکستان نے2023 میں تقریباً 4 ملین افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا تھاجو پچھلے 40 سالوں میں پاکستان آئے تھے۔1980ء میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے منسٹری آف اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز (سیفرون) قائم کی تھی۔ اس کا مقصد افغان مہاجرین کیلئے کام کرنے والے اداروں کو ان کے کام میں مدددینا تھا۔
پاکستان میں افغانوں مہاجرین کی رجسٹریشن میں یہ بنیادی شرط یہ تھی کہ ان مہاجرین کا تعلق مجاہدین گروپس سے ہو جو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے گروپوں کو افرادی قوت فراہم کرنا تھا۔ ان گروپوں کو امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے بعد1992ء میں افغان مہاجرین کے واپس جانے کا سلسلہ شروع کیاگیا۔ افغان مہاجرین کے کیمپس بند کر دیئے گئے تھے۔اس کے بعدخانہ جنگی کے دوران اور طالبان کے اقتدار میں بھی ایک بڑی تعداد مہاجرین کی آئی لیکن ایک بڑا اضافہ 2021 میں طالبان کے کابل میں دوبارہ طاقت حاصل کرنے کے بعد ہوا جس میں تقریبا 8 لاکھ مہاجرین پاکستان آئے تھے۔
افغان مہاجرین کی بیدخلی کا جواز
پاکستانی حکومت سیکیورٹی خدشات کو افغانوں کی بیدخلی کے لیے جواز کے طور پر پیش کررہی ہے حالانکہ اس کی وجوہات سیاسی ہیں۔پاکستانی حکومت کے مطابق اس کی تین وجوہات ہیں اول مبینہ سیکیورٹی خطرات، دوم اقتصادی بوجھ اور سوم ریاست کی خودمختاری ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان شہریوں کا تعلق شدت پسند گروہوں جیسے تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔لیکن ان الزامات کے لیے وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرتے ہیں۔
مختلف وزراء کے مطابق پاکستان میں بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر افغان مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ حراست میں لیے گئے افراد میں سے 80 فیصد سے زیادہ کے پاس درست دستاویزات تھیں اس سے حکومت کا دعوی غلط ثابت ہوا جس کی وجہ سے نومبر 2023 میں اپنی حکمت عملی میں اچانک تبدیلی کی اور اب وہ کسی قانونی کاروائی کے بغیر افغان پناہ گزینوں کو ان کے گھروں، اسکولوں اور بازاروں سے اٹھاتے ہیں اور انہیں براہ راست حراستی مراکز میں منتقل کرتے ہیں۔
پاکستان میں معاشی بحران اس وقت شدید تر ہے اس کی وجہ پاکستان کی عالمی سرمایہ داری میں پاکستان کی نیم نوآبادی کی پوزیشن ہے جس میں یہ عالمی سطح پر جنم لینے والے بحرانوں اور کشمکش کا مرکز بن گیا ہے لیکن یہ سرمایہ داری نظام کے بحران کی ذمہ داری افغان مہاجرین پر ڈالا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان مہاجرین نے دہائیوں سے انتہائی سستی اجرت والے کام کرکے یہاں کہ سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچایا ہے۔یہ بحران افغان مہاجرین کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ یہاں کے سرمایہ دار طبقہ کے نکمے پن،ان کے علاقائی عزائم اور ریاست کے شاہانہ اخرجات کی وجہ سے ہے۔افغان مہاجرین کو ذمہ دار ٹھرا کرریاست بنیادی طور پر نظام کی ناکامی کا بوجھ افغان مہاجرین پر ڈال رہی ہے۔
افغان خاندان جوکئی نسلوں سے پاکستان میں زندگی بسر کر رہے تھے وہ اب شدید خوف میں ہیں اور افغان کمیونٹی اور خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ والدین نے گرفتاری کے خوف اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کردیا ہے۔ یہ خوف کی وجہ سے ضروری طبی امداد کے لیے ہسپتال نہیں جارہے۔ ایک ہیجانی کفییت ہے خاص طور پر خواتین اور بچوں کی جو پولیس کے چھاپوں کی ذلت کو برداشت کرتے ہیں۔
ان حالات میں بھی افغان مہاجرین بہت ہمت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ انہوں نے آپسی رابطے کو مضبوط کیا اور ایک دوسرے کو مختلف ذرائع سے پولیس کے چھاپوں کی اطلاعت فراہم کیں ان میں سے بہت سارے محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے اور قانونی مدد کا بندوبست بھی کیا۔پولیس چھاپوں میں ایک بات بہت واضح ہے کہ یہ محنت کش اور غریب افغانوں پر ہوئے لیکن افغان امراء ان چھاپوں سے نسبتاََ محفوظ ہیں۔اس میں سرمایہ کی طاقت اور تعلقات کا اہم کردار ہے۔
نسل پرستی
پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف نسل پرستی میں شدیداضافہ ہوا ہے کیونکہ ریاست نے پچھلی دودہائیوں سے جس طرح تسلسل کے ساتھ نسل پرست پراپیگنڈہ کیا ہے اس کے عام لوگوں پربھی اثرات ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغان ان کی نوکریوں اور کاروبار پر قابض ہیں اور دہشت گردی میں بھی ملوث ہیں لیکن حقیقت جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا اس سے بلکل برعکس ہے۔ ایسے میں سب سے شرمناک رویہ لیفٹ کے ایک حصے کا ہے جوان افغان مہاجرین کے خلاف قوم پرست پوزیشن رکھتے ہوئے ان کو معیشت پر بوجھ اور آبادی کا توازن تبدیل کرنے والے قرار دئے کر بیدخلی کے حق میں ہیں۔
اس سب کے باوجود ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں محنت کشوں نے افغان مہاجرین کی مدد کی اور حکومتی پراپگنڈے کو مسترد کیا خاص کر جہاں وہ محلے کی سطح پر اکھٹے رہ رہے تھے لیکن افغان مہاجرین کی بید خلی کے خلاف کسی سیاسی تحریک کی عدم موجودگی میں انہوں نے ایسا خاموش مدد کی صورت میں کیا اور ان کی بیدخلی پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
طالبان کی حکومت میں افغان مہاجرین کی واپسی
افغان مہاجرین جن میں ایک بڑی تعداد دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں اور ان کی تیسری یا چوتھی نسل کے لیے افغانستان ایک اجنبی ملک ہے۔پاکستان میں ان کا روزگار،گھر اور تعلقات ہیں جو دہائیوں کی کڑی محنت سے بنے ہیں اور اب ان کو اس طرح بیدخل کرکے طالبان کی حکومت میں افغانستان بھیجنے کا مطلب ہے ان کی زندگیوں اور رہن سہن کو برباد کرنا جو یہاں مقامی آبادی سے مل کر پروان چڑھا ہے۔ خاص طور پر عورتوں،لڑکیوں،نسلی و جنسی اقلیتوں اورہزارہ،صحافی نیزسابق حکومت یا بین الاقوامی تنظیموں سے جڑے ہوئے افراد کی زندگیاں اور ان کا مستقبل افغانستان میں شدید خطرے میں ہے۔
طالبان حکومت نے عورتوں کے حقوق کو منظم طریقے سے ختم کر دیا ہے۔ لڑکیوں کے لیے ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی، ان کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں ہیں۔ جن عورتوں کے خاندان میں مرد نہیں ہیں ان کے لیے صورت حال بدترین ہے ان کوجبری شادیوں، گرفتاریوں اور صنفی بنیاد پربڑھتے ہوئے تشدد کا سامنا ہے اور ان کو کوئی قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کوبھی منظم امتیازی رویہ کا سامنا ہے۔
سامراج کا قبضہ اور بربادی
امریکی اور یورپی سامراج کی دہائیوں تک افغانستان میں مداخلت اور قبضے نے افغان سماج کو برباد کردیا ہے اور امریکی سامراج جس طرح افغانستان کو چھوڑ کربھاگا اس نے یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح سامراج استعمال کرنے کے بعد پھینک دیتا ہے۔امریکہ کے انسانی حقوق،جمہوریت اور عورتوں کے حقوق کا دعوی ایک جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں اور جنہوں نے اس پر اعتبارکیا اب ان کو طالبان کے ہاتھوں زندگی کے خاتمے اور قید وبند کا سا منا ہے ان حالات جو افغان 2021 کے بعد پاکستان آئے ان کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے ان کو امریکہ اور یورپی یونین نے ان کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاہے۔
امریکی سامراج کی افغانستان پراکسیزکے ذریعے مسلط خانہ جنگی نے افغان سماج کو تباہ کردیا آج افغان مختلف ممالک میں دربدر ہیں اور جو افغانستان میں ہیں ان کو طالبان اور وار لارڈز کے بدترین جبرو تشدد کا سامنا ہے۔
کیا کیا جائے؟
ان حالات میں افغان مہاجرین کو جبری بیدخل کرنے کا مطلب ایک اذیت ناک زندگی اور بہت ساروں کے لیے قید و بند کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو ہراساں کرنا بند کیا جائے ان کو رہا کیا جائے اور جبری بیدخلی کا خاتمہ کیا اور ہم عالمی مزدور تحریک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے خلاف تحریک کو منظم کیا جائے تاکہ پاکستان اور سامراجی ممالک سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کو روکا جاسکے۔ افغان مہاجرین کو یورپ اور امریکہ میں ویزہ،شہریت اور نوکریاں دی جائیں۔اسی طرح پاکستان میں موجود تمام افغان شہریوں کو پاکستان کی شہریت کی دی جائے اور حکومتی سطح پر جاری منظم نسل پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کو نوکریوں میں حصہ دیا اور ان کے بچوں کے پڑھنے اور رہائش کے لیے مناسب گھر فراہم کیئے جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *