بلوچ قوم پر ریاستی جبروتشدد نامنظور

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:شہزاد ارشد

جعفر ایکسپریس کی بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے ہائی جیکنگ کے بعد سے جو ہارڈ سٹیٹ کا ریاستی بیانیہ سامنے آیا ہے اس کے نتیجے میں بلوچ قوم پر پہلے سے جاری آپریشن میں شدت آ گئی ہے۔پچھلے چند دن میں بلوچ طلباء، وائس چانسلر بولان میڈیکل کالج اور کئی سیاسی کارکنان کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اس کے علاؤہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے متحرک کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارئے جارہے ہیں۔اس جبر و تشدد اور بلوچ کارکنوں کی بازیابی کے لیے بی وائی سی کے احتجاج پر ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی و گرفتار ہوئے ان میں ایک 12سالہ بچہ نعمت بلوچ بھی شامل ہے۔
اس قتل عام کے خلاف بی وائی سی نے شہدا ء کی لاشوں کے ساتھ احتجاجی دھرنا دیا تو اس پر وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے ان شہداء کی لاشوں کو سیکورٹی فورسز نے زبردستی قبضہ میں لے لیا اور ڈاکٹر ماہرنگ سمیت 36ایکٹوسٹوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے ایم پی او کے تحت ماہرنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ان تین افراد کے قتل کا مقدمہ درج کر دیاجو دھرنے پر پولیس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق تینوں افراد پولیس کی براہ راست فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک اور زخمی ہوئے لیکن ایف آئی آر کے مطابق یہ ہلاکتیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بلوائیوں کی فائرنگ کی وجہ سے ہوئیں۔اس کے علاوہ ماہرنگ بلوچ سمیت ڈیڑھ سو افراد کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کہ مطابق سول ہسپتال کے مردہ خانے سے 5مبینہ عسکریت پسندوں کی لاشوں کو زبردستی لے جایا گیااور توڑ پھوڑ کی گئی۔
بی بی سی اردو کے مطابق 13ایسی قبریں سامنے آئی ہیں، جن کے بارے میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان میں ان عسکریت پسندوں کی تدفین کی گئی ہے جو جعفر ایکسپریس حملے کے دوران مارے گئے۔ تاہم ان کی شناخت سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ عسکری ادارے کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں 33عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ تاہم 5لاشیں سول ہسپتال کے مردہ خانے میں تھیں، جن کو زبردستی لے جانے کا مظاہرین پر الزام ہے جبکہ 13نامعلوم افراد کی لاشیں رات کی تاریکی میں دفن کر دی گئی ہیں۔بی وائی سی کے مطابق اگریہ مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاشیں تھیں تو پھر میڈیا کی موجودگی میں ان کی تدفین ہونی چاہیے تھی۔ رات کی تاریکی میں تدفین سے یہ واضح ہے کہ یہ ان جبری گمشدہ افرادا کی لاشیں ہیں، جنہیں دوران حراست تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس وحشت اور بربریت کے خلاف پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے اور ہر شہر میں اس کے خلاف مظاہرے اور دھرنے دیئے جارہے ہیں جن پر ریاستی تشدد میں شدت آرہی ہے۔بلوچستان ہی نہیں کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پر بدترین تشدد کرتے ہوئے سمی دین بلوچ سمیت دیگر ایکٹوسٹوں کو گرفتا کرلیا گیا ہے۔
بلوچستان پر ریاستی آپریشنوں کی ایک تاریخ ہے لیکن موجودآپریشن دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری ہے جس میں ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا،ان کی مسخ شدہ لاشیں پھنکیں گئیں،ان کی اجتماعی قبریں بنائیں گئیں،فیک انکاونٹرز ہورہے ہیں۔یہ سب وہ بربریت ہے جس کا سامنا بلوچ قوم کررہی ہے۔بلوچ قوم کی جمہوری حقوق کی جدوجہد پر ریاستی جبر وتشدد نے مسلح جدوجہد کوبڑھاودیا اوراب یہ معاملہ چند ایک قبائل تک محدود نہیں ہے جس کا ریاست پروپگنڈہ کرتی ہے بلکہ بلوچ قوم میں اس کی حمایت بہت زیادہ ہے۔
چینی سامراج اور بلوچ قوم
بلوچستان میں ہونے والی ترقی کا بلوچ قوم سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ان کو بیدخل کرتی ہیں، ان کا روزگار تباہ کرتی ہے اور ان کو برباد کرتی ہے اس لیے وہ اگر اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو ان کو ترقی کا دشمن بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔ بلوچ یہ سمجھتے ہیں کہ سی پیک،گوارد یا دیگر منصوبے بلوچ قوم کے وسائل کی لوٹ مار ہے اور یہ ان پر مزید پابندیوں اور جبر کو مسلط کرتے ہیں اس لیے بلوچ قوم میں چینی سامراج اور ریاست کی شدید مخالفت ہے۔بلوچ قوم کی جدوجہد واضح طور پر سامراج اورقومی سرمایہ کے مفاد میں رکاوٹ اور اس سے ٹکراؤ میں آتی ہے۔
ایسے میں بلوچ قومی جدوجہدکو ایک پراکسی وار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس میں امریکی سامراج،ہندوستان کے علاوہ دیگر ریاستیں بھی اپنے مفادات کے لیے مداخلت کررہی ہیں لیکن بلوچ قومی جدوجہد کی مدد کے کوئی واضح شواہد موجود نہیں ہیں البتہ زبانی طور پر کچھ حمایت ضرور موجود ہے۔ اس جدوجہد کو امریکی سامراج، ہندوستان اور افغانستان سے جوڑنا قطعی طور پر غلط ہے۔ بلوچ قوم کی جدوجہد ان کا جمہوری حق اور جائز ہے۔
لیفٹ کو موجود صورتحال میں واضح طور پر بلوچ قوم کی حق خودارادیت کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ کسی طور پر چین کے سرمایہ کے استحصال کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ہمیں امریکی اور چینی سامراج کی مکمل طور پر مخالفت کرنی چاہیے یوں ہی ہم بلوچ قوم کی جدوجہد کو دیگر مظلوم اقوام اور محنت کش طبقہ سے جوڑتے ہوئے سامراج اور اس کے گماشتوں کے خلاف ایک منظم تحریک تعمیر کرسکتے ہیں۔ جس میں بلوچ اور دیگر مظلوم اقوام کے جمہوری حقوق اور حق خودارادیت ممکن ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اس تحریک کو سرمایہ داری نظام کے خاتمے تک لے جانا ہوگا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سیاسی جدوجہد
اس وقت جبری گمشدگیوں،جبروتشدد اور قتل عام کے خلاف بی وائی سی ایک پر امن سیاسی جدوجہد کررہی ہے جس کی قیادت بلوچ خواتین کررہی ہیں۔یہ جمہوری حقوق کی جدوجہد ہے اور اسے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت مل رہی ہے۔اس تحریک اور اس کی قیادت نے کسی بھی سطح پر تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا اور نہ ریاست کے خلاف تشدد کا کوئی بیان نہیں دیا۔اس کے باوجود نہ صرف اس کی سرگرمیوں میں کو ریاستی جبروتشدد کے ذریعے روکا جارہا ہے اور ان پرملک سے غداری اور دہشت گردوں کے ترجمان ہونے کے الزامات لگائے جائے رہے ہیں حالانکہ آج تک اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیئے گے۔
ریاست اس بی وائی سی کو مکمل طور پر کچلناچاہتی ہے تاکہ عوامی جدوجہد کو روکا جاسکے۔اس وجہ سے پچھلے عرصے میں ریاست کے جبر وتشدد میں شدید اضافہ ہوا اور اس سال کے پہلے دو ماہ میں 200 سے زائد بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور اس کے علاوہ فیک انکاونٹرز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جس سے نفرت بڑھ رہی ہے اور مسلح جدوجہد واحد حل بن رہا ہے۔اس کی ذمہ دار یہ ریاست ہے جو قومی اور عالمی سرمایہ کے مفاد میں بلوچ قوم کی جمہوری حقوق جدوجہد کو کچل رہی ہے۔
انقلابی سوشلسٹ اور انفرادی دہشت گردی
بلوچ یکجہتی کمیٹی کو بی ایل اے اور مسلح جدوجہد کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ریاست تشدد اور بربریت کو اس سطح پر لے گئی ہے جہاں بلوچ قوم میں ریاست مخالفت اور بیگانگی بہت بڑھ گئی ہے اور نوجوان میں مسلح جدوجہد کی طرف رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور حالیہ جعفر ایکسپریس کا واقع بھی اس کی مثال ہے۔
انقلابی سوشلسٹ انفرادی دہشت گردی پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ حکمران طبقہ اور اس میڈیا کی جانب سے دہشت گردی پر کی جانی والی تنقید سے بہت مختلف ہوتی ہے جب دہشت گردی کی بات آتی ہے تو سامراج اور ریاست سے بڑے دہشت گرد کوئی نہیں اور ان کے آپریشنوں کے نتیجے میں ہزاروں بلوچ مسنگ ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی اور اجتماعی قبریں بنائی گئیں ہیں۔ یہ بلوچستان اور پاکستان بھر میں جاری استحصال و جبر اور تشددکے ذمہ دار ہیں۔
انفردی دہشت گردی نظام کی محرومیوں اور بربادیوں کی پیداوار ہے۔ اس لئے ہماری جدوجہد سامراج اور ریاست کے خلاف ہونی چاہئے اور یوں ہی ہم انفرادی دہشت گردی کے مقابلے میں محنت کش عوام کی سیاسی جدوجہد تعمیر کر کے دہشت گرد گروپوں کا متبادل پیش کر سکتے ہیں اور ریاستی آپریشنوں،دہشت گردی اور قومی جبر سے چھٹکارا پاسکتے ہیں لیکن یہ سب ریاست کو منظور نہیں ہے اور انہیں یہ واضح ہے کہ اگر سیاسی جدوجہد مزید منظم ہوتی ہے تو ریاست کے لیے بہت مشکل صورتحال بن جائے گی اس لیے انہوں نے پچھلے عرصے میں مسلسل بی وائی سی کو دیوار ر سے لگانے کی کوشش کی اور خوف کا ایک موحول بنایا تاکہ لوگ سیاسی جدوجہد سے پیچھے ہٹیں۔اس صورتحال میں بی ایل اے نے جعفر ایکسپریس اور دیگر حملوں کے ذریعے اپنی سیاسی اتھاڑٹی قائم کرنے کی کوشش کی البتہ ریاست ان واقعات کو بنیاد بنا کر آپریشن میں تیزی لا کر سیاسی جدوجہد کو کچل رہی ہے۔
بلوچ قوم پر جبر کے خلاف یکجہتی کیسے کی جائے؟
اس وقت یہ ضروری ہے کہ بلوچ قوم پر جاری جبر پنجاب اور دیگر صوبوں کے محنت کشوں کے سامنے لایا جائے۔ اس میں انقلابی تنظیم کی شعوری مداخلت کا کردار اہم ہوگا جو محنت کش طبقہ کی روزمرہ زندگی اور جدوجہد میں اس کے تعصبات پر تنقید کرئے اور اسے جبر کے خلاف جدوجہد کی حمایت پر جیتے اور یہ واضح کرئے کہ حکمران قوم کے محنت کشوں کی اپنی جدوجہد کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ مظلوم قوم کی حمایت کرئے اور اس طرح وہ حکمران طبقہ کی پالیسیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے جس کی وجہ سے اسے مہنگائی،بے روزگاری اور غربت کا سامنا ہے اسی طرح یہ حکمران طبقہ کے نظریات اور سیاست کو بھی رد کرسکتا ہے لیکن جب بالادست قوم کا مزدور طبقہ اپنے سرمایہ داروں کا ساتھ دیتاہے تو وہ اپنے اوپر مسلط غلامی کی زنجیروں کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ یہ ایک صبرآزما جدوجہد ہے جسے شعوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جدوجہد حقیقت میں محنت کشوں کی ٹریڈ یونین کی جدوجہد سے انہیں متبادل سیاسی جدوجہد پر بھی لائے گی۔
کیا کیا جائے
بلوچ قوم کی سیاسی جدوجہد جمہوری حقوق کی جیت میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں یہ تحریک بلوچستان بھر میں پھیل گئی۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک اپنی بنیاد میں سیاسی ہے، اسے نہ ریاست سے امیدیں ہیں اور نہ بلوچ حکمران طبقہ سے ہیں۔ ان کی امیدیں ان کی اپنی جدوجہد میں ہیں۔ اس تحریک میں محنت کش طبقہ کے نوجوان اور خواتین کی اکثریت ہے جنہوں نے بلوچ حکمران طبقہ کو مسترد کردیا ہے۔ بنیادی جمہوری حقوق کے گرد یہ تحریک ہر اعتبار سے مسلح جدوجہد سے موثر ہے اس لیے ریاست اس پر حملہ آور ہے تاکہ مسلح جدوجہد کے نام پر بلوچ قوم کی متحرک سیاسی جدوجہد کو کچلا جاسکے۔ حکومت کی ہارڈ سٹیٹ بننے کی پالیسی ایک خوفناک صورتحال کو جنم دئے رہی ہے جس میں جمہوری سیاسی جدوجہد کو ختم کردیا گیاہے۔ان حالات میں لیفٹ،ٹریڈیونیوں،پی ٹی ایم اوردیگر علاقوں میں موجود عوامی حقوق کی تنظیموں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف ان مظالم کو سامنے لائیں بلکہ ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں جو بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کی مخالفت کرئے اور اسی کے ساتھ سیاسی اسیران کی رہائی اور گمشدہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرئے اور بلوچ قوم کو ان کے وسائل پر جمہوری حق کے مطالبہ کے گرد احتجاج کو منظم کرئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *