کارپوریٹ فارمنگ اور نئی نہریں نامنظور

Posted by:

|

On:

|

,

تحریر:عمران جاوید

پاکستان کی موجود حکومت کو آغازسے ہی روپے کی بے قدری،کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا سامنا تھا جس نے معاشی بحران کو شدید تر کردیا تھا۔ان حالات میں حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت کے ذریعے دیوالیہ معیشت کو سہارا دیا۔آئی ایم ایف کے پروگرام کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کامنافع اور مفاد بحال رہے لیکن اس کا نتیجہ محنت کش عوام بھگت رہے ہیں جن کو مہنگائی،بیروزگاری اور غربت کا سامنا ہے اور حکومت محنت کشوں کی نوکریوں،سہولتوں اور پنشن پر حملہ آور ہے۔اس کے ساتھ یہ صحت سے لے کر ہر محکمے کی نجکاری کررہے ہیں تاکہ سرمایہ کے منافع کے لیے ان شعبوں کو مکمل طور پر کھول دیا جائے لیکن یہ سب کرکے بھی معاشی بحران ختم نہیں ہوااور نہ ہی قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ حل ہواہے۔
ایس آئی ایف سی کوبیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانے کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جو مکمل طور پر فوجی کنٹرول میں ہے۔اس ادارے میں حاضر سروس جرنیل بھی شامل ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے معاملات میں وہی فیصلہ کن کردار کے حامل ہوں گے۔انہوں نے ایس آئی ایف سی کے تحت گرین پاکستان انیشی ایٹوپالیسی کا منصوبہ بنایاہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے خلیجی ممالک کی طرف سے زراعت میں متوقع سرمایہ کاری ہے۔
اس سلسلے میں کارپوریٹ فارمنگ کا معاہدہ آرمی چیف اور محمد بن سلمان کے مابین طے ہوااس کی مالیت 25 ارب ڈالر ہے۔ اسی منصوبے کی وجہ سے فوج نے حکومت سے 10 لاکھ ایکٹر زمین طلب کی۔ جس میں چولستان کے صحرائی علاقے کا بڑا حصہ شامل ہے۔اس منصوبے کے تحت ایک بیرونی پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوگااور خلیجی ریاستیں اس کمپنی کو کنٹرول کریں گئیں۔اس کے لیے چولستان کی بنجر زمین کے ساتھ ساتھ پنجاب کے کسانوں اور مزارعین کو بے دخل کرکے ان کی زمین پر کارپوریٹ فارمنگ کی جائے گی۔ اس میں پنجاب کی چھ اہم تحصیلوں کی45 ہزار ایکڑزرعی زمین شامل ہے۔اس میں سے 27 ہزار ایکڑ پر مزارعین کام کرتے ہیں جن کو بیدخل کیا جارہا ہے۔اس علاوہ حکومت مختلف ہتھکنڈے استعمال کرہی ہے تاکہ کسان زمین چھوڑنے پر مجبور ہو جائے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عالمی سرمایہ کے لیے کسانوں کو برباد کیا جارہا ہے یوں منصوبہ یہ ہے کہ ہزاروں کسانوں اور مزارعین کو بیدخل کرکے نجی سرمایہ کا راستہ ہموار کیا جائے تاکہ ان کا منافع اور مفادات برقرار رہیں۔ یہ واضح کرتاہے کہ سرمایہ دارانہ فریب کے برعکس کہ سرمایہ ترقی اور جمہوریت لے کرآتا ہے یہاں سرمایہ کی آمد فوج کے کنٹرول کو مضبوط بنا رہی ہے اور ترقی کا فائدہ سرمایہ داروں کو ہے اور بربادی محنت کش، کسان اور دیہی و شہری غریب کے لیے ہے۔
چولستان نہر نے4,120 کیوسک پانی کو سلیمانکی بیراج سے176 کلو میٹر دور فورٹ عباس تک منتقل کرنا ہے۔ یہ امروٹ نہر کو پانی فراہم کرے گی جو پانی کو مشرق کی طرف لے جائے گی اور یہ نہر 452 کلو میٹر کی مختلف نہروں اور چھوٹی ندیوں کے ذریعے چولستان کے 452,000 ایکڑ صحرا کی زمین کو مہیا کرے گی۔ یہ چولستان کے منصوبے کا پہلا حصہ ہے جبکہ منصوبے میں مزید 744,000 ایکڑ زمین کوپانی مہیا کرنا بھی شامل ہے۔ ارسانے اس منصوبے کے لئے جنوری 2024ء میں پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیاتھاحالانکہ سندھ کے نمائندئے نے اس کی مخالفت کی تھی اور صوبہ سندھ کاموقف ہے کہ ارسا ایسا کوئی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرسکتی ہے۔یہ منصوبہ درصل ایک سیلابی نہر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے ایک مستقل نہر میں تبدیل کر دیا گیاکیونکہ سیلابی بہاؤ کی بنیاد پر نہر کے علاقے میں مسلسل کاشت اور زرعی پیداواری عمل ممکن نہیں تھی۔
چولستان نہر کے لئے پانی کی تقسیم کے معاہدے میں کوئی پانی نہیں رکھا گیا تو کیا پنجاب کے پانی سے کچھ اس نہر کو غیر سیلابی مہینوں کے دوران دیا جائے گا؟لیکن اس سے پنجاب کے اندر بھی پانی کی کمی کا سامناہو گا۔اسی طرح غیر یقینی سیلابی بہاؤکی بنیاد پر نہر کے علاقے میں زراعت پورا سال کیسے ممکن ہوگی۔یہ توواضح ہے کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو سیلاب کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔اسی لیے سندھ کے لوگوں کو یقین ہے کہ دریا سندھ کا پانی ادھر موڑ جائے گاکیونکہ میڈیا میں یہ پراپگنڈا ہمیشہ رہا ہے کہ دریا سندھ کا پانی سمندر میں گر کرضائع ہو جاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دریائے سندھ کے پانی کا تقریباً بیس ملین ایکڑ فٹ سمندر میں نہ جائے تو اس کے نتیجہ میں یہ سمندر ڈیلٹا کو خراب کرتا ہے اور سمندر آگے بڑھتا ہے۔ 1976-1998ء تک کوٹری بیراج سے 40.69 ملین ایکڑ فٹ خارج ہونے والا پانی اب کم ہو کر 14.04 ملین ایکڑ فٹ کی تک کم ہوچکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 92 فی صد ڈیلٹا پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے اور mangrove forests مزید تباہ ہوں گے بلکہ سندھ میں چالیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی کی قلت کی وجہ سے بنجر ہونے کا خدشہ ہے۔یہ حیران کن بات ہے کہ اس منصوبے عمل درآمد سے پہلے کوئی ماحولیات کی رپورٹ نہیں لی گئی اور نہ ہی کونسل آف کامن انٹرسٹ میں سندھ سے رضامندی لی گئی ہے۔
کارپوریٹ فارمنگ کے لئے نئی نہر اور اس کی معاون نہروں کی کھدائی کے مسئلے پر اس وقت سندھ بھرمیں احتجاج ہو رہا ہے۔ یہ احتجاج صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تحصیل اور دیہات کی سطح پر ہورہے ہیں۔عام کسان اور ہاری اس میں متحرک ہیں اور سندھ کے قوم پرست اس تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کا موقف بہت زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو جس میں نئی نہر بھی شامل ہے اسکی توثیق صدر آصف علی زرداری نے کی تھی لیکن بلاول اور پی پی پی کے دیگر راہنماء اس منصوبے کو صوبہ سندھ کی حق تلفی اور پانی کے وسائل پر ڈاکہ زنی قرار دے کر احتجاج کر رہے ہیں۔نہر مخالف تحریک تقریباََ دودہائیوں سے سندھ میں قائم پی پی پی اقتدار کے لیے ایک خطرہ بن گئی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کا زرعی نظام فرسودہ ہے اور نہری نظام کی حالت بھی تباہ حال ہے اور پانی کا ضیاع بہت زیادہ ہے۔ مگران مسائل حل کرنے، عام کسان کو سستی ٹیکنالوجی اور سستی کھاد، اسپرے، اچھے بیج مہیا کرنے کی بجائے ایک بنجر علاقے کو ان زرخیر زمینوں کی قیمت پر آباد اس وجہ سے کیا جارہا ہے تاکہ معیشت کو سہارا دیا جاسکے یعنی حقیقت میں سرمایہ دارانہ استحصال کو برقرار رکھا جاسکے اور زراعت کو بھی نجی سرمایہ کے لیے منافع بخش بنایا جاسکے کیونکہ دنیا بھر میں آبادی میں اضاٖفہ کی وجہ سے جہاں ایک طرف خوراک کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ یہ ایک بڑا منافع بخش شعبہ بن گیا ہے۔اس لیے حکومت ماحولیات کو تباہ اور کسان کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔یہ بربادی صرف سندھ کی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب میں بھی کسان اس سے بری طرح متاثر ہوں گے۔
اس سب کی وجہ آئی ایم ایف کا پروگرام، قرضوں کی ادائیگی اور سرمایہ کے مفاد کو برقرار رکھنا ہے۔اس کامقابلہ کسان اور مزدور مل کرہی کرسکتے ہیں۔ایک ایسی جدوجہد جو نوکریوں کے خاتمے اور نجی کاری مخالف ہے اس کو سندھ کے کسانوں کی اس تحریک سے جڑنا ہوگا۔اس کے علاوہ اسے بلوچستان اور پختونخواہ میں جاری آپریشنوں کی بھی مخالفت کرنی ہوگی اور یوں ہی ہم اس نیولبرل سرمایہ دار اور سامراج کی پٹھو حکومت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔اس کے لیے لیفٹ،ٹریڈ یونینز اور ملک بھر میں ابھرتی ہوئی عوامی تحریکوں کو آپس میں ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ مل کرسرمایہ دارانہ جبر واستحصال کا مقابلہ کیا جاسکے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی کے لیے محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کی تشکیل کرنی ہوگی جس کی سیاست حکمران طبقہ سے آزادانہ ہواور وہ حکمران طبقہ کے حملوں کے خلاف مزاحمت کو سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد میں بدل کر موجود حکومت اورسرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کردئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *