پنجاب اور سندھ میں نیا لیبر کوڈ—–حکمران طبقہ کا مزدور تحریک پر حملہ

Posted by:

|

On:

|

تحریر:شہزاد ارشد

پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے نئے لیبر کوڈ کو5جون کوپیش کیا اور2024میں ہی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ حکمران طبقہ کا محنت کشوں پر ایک بڑا وار ہے جس کے ذریعے وہ سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں اور جو حقوق محنت کشوں نے طویل جدوجہدکے ذریعے حاصل کیئے تھے۔ حکمران طبقہ لیبر کوڈ کے ذریعے اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اس نئے لیبر کوڈ میں ٹریڈ یونینز سے کوئی مشاورات نہیں کی گئی۔اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ لیبرکوڈ سرمایہ داروں کے مفاد میں ہے اس لیبر کوڈ کو ILOکی مشاورات سے پیش کیا گیا ہے اس سے اس ادارے کی مزدور دشمنی بھی واضح ہوجاتی ہے۔نئے لیبر کوڈ کوپنجاب اور سندھ بھر کی ٹریڈ یونینز نے مسترد کردیا ہے۔
اس لیبر کوڈ میں لیبر آفیسرز کے اختیارات میں بہت اضافہ کیا گیا ہے اس کا فائدہ بھی سرمایہ داروں کو ہوگا اور یہ ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے کیونکہ سرمایہ داراپنی دولت سے ان آفیسرز کو خرید لیتے ہیں۔اس نئے لیبر کوڈ کا مقصد بنیادی طور پر مزدور تحریک کو کچلانا ہے تاکہ وہ محنت کش اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہ کرسکیں۔
اس لیبر کوڈ میں نئی اصطلاحات کو اتنا پیچیدہ اور مبہم رکھا گیا ہے کہ ان کی تشریح اور مزدوروں کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں سالوں لگ جائیں،اس دوران اپنے حق کے لیے لیبرکورٹ جانا والا محنت کش شاید زندہ ہی نہ رہے یا اس میں اتنی سکت ہی نہ ہوکہ وہ اپنا مقدمہ لڑ سکے۔
ہڑتال جو مزدوروں کا آئینی حق ہے اس کے قانون کواس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کوئی ہڑتال ممکن ہی نہیں ہوگی یعنی 60 دن تک مصالحت و مشاورتی کوششیں ضروری ہیں اور 60 دن کے بعد بھی 14 دن کے نوٹس کے بعد یعنی 74دنوں بعد آپ ہڑتال کرسکیں گے جو کہ عملاً نا ممکن ہے اگر اس کے باوجود مزدور کسی طور ہڑتال کرتے ہیں تو پھر بھی کام کو مکمل طور پر بند نہیں ہوگا اور ان کو یقینی بنانا ہو گا کہ تیس فیصد تک پیداواری عمل جاری رہے اور اگر ہڑتال زیادہ طویل ہوجاتی ہے اور کام مکمل بند ہونے کی صورت میں مالک کو بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو تو اسے یہ حق قانونی طور پر دیا گیا ہے کہ وہ دورانِ ہڑتال باہر سے نئے مزدور بھرتی کر کے کام کو جاری رکھ سکتا ہے اور اس ذریعے سے بھرتی کے طریقہ کار کو مکمل آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ خواتین کے ساتھ جنسی ہراسنگی جیسے مسائل پر محنت کشوں کے منتخب نمائندوں اور کام کی جگہ پر کمیٹیوں کی تشکیل اور ان کو با اختیار بنانے کی بجائے اعلیٰ انتظامیہ کے نمائندے کی سربراہی میں ہی کمیٹیوں کی تشکیل کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔اس سے سارا اختیار مالکان اور انتظامیہ کا ہی رہے گا جو پہلے ہی زیادہ تر صورتوں میں جنسی ہراسنگی کے ذمہ دارہوتے ہیں۔
اسی طرح لیبر کوڈ میں مزدورکی تعریف ردوبدل کیا گیاہے اور ٹھیکیداری کو صنعت اور پیدوار کے ڈھانچے میں پہلے سے لازمی حصے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح سرمایہ دار کو آکوپائر، پرنسپل اور مالک کی مختلف تشریحات کر کے معاملے کو جان بوجھ کر پیچیدہ بنایا گیا ہے تاکہ کسی بھی صنعتی جھگڑے میں مالکان اور انتظامیہ کومعاملات کو طول دینے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آ سکیں۔
یونین سازی کے عمل کو جو پہلے ہی مشکل تھا اس میں مزید پیچیدگیاں پیدا کی گئی ہیں تاکہ نئی یونین رجسٹر ہی نہ ہوسکے۔اسی طر ع سی بی اے کے اختیارات کو غیر مؤثر کیا گیا ہے اور ٹریڈ یونین رہنما کو دو سے زیادہ اداروں میں مزدوروں کی نمائندگی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مختلف اداروں کے محنت کشوں کے باہمی تعلقات کو محدود کرنا ہے۔
اس لیبر کوڈ پر ٹریڈ یونین قیادت اور ان کے نمائندوں کی تجویزوں کو مسترد کردیا گیا ہے اور صوبائی حکومتیں اپنی مرضی سے ان قوانین کو لاگو کرنا چاہتی ہے تاکہ مزدور جدوجہد ممکن ہی نہ رہے۔ان حالات میں ٹریڈ یونینز اور قیادت میں ایک بے چینی ہے اور لیبر کوڈ کے حوالے سے مختلف میٹنگز ہورہی ہیں جس میں اس لیبر کوڈ کو مسترد کرنے کے ساتھ اس کے خلاف جدوجہد کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے۔
یہ لیبر کوڈ ایک نیا نیولبرل حملہ ہے یہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب معاشی ابتری نے محنت کشوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اس کے ساتھ مختلف صنعتی یونٹ بھی بند ہورہے ہیں جہاں مالکان کے لیے پیدوار کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے اور سرمایہ کے مختلف حصوں کے تضادات میں تیزی آرہی ہے۔اس لیے اس لیبر کوڈ کے ذریعے بڑے اور درمیانے سرمایہ کے منافع کی شرح کو بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔آئی ایم ایف کا پروگرام بھی اسی کا حصہ ہے۔اس سب کے ساتھ نجکاری کے پروگرام کو بھی مسلط کیا جارہا ہے یعنی جو کچھ ادارے بچ گے ہیں ان کو بھی نجی سرمایہ کو دینے کی تیاری کی جارہی ہے اس کے لیے محنت کشوں کی نوکریاں ختم کی جارہی ہیں اور پنشن ریفارمز کی کی جارہی ہیں تاکہ ان اداروں اور عمومی طور پر سرمایہ دار کو ”قومی ترقی اور ایکسپورٹ“کے نام پر شرح منافع میں اضافہ کا موقع فراہم کیا جائے۔اس سے البتہ محنت کش عوام کو ان اداروں کی وجہ سے نسبتاََ سستی سہولیات فراہم ہیں وہ ان سے چھین لی جائیں گی اور محنت کش جن کی زندگیاں پہلے ہی جہنم بن چکی ہے یہ صورتحال ان کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔
ٹھیکیداری نظام پہلے ہی نجی اور سرکاری اداروں میں موجودہے اور نجکاری کا عمل پچھلی دہائیوں سے جاری ہے اور مزدور حقوق پر قدغنیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔ یہ سب 80 دہائی سے مزدور تحریک کی کمزوری اور قیادت کے انتظامیہ سے معاملات طے کرنے کا نتیجہ ہے جس میں مزدور طبقہ کی جدوجہد پر بھروسا کرنے کی بجائے انتظامیہ اور اس نظام سے امیدیں وابستہ کی گئیں اور یہاں ٹریڈ یونینز لڑائی کی بجائے لیبر کورٹ کے چکر میں پڑا گئی جس میں ان کو خدمات کے غوض معاوضہ بھی مل جاتا ہے اورورکرز بھی کسی قدر مطمن ہوجاتا ہے۔ فیڈریشنیں ایسے بنائیں جارہی ہیں جیسے سارا مزدور طبقہ منظم ہوگیا حقیقت میں یہ سب اس لیے ہورہا ہے تاکہ وہ انتظامیہ اور مالکان سے خود مذاکرات کرسکیں اور اس سے فوائد حاصل کرسکیں۔نجی اداروں میں بہت ساری ٹریڈیونین قیادت فیکٹری مالکان کے ساتھ مزدوروں کے استحصال اور ظلم کے ذمہ دار ہیں اور بہت سارے خود ٹھیکیدار بھی بن گئے ہیں وہ ورکرز کو خود نوکری پر رکھتے اور نکالتے ہیں۔
عالمی اور قومی سرمایہ مزدور اداروں جیسے آئی ایل او اور ریاست کے ذریعے حملہ آور ہے تاکہ محنت کشوں کی جدوجہد کی صلاحیت کو ختم کردیا جائے جو اب تک وہ تمام تر استحصال کے باوجود کسی قدر اپنے حقوق کا دفاع کرپاتے تھے۔
ٹریڈ یونین قیادت کی طرف سے جدوجہد سے زیادہ میٹنگز اور مذاکرات کیئے جارہے ہیں حالانکہ ان حالات میں ٹریڈ نین قیادت کو فیکٹریوں اور کام کی جگہ پر احتجاج کرنے کی ضرورت ہے جو محنت کشوں کو اس نئے حملے سے آگاہ بھی کرئے اور آپس میں بھی جوڑے اور کام کی جگہ پر محنت کشوں کی جمہوری کمیٹیاں تعمیر کی جائیں اور یہ کمیٹیاں ضلع،صوبے اور مرکز کی سطح پر جمہوری انداز میں منظم کرنی ہوں گئیں جہاں اس میں ٹریڈ یونینز کی قیادت رکاوٹ بنے تو لڑاکا ورکرز کے ساتھ مل کران کو تعمیر کیا جائے۔اس سب کا مقصدحکمران طبقہ کے حملوں کے خلاف جدوجہد کا مشترکہ لائحہ عمل جمہوری طور پرمرتب کرنا ہے تاکہ محنت کش طبقہ کی وسیع پرتوں کو اس جدوجہد کے لیے جیتا جاسکے اور وہ خود منظم ہوکر لڑائی کی تیاری کریں۔

Posted by

in