پہلگام میں خونی حملہ کی وجہ کشمیر پربھارتی ریاست کا قبضہ اور جبروتشدد ہے

Posted by:

|

On:

|

, ,

کشمیر پر قبضہ اور جنگ نامظور

انقلابی سوشلسٹ موومنٹ

پہلگام حملہ میں 26 ٹورسٹوں کی ہلاکت کشمیر میں نوآبادیاتی قبضے کے خلاف دہائیوں پر محیط جدوجہد میں ایک نیا باب ہے۔ ہم اس انسانی جانوں کے نقصان پر افسوس کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بھارت اس حملے کو جس طرح کشمیریوں پرمزید جبرو تشدد کے لیے استعمال کررہا ہے ہم اس کے خلاف ہیں۔ یہ حملہ بھارت کے کشمر پر قبضہ اور کشمیریوں پر دہائیوں پر مشتمل جبر وتشدد کا نتیجہ ہے اور خاص کر یہ مودی کی ہندوتوا پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے۔

قبضہ، الحاق اور نوآبادکار کی نوآبادی

 آرٹیکل 370 کی 2019 میں غیر قانونی منسوخی کے بعد کشمیر کو ایک کھلی جیل بنا دیا گیا ہے جو صرف فوجی قبضے کی وجہ سے برقرار ہے۔ آرٹیکل کی منسوخی کے ذریعے بھارتی ریاست نے نہ صرف کشمیریوں کو ان کی آئینی خود مختاری سے محروم کیا بلکہ تمام جمہوری حقوق کو منظم طور پر ختم کر دیاہے اور ایک ایسا جابرانہ فوجی لاک ڈاؤن مسلط کیا جو آج تک جاری ہے۔

کشمیرمیں نسل کشی اور آبادی کی منتقلی کی پالیسیوں میں شدت آئی ہے پچھلے دو سالوں میں 85,000 سے زائد ڈومیسائل سرٹیفکیٹس غیر کشمیریوں کو جاری کیے گئے ہیں۔ہٹ دھرمی کے ساتھ آبادی کے توازن کو بدلا جارہا ہے تاکہ کشمیرکی سیاسی حثیت کو تبدیل کیا جاسکے ۔ یہ اسرائیل کے مغربی کنارے میں فلسطین کے حوالے سے حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے جہاں زمین پر زبردستی قبضے، آبادی کی منتقلی اورادارہ جاتی نسل پرستی کے ذریعے کنٹرول کو مستقل کیا جارہا ہے۔

پہلگام کے قتل عام کے بعد جاری کریک ڈاؤن میں کشمیریوں کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اورفیک انکونٹر کیئے جارہے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نوآبادیاتی کنٹرول میں سختی لائی جارہی ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے متعدد اضلاع میں رات کے وقت چھاپے مارے ہیں اور بغیر وجہ کے کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جس کے تحت سالوں تک بغیر مقدمے کے حراست میں رکھنے کی اجازات ہے۔پورے کے پورے محلے ”دہشت گردی کے خلاف آپریشنز”کے بہانے مسمار کر دیے گئے ہیں جس سے بےشمار خاندان بے گھر ہو گئے ہیں یہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے۔

اس سب میں 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد شدت آئی ہے جس میں ہزاروں افراد کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے، انٹرنیٹ پر پابندیوں کے ذریعے کشمیروں کے اظہار رائے کے حق کو دبایا جاتا ہے اور فیک انکونٹر کرکے اسے پولیس یا فوج سے مقابلہ بتایا جاتا ہے۔ مودی حکومت کے دعوے کے برعکس کشمیر میں خوف کے ذریعے سکوت مسلط کیا گیا ہے۔ یہ ظالمانہ ہتکھنڈے کشمیریوں کی بیگانگی اور مزاحمت کو بڑھا رہے ہیں۔ ریاستی تشدد اور مسلح ردعمل کا یہ سلسلہ نوآبادیاتی قبضے کا لازمی جز ہے۔ کیونکہ کوئی بھی قوم ہمیشہ کے لیے غلامی کو بغیر جدوجہد کے قبول نہیں کرتی ہے۔

بھارتی ریاست کی آبادی میں تبدیلی کی کوششیں اور بڑے پیمانے پر جبروتشدد اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ یہ اسے فوجی جبرو تشدد سے قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ”ترقی اور انضمام” کے دعوں کی حقیقت ہے۔ یہ ایک نوآبادیاتی قبضہ جس کا تشدد ناگزیر طور پر مزید مزاحمت کو جنم دیتا ہے۔

جنگی جنون اور سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی

بھارتی حکمران طبقہ قوم پرستانہ جنون میں پہلگام حملے کا جواب انصاف کے بجائے اجتماعی سزا سے دے رہا ہے۔ مودی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی دی  ہے جو ایک رجعت پسندانہ اقدام ہے یہ پاکستان کے خلاف پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

اس کے ساتھ بھارت نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور فوجی تعیناتیوں میں اضافہ کردیا ہے، جس سے  جنگ کے خطرے میں اضافہ ہوا ہے۔

مودی کے اقدامات بین الاقوامی سطح پر دیگر انتہائی دائیں بازوکے طاقتور راہنماوں سے ممثلت رکھتے ہیں جس طرح ٹرمپ کررہا ہے یا پوٹین نے یوکرائین حملے کے ذریعے کیا ہے۔ ایسے رہنماؤں کا ابھار مودی جیسی حکومت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ بےخوفی سے مزاحمت کو کچلیں اوریہ سب وہ قوم مفاد کے نام پر کرتے ہیں۔

بھارت کے اقدامات کے جواب میں حکومت پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے اور بھارتی سرزمین سے پاکستانی شہریوں کی بے دخلی کے جواب میں جوابی اقدامات کی دھمکی دی ہے۔ سرحد کے ساتھ بھارتی اور پاکستانی مسلح افواج کی لڑائی ہورہی ہیں حالانکہ ابھی یہ ”صرف جھڑپیں” ہی ہیں اور دونوں ایٹمی طاقتیں تنازعہ کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ آگ سے کھیل رہی ہیں۔ دونوں جانب قوم پرستی اور شدت پسندی کے جذبات کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ جو کہ یقیناً ان کی اپنی رجعت پسند پالیسیوں اور داخلی مسائل پر پردہ ڈالنے کے لیے ضروری ہے۔

بھارت کے گودی میڈیا اور سیاستدانوں کی نسل پرستی

 بھارتی گودی میڈیا نے مودی حکومت کے جنگی جنون کو نئی بلندیوں پرپہنچادیا ہے۔ میڈیا میں کھل کر کشمیر کو ”غزہ کی طرح” مسمار کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہ نسل پرستی کوئی اتفاقی نہیں کشمیرمیں مودی حکومت ویسی ہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جن پر اسرائیلی ریاست عمل کررہی ہے،کشمیر دہائیوں سے بھارت کی نوآبادی ہے۔

جہاں بھارتی ریاست کی نسل پرستی کی پالیسیاں اپنی انتہاء پر ہیں۔بڑے پیمانے پر نگرانی اور فوجی دہشت گردی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کے مطالبات بھارتی حکمران طبقے اور چھوٹے سرمایہ داروں میں فاشسٹ رجحانات کو پروان چڑھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

بھارت کی ساری سیاسی جماعتیں بی جے پی سے لے کر سیکولراپوزیشن تک سبھی کشمیر پر قبضے کے ذمہ دار ہیں ۔ کانگریس پارٹی نے کشمیریوں کو دھوکا دیا اور ان کو نوآبادی بنایا۔ ان کی بی جے پی پر تنقید بہت بودی ہے اور یہ کشمیر پر قبضے کے حامی ہیں۔ جبکہ کمیونسٹ پارٹیاں (سی پی آئی اور سی پی آئی-ایم) باضابطہ طور پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کی مخالفت کرتی ہیں لیکن وہ بھارت کے قبضے کی مخالفت نہیں کرتی ہیں کیونکہ اس سے سیاسی اسلام مضبوط ہوگا۔اس سے ان کی اصلاح پسند سیاست بے نقاب ہوتی ہیں۔

 علاقائی جماعتیں جیسے اے اے پی،بی ایس پی اور ٹی ایم سی یا تو الحاق کی حامی ہیں یا انہوں نے ییان بازی سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ان کی مودی مخالفت دکھاوئے سے زیادہ کچھ نہیں ہے،اقلیتوں کی حامی جماعتیں جیسے ڈی ایم کے،این سی پی اور دیگر فوجی کریک ڈوان اور آبادی میں تبدیلی کے منصوبے کی خاموش حمایت کررہی ہیں۔

بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کی پوزیشن واضح کرتی ہے کہ یہ قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے جبروتشدد صرف بی جے پی کی حکمت عملی نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کی پالیسی ہے جس سے تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔اپوزیشن کی تنقید صرف طریقہ پر ہے کہ کشمیر پر قبضے کیسے برقرار رکھا جائے۔انقلابی سوشلسٹوں کو حکمران طبقہ کی جماعتوں کی سیاست کو مکمل طور پر مسترد کردینا چاہیے ہے اور ایک آزادانہ مزدور سیاست کو تعمیر کرنا چاہیے جو حکمران طبقہ کے دونوں دھڑوں یعنی ہندوتوا اور سیکولر نیشنل ازم سے آزاد ہو۔

لیفٹ کی پوزیشن انتہائی قابل مذمت ہے ان کی مودی مخالفت زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہے یہ مودی کے کشمیر پر مسلط ریاستی جبروتشدد کے خلاف محنت کش طبقہ کو متحرک کرنے میں ایک رکاوٹ ہیں یہ ڈرتے ہیں کہ ان کی سماجی بنیاد بکھر نہ جائے۔2019 میں مودی سرکار کی طرف سے ہونے والی  آئینی تبدیلیوں پر ان کی تنقید کے باوجود انہوں نے کبھی بھی کشمیر کے حق خود ارادیت کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے کشمیر کے ساتھ یکجہتی میں محنت کش عوام کوبڑے پیمانے پر متحرک کیا ہے۔

کمزور کی مزاحمت

جب مظلوم اقوام کی مزاحمت کے تمام پرامن راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو وہ اکثر مسلح جدوجہد کا سہارا لیتے ہیں۔ بھارتی ریاست نے کشمیر میں 900,000 فوجی تعینات کر رکھے ہیں یہ دنیا کا انتہائی ملڑلئزڈ زون ہے۔

بھارت کے کشمیر پر جابرانہ قبضے اور جبروتشدد  نے کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کردیا ہے اور وہی اس تشدد کا ذمہ دار ہے۔پلوامہ بم دھماکے کی طرح پہلگام کا حملہ بھی نوآبادیاتی قبضے کی وجہ سے ہے۔اس حملہ کی ذمہ دار بھارتی ریاست ہے نہ کہ کشمیری عوام ہیں ۔

 حقوقِ خلق موومنٹ کے رہنما فاروق طارق کا پہلگام واقعے پردہشت گردی کی مخالفت میں بیان اسے قبضے کے خلاف کشمیری قوم کی مزاحمت کی مخالفت میں لاتا ہے اور وہ لا شعوری میں بھارتی ریاست کے موقف کی حمایت کرتا ہے کیونکہ وہ نوآبادیاتی کنٹرول اور تشدد کے حق کوتسلیم کرتاہے جبکہ مزاحمت کو مجرمانہ کاروائی قرار دیتا ہے۔ یہ اخلاقی نقطہ نظر پاکستانی لبرل لیفٹ کے ایک بڑے حصے میں پایا جاتا ہے۔یہ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ کشمیر میں مسلح حملے وجہ نہیں بلکہ قبضے کا نتیجہ ہیں۔

ہم شہریوں پر حملوں کی مخالفت کرتے ہیں لیکن انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں صرف تشدد کی مخالفت کرنا کافی نہیں ہے یہ سمجھے بغیر کہ اس کی وجہ بھارتی فوجی قبضہ ہے اورحقیقت میں یہ موقف ریاست کے جبروتشدد کو جواز دیناہے۔

 بھارتی قبضے کے تحت ”امن” اور ”مذاکرات” کی اپیلیں دراصل نوآبادکارکو فائدہ دیتی ہیں کیونکہ یہ کشمیریوں سے مذاکرات کے آغاز سے پہلےان کے مزاحمت کے حق کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ یہ ایک ناقابل مصالحت تضاد کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو نوآبادکار اور نوآبادی کے درمیان ہے۔

اس لبرل دوالیہ پن کے خلاف ہم ایک پرولتاری بین الاقوامیت کا موقف پیش کرتے ہیں

          بھارت کے قبضے کی غیر مشروط مخالفت کسی بھی ترقی پسند حل کے لیے پہلی شرط ہے۔

          کشمیری مزاحمت کے ساتھ  بھرپور یکجہتی لیکن اس کے ساتھ محنت کش طبقے کی سیاسی جدوجہد کے طریقوں کے حق میں دلائل دیئے جائیں۔

محنت کش طبقے کو نہ تو بھارتی ریاست کی ظالمانہ قبضے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پاکستانی ریاست کے کشمیریوں کے ساتھ منافقانہ تعلق کی۔ ہمارا طریقہ کار طبقاتی جدوجہد ہے۔کشمیری مزاحمت کاروں، جنوبی ایشیا کے دیگر مظلوم اقوام اور بھارتی، پاکستانی اور دیگر جنوبی ایشیائی مزدوروں کے درمیان یکجہتی بنانے کی ضرورت ہے جن کا اپنے حکمرانوں کی جنگوں میں کوئی مفاد نہیں ہے۔

قبضے کے خلاف طبقاتی جدوجہد

بھارت اور پاکستان کا حکمران طبقہ کشمیر کو ایک قومی خطرے کے طور پر بے رحمی سے استعمال کرتا ہے تاکہ برصغیر کے مزدوروں اور کسانوں کو تقسیم کیا جا سکے۔ دہلی کشمیرمیں اپنے ظالمانہ قبضے کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اسلام آباد کی فوجی قیادت کشمیر کے مسئلے کو بلوچستان میں اپنے جبر کو چھپانے کے لیے استعمال کرتی ہےجہاں مہرنگ بلوچ جیسے رہنما جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف آواز اٹھانے پر ریاست کے جبروتشدد کا سامنا کررہے ہیں۔ دونوں ریاستوں سے امیدیں بے کار ہیں بھارتی اور پاکستانی بورژوازی صرف اپنے مفادات میں مداخلت کرتی ہے، یہ مظلوم قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتے ہوئے عالمی سامراج کی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔

کشمیر کا حل ان دونوں ریاستوں کے درمیان انتخاب میں نہیں ہے اورنہ ہی ان کے درمیان جنگ کی جھوٹی ”امید” میں ہے بلکہ یہ انقلابی بین الاقوامیت میں ہے۔ بھارت، پاکستان، کشمیر اور اس خطے کی تمام مظلوم اقوام کے مزدور طبقہ کا ان تنازعات میں کوئی مفاد نہیں ہے۔ ان کا حقیقی دشمن مودی کا ہندو تووا اور پاکستانی کی ریاست ہے نیز وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ان کی تقسیم سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

صرف متحد جدوجہد کے ذریعے ہی ہم قبضے،جبر اور استحصال کی زنجیریں توڑ سکتے ہیں

ہم مطالبہ کرتے ہیں

کشمیر میں بھارت کے قبضے کا فوری خاتمہ کیا جائے

          کشمیر سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا کیا جائے

          ڈومیسائل قوانین کا خاتمہ اور نسلی کشی بند کی جائے

کشمیر میں تمام جمہوری حقوق کو بحال کروبشمول خود ارادیت کے حق کے

          سندھ طاس معاہدے کی معطلی نامنظور۔ پانی ایک حق ہے، جنگ کا ہتھیار نہیں ہے

           بھارتی میڈیا کے جنگی جنون اور ریاستی پروپیگنڈے کاخاتمہ کرو

          ایک آزاد جمہوری اور سوشلسٹ ریاست جموں کشمیر کا قیام جو جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ ہو۔ سرمایہ داری اور سامراج کی جکڑ کو توڑو

عبوری مطالبات سے مزدور اقتدار تک جدوجہد

پائیدار امن کا واحد راستہ موجودہ ریاستوں سے اپیلوں میں نہیں ہے بلکہ مزدور جمہوریت کے قیام میں ہےلیکن یہ تاریخی فریضہ  محض تجریدی نعروں سے پورا نہیں ہوگا  اس کے لیے ٹھوس عبوری پروگرام پیش کرنا ہوگا جو بورژوازی کی حکمرانی کی حدود کو بے نقاب کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کا راستہ ہموار کرئے۔

ہم عبوری مطالبات پیش کرتے ہیں جو ریاستی طاقت کو چیلنج کرتے ہیں اور دوہری طاقت کی بنیاد رکھتے ہیں

ہم مزدوروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مقامی سطح پر محلے کی حفاظت کے لیے سیلف ڈیفنس کمٹیاں بنائیں تاکہ کشمیر میں فوجی جبر کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ہم فوجیوں اور سپاہیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیر میں ریاستی جبر کے احکامات کو مسترد کریں۔

ہم مزدوروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاستی تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف ٹرائبیونلز قائم کریں۔

میں موجود مزدوروں کے درمیان یکجہتی کا مطالبہ کرتے تاکہ مزدور طبقہ کو طبقاتی بنیادوں پر اکھٹا کیا جاسکے۔ ہم مختلف قومی سرحدوں کی حدود

یہ جدوجہد بھارتی اور پاکستانی ریاستوں کی ناکامی کو ظاہر کرئے گی اوراس سے محنت کشوں کو منظم کرنے میں پیش رفت ہوگی لیکن اس مزاحمت کو ہم آہنگ کرنے اور اسے انقلابی رخ دینے کے لیے ہمیں ایک انقلابی مزدور پارٹی بنانی ہوگی۔ ایسی پارٹی جو استحصال زدہ اور مظلوم لوگوں کو بین الاقوامی انقلابی پروگرام کے تحت یکجا کرے۔ صرف ایسی پارٹی ہی اقتصادی اور جمہوری جدوجہد کو منظم طور پر جوڑ سکتی ہے اوربحرانی عہد میں قیادت فراہم کر سکتی ہے اور محنت کش طبقے کو سرمایہ دارانہ ریاست کی جگہ مزدور ریاست کے قیام کے لیے تیار کر سکتی ہے جو مزدور کونسلوں اور ملیشیا پر مبنی ہوں۔

یہ راستہ طویل ہےلیکن اس کا متبادل ریاستی تشدد اور قومی تقسیم کا لامتناہی اور ناقابل برداشت چکر ہے۔

انقلابی سوشلزم کے لیے جدوجہد کرو

 مزدوروں کے جنوبی ایشیا کے لیے جدوجہد کرو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *