آج یوم مئی ایک ایسے عہد میں منایا جارہا ہے جب سامراجی طاقتوں کے درمیان دنیا کی اسرنو تقسیم کا تنازعہ بین الاقوامی صورتحال کی بنیادی خصوصیت ہے جس نے سیاسی،سماجی اور معاشی بحرانات کو تیز تر کردیا ہے۔فروری 2022 ء میں یوکرین پر روسی سامراجی حملہ بین الاقوامی سطح پر اہم سیاسی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔سامراجی تنازعہ تیزی کے ساتھ ایک فیصلہ کن عنصر بن گیا ہے۔
. ء 2008کے مالیاتی بحران کے بعد سے اس دشمنی میں بڑھتوری کی وجہ سرمایہ دارانہ منافع کا بحران ہے جس نے سامراجی ممالک اور نیم نوآبادیاتی دنیا کے زیادہ تر ممالک کو اپنی جکڑ میں لیاہوا ہے۔ روس نے یورپی اور امریکی پابندیوں برداشت کرلیاہے حالانکہ کچھ لوگوں کو امید تھی کہ وہ گھٹنے ٹیک دے گالیکن یوکرین میں پوٹن کی مہم جوئی سے اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔ چین میں بڑی مقروض تعمیراتی فرموں کے زوال سے نہ صرف دسیوں لاکھ عمارتیں نامکمل رہ گئی ہیں بلکہ حکومتی فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی جیسی بڑی یورپی معیشتیں جمود اور کساد بازاری کے درمیان ہچکولے کھارہی ہیں۔
بیشتر نیم نوآبادیاتی ممالک میں بحران جاری ہے اور تقریباً ایک ارب لوگ روزانہ کی بنیاد پر بھوک اور غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔اس صورتحال میں ماحولیاتی بحران اورجنگوں نے لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے اور پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا ہے۔ جو لوگ شمالی امریکہ یا یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں فوٹریس یورپ یا امریکہ کی سرحدوں پر موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے نسل پرستی میں اضافہ ہوا ہے اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں تارکین وطن پر معاشی پریشانیوں کا الزام لگاتے ہوئے مزید وحشیانہ اقدامات کا مطالبہ کررہی ہیں۔
سامراجی ممالک میں زائد ارتکاز زر اور شرح منافع میں کمی کی وجہ سے عالمی معیشت اور اس کے انسانی اور قدرتی وسائل پر تسلط کے لیے نئی اور پرانی سامراجی طاقتوں کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے ناصرف چین جیسے معاشی دشمن بلکہ کینیڈا، جرمنی اور میکسیکو جیسے اتحادیوں کے خلاف بھی ایک بے مثال ٹیرف جنگ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔اس کی معاشی بلیک میلنگ کا مقصد ناصرف ایک بڑھتے ہوئے حریف چین کو کمزور کرنا ہے بلکہ یورپ اور شمالی امریکہ کی دیرینہ ”شراکت داری“برقرار رکھنے کے لیے اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے اخراجات بھی ان پر ڈالنا ہیں۔ اگر ٹرمپ تجارتی جنگ شروع کرتا ہے تو ناگزیر طور پر اس کا ردعمل عالمی معیشت کو مزید متاثر کرئے گاجس سے سنگین اور طویل کساد بازاری اورمزید تباہ کن جنگوں کے خطرات بڑھ جائیں گے۔یوکرین میں سامراجی امن بھی عالمی دشمنیوں کو ختم نہیں کرے گا۔ یہ انہیں صرف ایک مختلف شکل دے گا۔ تمام سامراجی مراکز اور تمام بڑے نیم نوآبادیاتی ممالک میں فوجی اخراجات میں زبردست اضافہ، ہتھیاروں کی نئی دوڑ اور ملٹر ی لائزیشن میں اضافہ ہورہا ہے۔
حماس کی زیرقیادت 7 اکتوبر 2023 کو غزہ سے جوحملہ کیا گیا اس کی وجہ محاصرے کو ختم کرنا اور امریکی،اسرائیل اور سعودی علاقائی معاہدے میں رکاوٹ ڈالنا تھا جس میں فلسطینی شامل نہیں تھے۔اسے نیتن یاہو اور اس کے فاشسٹ اتحادیوں نے ایک خوفناک نسل کشی شروع کرنے کا بہانہ بنایا۔ غزہ میں آئی ڈی ایف نے 50000 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیااور مغربی کنارے میں بھی نسلی تطہیر کا سلسلہ جاری ہے۔ فوری جنگ بندی اور اسرائیلی نسل کشی کے خاتمے کے مطالبہ کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے بڑے مظاہروں نے واضح کیا کہ فلسطینی کاز کی حمایت کتنی گہری ہے لیکن مظالم کو ختم کرنے یا اس میں کمی کے لیے بھی یہ احتجاج ناکافی ثابت ہوئے۔
پہلگام پرحملے کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتیں اس وقت جنگ کے دھانے پر ہیں۔اس صورتحال کی بنیادی وجہ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ بھی کشمیری قوم کی جدوجہد کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔حقیقت میں دونوں ریاستوں میں کشمیریوں کے لیے کوئی نجات نہیں ہے۔بھارت میں اس وقت جنگی جنون عروج پر ہے۔اس کے نتیجہ میں کشمیر میں اس وقت 2000سے زائد افرادکو گرفتار کیا گیا ہے اورمبینہ طور پر دہشت گردوں کے گھر تباہ کیئے جارہے نیز فیک انکونٹر کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔بھارت بھر میں کشمیری طلباء،محنت کشوں اور چھوٹے تاجروں پر حملے ہورہے ہیں۔بھارتی گودی میڈیا میں ایسے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کہ کشمیریوں کو بھی فلسطینیوں کی طرح سبق سکھایا جائے۔
نومبر میں ٹرمپ کی فتح اور بین الاقوامی سطح پر دائیں بازو کی پاپولسٹ قوتوں کی پیش قدمی2024 ء میں عالمی صورتحال کی اہم خصوصیات ہیں۔ ارجنٹائن میں میلی کی قیادت میں حکومت، اٹلی میں میلونی، بھارت میں مودی کا دوبارہ انتخاب، فرانس میں میرن لی پین کا عروج یہ سب اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس صورتحال کے جاری رہنے کا امکان ہے۔ جرمنی میں اے ایف ڈی نے فروری 2025 کے الیکشن میں اپنے ووٹ دوگنا کیئے ہیں۔
پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے جو پیپلزپارٹی کی حمایت کی وجہ سے قائم ہے۔یہ حکومت مسلسل عوام کے جمہوری حقوق پر حملہ آور ہے۔پیکا ایکٹ کے ذریعے جو تھوری بہت حق رائے کی آزادی تھی اس پر بھی شدید قدغنین لگادی گئیں ہیں۔صحافیوں،سیاسی کارکنوں اور مزاحمتی آوازوں کو کچلا جارہا ہے تاکہ خوف کو مسلط کرکے سرمایہ کے مفاد میں آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد کیا جاسکا۔جس کے لیے نجکاری، نوکریوں کا خاتمہ،مراعات اور پنشن پر حملے کیئے جارہے ہیں۔
پاکستان بھر میں جہاں جمہوری حقوق پر حملے کے خلاف احتجاجات ہوئے ہیں اسی طرح محنت کش طبقہ حکمران طبقہ کے معاشی حملوں کے خلاف سرگرم ہے۔حالیہ عرصے میں پنجاب میں ہیلتھ ورکرز کادھرنا،سکولوں کی نجکاری کے خلاف ٹیچرز کا احتجاج،پختونخواہ میں استاتذہ اور ہیلتھ ورکرز کی جدوجہد،سندھ میں پیرامیڈیکل سٹاف کی جدوجہدسامنے آئی ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں میں بے چینی ہے اور گندم کی قیمت کا تعین نہ کرنے کی وجہ سے کسان بدحالی کا شکار ہیں۔ان پالیسیوں کی وجہ چھوٹے کسانوں کو بیدخل کرکے کارپوریٹ فارمنگ کو متعارف کروانا ہے تاکہ عالمی اور قومی سرمایہ کے منافع کے لیے زراعت کے شعبے کو کھولا جاسکے۔کارپوریٹ فارمنگ کے لیے نئی نہریں بنائی جارہی ہیں جس سے سندھ میں خشک سالی اورماحولیاتی تباہی میں اضافہ ہوگاجس کے خلاف سندھ میں بڑے پیمانے پر تحریک نے جنم لیا ہے اور اس کی جرات اور ہمت نے حکمران طبقہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیاہے۔بلوچستان میں ریاستی جبر و گمشدگیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک کو ریاستی جبر و تشدد کا سامنا ہے اور ڈاکٹر ماہرنگ سمیت اس کی قیادت اس وقت قید میں ہے تاکہ بلوچ قوم کی جمہوری جدوجہد کو کچلا جاسکے۔
؎؎اس صورتحال میں انقلابی سوشلسٹوں کا یہ فریض ہے کہ وہ طبقاتی جدوجہد کو قومی وجمہوری حقوق کی جدوجہدسے منسلک کرتے ہوئے موجود حکومت کی پالیسیوں کیخلاف جدوجہد کو منظم کریں اور اسے حکومت کے خاتمے کی جدوجہد میں بدل دئیں بلکہ اس جدوجہد کو سرمایہ داری مخالف جدوجہد بنادئیں لیکن اس کے لیے محنت کش طبقہ کی ایک آزادانہ پارٹی کی ضرورت ہے جو اس آدرش کے لیے جدوجہد کرئے۔
بحران کے بڑھتے ہوئے پہلواور مزدور تحریکوں کے ردعمل کی کمزوری کی وجہ سے دنیا بھر کے انقلابیوں کی نسبتاً چھوٹی اور منقسم قوتوں کے کندھوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری آتی ہے۔ جنگوں، موحولیاتی تبدیلیوں اور محنت کشوں کے جمہوری حقوق پر حملوں اور سماجی طور پر مظلوموں کے مسائل بین الاقوامی سطح پر ہی حل کیے جا سکتے ہیں اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انقلابیوں کو خود کو عالمی سطح پر منظم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں ایک ایسے پروگرام کے لیے کمپین چلانی چاہیے جومحنت کش طبقہ کو انقلابی بنیادوں پر متحرک کرئے اور ایسی رینک اینڈ فائل قیادت کو تیار کرئے جو استحصالیوں اور جابروں کے خلاف عوامی جدوجہد سے ابھری ہو۔ بنیادی سوال آج بھی ایک نئی انقلابی انٹرنیشنل کی تعمیر کا ہے جس کا سامنا مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کوتھا۔
اسی وجہ سے لیگ فار ففتھ انٹرنیشنل، انٹرنیشنل ٹراٹسکیسٹ اپوزیشن (آئی ٹی او) اور انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (آئی ایس ایل) نے یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں سے شروع ہونے والے سلگتے ہوئے بین الاقوامی مسائل پربحث کے بعد ان پر مشترکہ بیانیہ اپنایاہے۔ہم جنگوں، دائیں بازو کی قوتوں میں اضافہ لیکن طبقاتی جدوجہد کی بھی پیشین گوئی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم 2025 میں اس بحث کو اور زیادہ پرجوش طریقے سے آگے بڑھائیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم انقلابی پروگرام پر اکھٹے ہوسکیں گئیں جس کی بنیاد پر ہم ایک عالمی انقلابی تنظیم کی بنیاد رکھیں گئے۔ ہم تمام انقلابی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں جو ہمارے نکتہ نظر اور ان بیانات سے متفق ہیں جو ہم نے اب تک شائع کیے ہیں کہ وہ بھی انٹرنیشنل کی تعمیر کی بحث میں شامل ہوں۔ایک نئی انٹرنیشنل سہ جہتی بحرانوں کے تمام محاذوں پر لڑنے کے لیے ایک ضروری ہتھیار ہوگی۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران کی شدت میں اس کی تعمیر ایک اہم ذمہ داری ہے جسے آنے والے سالوں میں اس تاریخی نعرے کا منظم اظہار کرنا ہوگا ”دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!
Leave a Reply