تحریر۔شہزادارشد
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں سائنسی اور تکنیکی ترقی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔جس کے بارے میں چند صدیوں پہلے تصور ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔یہ سب کچھ انسانی محنت کی بدولت ممکن ہوا ہے اور آج دنیا میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ انسان بہترین اور پر آسائش زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود دنیا کی اکثریت غربت،بے روزگاری،بھوک،علاج کے عدم فراہمی،قومی جبر اورجنگ ودہشت گردی کا شکار ہے تو اس کی وجہ سرمایہ درانہ نظام اور اس کی منافع کی ہوس ہے جس کی وجہ سے دنیا جہنم بن چکی ہے۔سرمایہ درانہ نظام تشدد کو جنم دیتا ہے اورسرمایہ درانہ پیداوار کا عمل محنت کشوں کو زخمی اور بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔یہ سب کچھ صرف منا فع کمانے کے لئے کیا جاتا ہے۔اور انہی مقاصد کے لئے حکمران طبقہ نوآبادیاں بنتا ہے اور ان اقوام کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے آپریشن اورجنگیں مسلط کرتا ہے اورجب جبر انتہا پر پہنچتا ہے تو اس کے خلاف گوریلا کاروائیوں میں اضافہ ہوتاہے یہ کاروائیاں کمزور کا انتہائی طاقت ور کو جواب ہوتیں ہیں اس لیے مظلوم کی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے،چاہے ہم ان کی حکمت عملی سے متفق ہوں یا نہ ہوں کسی بھی مختلف پوزیشن کا مطلب ہے کہ مظلوم اور ظالم کو ایک جیسا قرار دیناہے۔
انفرادی دہشت گردی اور تشدد کے استعمال کا سوال مارکسی تحریک میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔روس میں انیسوی صدی کے آخر میں نرودنک یعنی عوام کے دوست زار شاہی کے خلاف اپنی جدوجہد میں تشدد کی کاروائیاں کر تے تھے۔اس وقت پلیخانوف،لینن ،ٹراٹسکی اور دیگر انقلابیوں نے انفرادی دہشت گردی کی بھر پور مخالفت کی۔اس وقت سے لے کر اب تک انقلابی سوشلسٹوں کی یہی سوچ رہی ہے۔لیکن اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم عدم تشدد کے حامی ہیں۔ہم جس استحصال اور جبر کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں یہ کسی ایک سرمایہ دار وزیر یا مخصوص حکومت کی پیداوار نہیں بلکہ یہ سرمایہ داری نظام کی پیداوار ہے جو ایک عالمی معاشی نظام ہے۔استحصال اور جبر کے خاتمے کے لئے سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ضروری ہے اس کے لئے محنت کش عوام کی جدوجہد اور انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے۔مخصوص مقامات پر بم حملوں اور ٹرگٹ کلنگ سے نہ تو سامراج اور ریاست کو شکست دی جاسکتی ہے اور نہ ہی نظام بدلہ جاسکتا ہے اورنہ ہیسوشلسٹ سماج قائم کیا جاسکتا ہے جس میں نظام پیداوار اور لوگوں کا اپنی زندگیوں پر کنٹرول ہو۔ایسا سماج کسی انفرادی دہشت گردی کے طریقہ کار یا فوجی قبضہ سے ممکن نہیں ہے اس کے لئے محنت کش عوام اور محروم طبقات کی انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے جو ان میں حقیقی اعتماد پیدا کرے کہ جدوجہد ممکن ہو اور اس کے زریعے دنیا بدلی جاسکتی ہے۔
مقصد خواہ کچھ بھی ہو یا یہ کن بھی حالات میں پیدا ہوں گوریلا گروپ محنت کش عوام کی جدوجہد کی جگہ لے لیتے ہیں۔ان گروپوں کی نوعیت ان کو عوام سے تضاد میں لے آتی ہے اور اگر ان کو عوامی حمایت حاصل بھی ہو تب بھی اس طریقے کار سے عوام تماشائی بن جاتے ہیں اور اوپر سے تبدیلی کی سوچ سماج میں جگہ بناتی ہے۔
انفرادی دہشت گردی کے نتیجے میں جہا ں معصوم جانوں کا نقصان ہوتا ہے وہاں سماج میں ایک خوف پیدا ہوجاتا ہے جو انہیں سیاسی عمل سے پرے کردیتا ہے یہ صورتحال حکمران طبقے کے مفاد میں جاتی ہے اور ایسے گروپوں کی عوام میں حمایت کم ہوجاتی ہے اور یوں ریاستی جبر کے لئے سازگار ماحول بن جاتا ہے اور یہ جبر حتمی طور پر عوام کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔بلوچستان،پختو نخواہ اور سندھ میں یہ آج بھی واضح ہے۔گوریلا کاروئیاں حقیقت میں عوامی جدوجہد کو تباہ کر دیتی ہے اور کئی ایسے نوجوان جو تبدیلی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ان کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔
اس لئے انفرادی دہشت گردی محنت کش عوام کا ہتھیار نہیں ہے بلکہ دیگر طبقات کا طریقہ کار ہے 20 وی صدی میں کچھ مارکسسٹوں نے انفرادی دہشت گردی کو اپنایا مگر حقیقت میں یہ مڈل کلاس کی تحریکیں تھیں۔جن کی پہچان ہی انفرادی دہشت گردی بن گئی۔آج بھی سامراجی جنگوں اور قومی جبر کی وجہ سے گوریلا کاروئیاں سامنے آتی ہیں تو اس کی وجہ محنت کش عوام کی تحریک اور انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے نوجوان گوریلا حل کی طرف دیکھتے ہیں۔
انقلابی سوشلسٹ انفرادی دہشت گردی پر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ حکمران طبقہ اور اس میڈیا کی جانب سے دہشت گردی پر کی جانی والی تنقید سے بہت مختلف ہوتی ہے جب دہشت گردی کی بات آتی ہے تو سامراج اور ریاست سے بڑے دہشت گرد کوئی نہیں اور ان کی دہشت گردہ نہ صرف لاکھوں کروڑوں لوگوں کی جان لے چکی ہے بلکہ یہ دنیا میں جاری استحصال و جبر اور جنگ وجدل کے ذمہ دار ہیں۔اکثرگوریلا گروپ نظام کی محرومیوں اور بربادیوں کی پیداوار ہیں۔اس لئے ظاہر ہے ہماری جدوجہد سامراج اور ریاست کے خلاف ہونی چاہئے اور یوں ہی ہم انفرادی دہشت گردی کے مقابلے میں محنت کش عوام کی سیاسی جدوجہد تعمیر کر کے دہشت گرد گروپوں کا متبادل پیش کر سکتے ہیں اور جنگ و جدل اور قومی جبر سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
ہم دنیا پر جنگ و جبر مسلط کرنے والوں کے خلاف تشدد کے استعمال کے مخالف نہیں ہیں اس کے برعکس ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد تو ٹالا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ حکمران اپنی طاقت اور مراعات مزاحمت کے بغیر نہیں چھوڑے گا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے لئے محنت کش عوام کی انقلابی جدوجہد کو منظم کرنا ہوگا جس کے تحت تشدد کا نشانہ افراد نہیں نظام بنے گا۔